لطف اٹھانے والا ذہن ہو تو کسی بھی خاکے کا لطف ہر دو طرح اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر خاکہ کسی ایسے فرد کا ہے جس کے نام اور کام سے آپ واقف ہیں لیکن زندگی میں کبھی اس سے ملاقات میسر نہیں آئی تو اس کے تذکرے کا لطف علیحدہ ہے۔ آپ تذکرے میں اس شخص کے سراپا، شخصیت، مزاج اور واقعات سے ایک تصویر بناتے ہیں۔ یہ طے شدہ نہیں کہ نئی تصویر پہلے سے ذہن میں موجود تصویر میں مدغم ہو گی یا اسے ختم کر کے اس کی جگہ لے لے گی‘ لیکن بہرحال آپ سطروں اور بین السطور گلیوں میں اس شخص کو چلتے پھرتے، کام کرتے، چہل قدمی کرتے دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کی بھی اس شخصیت سے ملاقات یا ملاقاتیں ہیں، جس کا خاکہ لکھا گیا ہے تو یہ لطفِ دگر ہے۔ آپ خاکہ پڑھتے جاتے ہیں اور آپ کا ذہن خاموشی سے اس کا موازنہ اپنی بنائی شبیہ سے کرتا جاتا ہے۔ آپ نے جیسا اس فرد کو اپنے تجربے اور مشاہدے میں پایا، جیسا پرکھا اور جیسا برتا، اس کی تو آپ نفی کر ہی نہیں سکتے۔ آپ خاکے کو غیر ارادی طور پر اسی میزان میں تولنے لگتے ہیں۔ یہاں سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خاکہ نگار نے تحریر میں کس حد تک دیانت برتی یا کتنی ڈنڈی ماری۔ یا خود آپ نے اس شخصیت کو سمجھنے میں کتنی غلطی کی۔ صورت کوئی بھی ہو، آپ اس شخص کے ہمراہ رہتے ہیں اور یہ ہمراہی چلتی رہتی ہے۔
خاکے کی متحرک اور فعال تصویر کا‘ اسی فرد کی کیمرے کی کھینچی ہوئی کوئی جامد تصویر‘ جو محض ایک لمحے کو منجمد کرتی ہو‘ مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک محض عکس اور دوسرا عکسِ رواں۔ ایک جامد اور گم سم۔ دوسرامتحرک اور متکلم۔ ایک محض ایک ثانیے میں مقید، دوسرا ایک پورے دور میں زندہ۔ ایک ساعتِ منتخب کی یادگار۔ دوسری ایسی لاتعداد ساعتیں اپنے اندر سموئے ہوئے۔ اپنی صحت، بیماریوں سمیت، خوشیوں، اداسیوں کے ہمراہ۔ جوان نقوش سے جھریوں بھرے چہرے تک خد وخال بدلتے ہوئے۔ مقابلہ ہو تو کیسے ہو؟
خاکہ نگاری تو مجسمہ سازی ہے‘ مجسمہ سازی! ذرا سی چوٹ اوچھی پڑی نہیں اور خد و خال مسخ ہوئے نہیں۔ خاکہ بنیادی ساخت میں تو نہ مدح ہے نہ ذم۔ نہ شخصیت کو بڑھانے کا حیلہ ہے نہ بگاڑنے کا ہتھیار۔ نہ اپنی من پسند شخصیت کو وہ پوشاک پہنانے کا راستہ‘ جو اس پر پوری آ ہی نہیں سکتی اور نہ عمر بھر کی رنجشوں اور زخموں کا حساب برابر کرنے کا طریقہ۔ حالانکہ اب خاکہ اسی کا نام ہو کر رہ گیا ہے۔ مروجہ خاکے تو محض نیزے کی طرح جملہ پھینک مارنے کی کوششیں ہیں جوصرف جگت بازوں کی تفریح طبع کا سامان ہیں۔ مسلسل کٹیلے اور حملہ آور جملے ہوں‘ خواہ ان کا دور دور تک تعلق مذکورہ شخص سے نہ بنتا ہو‘ تو عہدِ حاضر کا مقبول خاکہ تیار سمجھیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی ''باز دید‘‘ میرے ہاتھ میں ہے اور میں اس کے ہاتھ میں۔ جو باتیں میں نے اوپر لکھیں وہ میرے دل میں تو مدت سے تھیں لیکن باز دید پڑھتے ہوئے اس طرح تازہ ہوتی گئیں جیسے بجھتے حروف پر کوئی قلم پھیر کر انہیں روشن کر دے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ہمارے عہد کے نادر اہلِ علم میں سے ہیں۔ ان کا اختصاص تو عربی زبان و ادب میں ہے لیکن وہ علم کے کسی ایک چوکھٹے میں مقید نہیں۔ محقق، عربی زبان و ادب کے باکمال شناور، بہت عمدہ شاعر، اعلیٰ نثر نگار۔ کئی دیگر جہات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے اور یہ جہات ایک وضع دار شخص کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ سید خورشید الحسن رضوی خوش نصیب نکلے کہ انہوں نے وہ دور دیکھا اور ان باکمالوں کی صحبتیں اٹھائیں جن کا ذکر اب سرد آہ بھر کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خاکوں کی کتاب ''باز دید‘‘ ایسے ہی باکمالوں کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ کئی خاکے ان شخصیات کی حیات میں اور کئی ان کے بعد تحریر کیے گئے۔ مولانا اصغر علی روحی، اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، حکیم نیر واسطی، انتظار حسین، علامہ عبدالعزیز میمن، ناصر کاظمی، منیر نیازی، مشفق خواجہ، غلام جیلانی اصغر، انور مسعود۔ یہ ان 34 شخصیات میں سے چند نام ہیں۔ یہ کتاب ایک یا چند نشستوں میں بیٹھ کر یادداشتوں کے زور پر نہیں لکھی گئی۔ یہ خاکے تو عشروں پر پھیلے ہوئے اس تحریری سفر کے سنگ میل ہیں۔ ان خاکوں میں سے کئی ایک میں پہلے پڑھ چکا تھا لیکن ایک تسلسل کے ساتھ کتاب پڑھنے کا لطف پھر حاصل ہوا۔ باز دید پڑھتے ہوئے آپ بیک وقت بہت سی باتوں کی داد دیتے ہیں۔ متوازن اور معتدل فکر کی‘ جو فی زمانہ کم کم ہے۔ رواں اور تخلیقی نثر کی‘ جسے شروع سے آخر تک دل چسپی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ شگفتہ اور بے تکلف اندازِ بیان کی‘ جس کی رو اپنے سینئر، ہم عمر اور جونیئر‘ سب سے اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہے اور علمی ادبی جملوں اور واقعات کی‘ جو یہاں سے وہاں تک سخن کے دیوسائی میں ہزار رنگ پھولوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ شعروں اور ادب پاروں پر ان جملوں کی داد دیے بغیر نہیں گزرا جا سکتا جو اپنی ذات میں تنقید سے زیادہ تخلیق ہیں۔
''لفظ ان کے ہاں اندر کی آنچ سے کانچ کی طرح پگھلتے جڑتے محسوس ہوتے تھے اور آخر کار ایک ایسی شفاف اکائی کی صورت میں برآمد ہوتے تھے جس میں کہیں جوڑ دکھائی نہیں دیتا تھا‘‘۔
یہ بات اہم ہے کہ خاکہ نگار اپنی علمی ادبی شناخت اور ممدوحین کے اسی دائرے سے متعلق ہونے کے باوجود‘ زندگی کے ہر شعبے سے جڑا رہتا ہے اور کہیں یبوست کا شکار نہیں ہوتا۔ بعض خاکے کسی دوست کی وفات کے فوراً بعد کی شدید کیفیات کے حصار میں ہیں لیکن شگفتگی سے وہ بھی خالی نہیں۔ یہ بھی ایک لاینحل مسئلہ ہے کہ کسی شخص کی تصویر اس کی تمام خوبیوں خامیوں کے ساتھ بنا کر امر کر دی جائے یا ہمیشہ کے لیے چلے جانے والے کی یادوں کے احترام میں چہرہ اس طرح کا بنایا جائے جسے صادقین خاکۂ نیم رخ کہتے تھے۔ اور جس میں چہرے کا ایک ہی رخ دیکھنے والے کے سامنے ہوتا ہے اور وہ رخِ روشن ہوتا ہے۔ خورشید صاحب نے ممدوحین کو وہ پوشاکیں پہنانے کی کوشش نہیں کی جو راست نہ آتی ہوں؛ تاہم انہوں نے ایک ایسی نظر سے صاحبِ تذکرہ کو دیکھا ہے جو عموما معائب سے گریزاں رہتی ہے اور ان کی زندگی کے اجلے رخ کو دیکھتی ہے‘ یا زیادہ سے زیادہ کچھ ملگجے حصوں کی طرف ہلکے سے اشارے کر کے گزر جاتی ہے۔ سو‘ خورشید صاحب نے لوگوں کے مزاج کی تصویر بنائی ہے لیکن اپنے مزاج کے مطابق! باز دید پڑھتے ہوئے کئی لوگوں کے چہرے نظروں میں گھومتے رہے۔ کئی فقرے اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے قہقہے گونجتے رہے۔ شہزاد صاحب مرحوم سے یہ واقعہ تو کئی بار سنا تھا لیکن یہ علم نہ تھا کہ اس کے ناظر و سامع خورشید صاحب بھی تھے۔ آپ بھی یہ واقعہ انہی کی زبانی سن لیجیے: ' 'ایک اور تصویر تیرتی ہوئی آتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک بڑے مشاعرے میں شرکت کے لیے شاعروں سے بھری ہوئی ایک ویگن دریا کے خشک پاٹ سے گزر رہی ہے۔ میں بھی اس میں قاسمی صاحب، منیر نیازی، شہزاد احمد، قتیل شفائی، غلام جیلانی اصغر وغیرہ کے ہمراہ سوار ہوں۔ قاسمی صاحب اس لق و دق ریتلے راستے سے گزرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں سوچ رہا ہوں کہ ہم اس ویرانے میں جا تو رہے ہیں، واپس کیسے آئیں گے؟ اس پر شہزاد احمد برجستہ جواب دیتے ہیں: اور یہ ڈیرہ غازی خان آباد کس طرح ہوا ہے۔ قہقہہ پڑتا ہے اور ویرانے میں ایک بہاریں کیفیت پھیل جاتی ہے‘‘۔
''باز دید‘‘ دراصل دید بان ہے جس سے آنکھ لڑا لی جائے تو ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ خورشید صاحب کا حافظہ ماشاء اللہ ابھی تک براق ہے۔ باز دید اگرچہ ان یادداشتوں ہی کا ایک سلسلہ ہے جنہیں مرتب کرنے کی میں ان سے اکثر فرمائش کرتا رہتا ہوں لیکن تشنگی ہنوز باقی ہے۔ سب بڑے سمندر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ سو‘ کیا عجب اسی بحر سے دوسرے قلزموں کا راستہ بھی بن جائے۔ سخن اور سمندر کے بھید پورے کون جان سکا ہے۔