تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     10-06-2021

کورونا، گرمی اور اساتذہ کرام

دنیا کے ہر ملک‘ ہر معاشرے‘ حتیٰ کہ ہر مذہب میں بھی استاد کا رتبہ انتہائی اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ماں کسی بھی انسان کی سب سے پہلی ٹیچر ہوتی ہے جو پیدائش کے بعد ہوش سنبھالتے ہی بچے کی تربیت شروع کر دیتی ہے‘ اسی نسبت سے اساتذہ کرام کو بھی روحانی والدین کا درجہ دیاجاتا ہے کیونکہ والدین کے بعد وہی انسان کو تربیت کے ساتھ تعلیم اور ہنر دیتے ہیں تاکہ وہ کامیاب انسان اور معاشرے کا ایک کارآمد شہری بن سکے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان بھی اساتذہ کرام کے بے حد احترام کا درس دیا گیا ہے۔ خود ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ نے فرمایا ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی دنیا میں انسانیت کی تربیت کیلئے ہی مبعوث فرمایا گیا تھا۔ حضور کریمﷺ کا فرمانِ مبارک ہے ''تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘، (صحیح بخاری) اس حدیث شریف سے بھی معلم اور تعلیم کی اہمیت اور مرتبت واضح ہو جاتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
وطن عزیز میں اساتذہ کا بے حد احترام کیا جاتا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے کیونکہ یہی قوم کے اصل معمار ہیں۔ نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے، انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں۔ اساتذہ نے عقل کو علم سے روشن کرنے کا ہنر سکھایا اور اپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان ، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے کے قابل بنایا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں کہ اساتذہ دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپرد ہے۔ اعلیٰ درجے کی محنتوں میں یہ سب سے بیش قیمت ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تہذیبی و تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی ڈور اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ استاد کی محنت ہے۔
پاکستان میں اساتذہ کرام کو دو طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ مرد و خواتین ٹیچرز ہیں جو نجی تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، انہیں تو اس بات کابخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دینی ہے کیونکہ اگر خدا نخواستہ نتائج کمزور آئے تو ان کی ملازمت بھی خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے لہٰذا وہ حتی الوسع بہتر سے بہتر پڑھانے اور سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں زیادہ تر سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار روز بروز پست ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سرکاری اساتذہ کرام کی اکثریت نے خود کو ایک معلم کے بجائے محض ایک سرکاری ملازم تصور کر لیا ہے جس کا کام حکومت کی جانب سے ملنے والی تمام مراعات لینے اور چھٹیوں کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر خوب انجوائے کرنے کے ساتھ یونین بنا کر سال بھر اپنے پے سکیل کی ترقی اور تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کے لئے سیاست اور احتجاج کرنا ہی رہ گیا ہے۔
اگرچہ یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ کورونا وائرس کے مہلک اثرات سے پاکستان زیادہ تر محفوظ رہا البتہ اس نے پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیمی شعبے کو متاثر کیا۔ نجی تعلیمی اداروں نے لاک ڈائون کے دوران بھی کبھی آن لائن کلاسز اورکبھی دیگر ذرائع سے بچوں کے ساتھ رابطہ بحال رکھا اور اپنے ٹیچرز کو تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جس سے طلبہ و طالبات کو پڑھائی میں مدد ملتی رہی اور اساتذہ کی پڑھانے کی عادت بھی برقرار رہی مگر سرکاری سکولوں اور کالجز کے قابل احترام اساتذہ کرام کو تو شاید عالمی وبا راس آ گئی کیونکہ جب بھی کہیں دنیا میں کورونا کی نئی لہر کانام لیا جاتا ہے‘ ہمارے اربابِ اختیار سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کر دیتے ہیں‘ اس سے وبا کو کچھ فرق پڑے نہ پڑے‘ گورنمنٹ ٹیچرز کی موج ضرور ہو جاتی ہے، پڑھائیں یا نہ پڑھائیں‘ سکول و کالج جائیں یا گھر بیٹھے رہیں‘ تنخواہ اور دیگر الائونسز انہیں باقاعدگی سے مل جاتے ہیں۔ پھر انہیں کیا غرض کہ قوم کے نونہالوں کے مہینے بلکہ سال ضائع ہوں۔ وہ اور زمانے تھے جب استادوں کو اپنے شاگردوں کی تعلیم وتربیت اور بہتر مستقبل کی فکر لاحق رہا کرتی تھی اور وہ محدود وسائل کے باوجود زیادہ سے زیادہ وقت دے کر وہ سلیبس پڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام اور دیگر سٹاف کو کورونا وائرس کا لاک ڈائون کافی راس آیا اور انہوں نے اس دوران خوب سیاست چمکائی اور اپنی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے اور دیگر مطالبات کے حق میں درجنوں احتجاجی مظاہرے کیے۔ بیشتر مطالبات تسلیم بھی کروائے گئے اور مزید کیلئے تاحال کوشاں ہیں۔ اس دوران گورنمنٹ سکولوں اور کالجز میں زیر تعلیم بچے بے یارو مددگار رہے اور اکثریت منفی سرگرمیوں میں مشغول رہی۔ یہاں ایک بات واضح رہے کہ ہم اساتذہ سمیت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ہرگز مخالف نہیں، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے اورعوام کی قوت خرید ختم ہونے کو پہنچ چکی ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کرے لیکن اس کے ساتھ اساتذہ کرام کو بھی چاہئے کہ اپنے فرائض منصبی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بچوں کو کورس مکمل کرائیں کیونکہ پہلے ہی بچوں کا ڈیڑھ سال کورونا کے سبب ضائع ہو چکا ہے۔
طویل عرصہ بندش کے بعد خدا خدا کرکے تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو نجی اداروں نے اپنے بچوں کو امتحانات کی بھرپور تیاری شروع کرا دی لیکن شاید یہ بات کچھ لوگوں کو پسند نہ آئی‘ یہ غالباً اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر چند دنوں کیلئے بحال ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کے خلاف انتہائی منظم مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اس مہم میں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ سکولوں کی بندش کا فیصلہ انتہائی مستحسن تھا اور اب امتحانات کے حوالے سے چند روز کے لئے جو تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں‘ یہ موجودہ حکومت کا نہایت ظالمانہ اقدام ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت زیادہ شیئر کی جا رہی ہے جس میں بتایا جا رہا ہے کہ سکول کھلنے پر والدین بہت رنجیدہ ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بیشتر والدین نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا ہے کہ کووڈ 19 کی شدت کم ہوئی ہے اور بچوں کو امتحانات کی تیاری کا کچھ موقع ملا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ کے مطابق: ''شدید گرمی اور حبس میں سکولوں کو کھولنے پر والدین سراپا احتجاج، سکول کھولنے کے فیصلے پر بچوں کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی‘ والدین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں سکول کھولنے کے وزارتِ تعلیم کے اچانک فیصلے سے بچوں کے بیمار ہونے کا خدشہ ہے، حکومت سارے معاملے کو غیر سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے‘ جب جی چاہتا ہے تعلیمی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں اور جب دل کرتا ہے‘ کھول دیتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ چند سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی جانب سے گرمی سے نڈھال بچوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ شدید گرمی کے پیشِ نظر سکول، کالج اور تعلیمی ادارے فی الفور بند کر دیے جائیں۔
یقین کریں مذکورہ پوسٹس سے والدین کا دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ وہ سرکاری طبقہ ہے جو اب طویل چھٹیوں کا عادی ہو چکا ہے۔ اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ موجودہ حالات دنیا بھر کیلئے سخت اور مشکل ہیں، آپ کا پیشہ بڑا مقدس ہے، موسم کی شدت ایک طرف لیکن اپنے فرائض منصبی کا بھی خیال رکھیں اور طویل چھٹیوں کے بعد بچوں کا مستقبل بچانے کیلئے چند روز کی مشکلات برداشت کر لیں، اسی سے استاد اور شاگرد کا دیرینہ تعلق بحال ہوگا اور اللہ پاک بھی راضی ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved