بے سمت رہتے ہوئے سفر کرنے کا تماشا اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ہمیں دیکھے۔ سمت سے محروم رہنے پر کوئی منزل تک پہنچ سکتا ہے؟ یقینا نہیں! مگر ہم کوشش کرنے سے باز نہیں آرہے! اِسے کوئی کچھ بھی کہتا پھرے، ہم تو ''جنون‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، جو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر کیا جائے اُسے جنون کہہ دینے سے دل کو سکون ملتا ہو تو ایسا کہنے میں ہرج کیا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے کے لیے سمت کا تعین ہمیشہ ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی دور میں امریکا نے بھی نوزائیدہ مملکت سے تعلقات بڑھائے اور سابق سوویت یونین نے بھی اپنی سی کوشش کی۔ برصغیر نے برطانیہ سے آزادی پائی تھی اس لیے یہاں کے کلچر اور مزاج پر ولایتی اثرات نمایاں تھے۔ 1947ء میں جس افسر شاہی نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا اُس پر امریکا اور یورپ کے اثرات بہت نمایاں تھے۔ یہ بالکل فطری امر تھا۔ بیشتر افسران نے تربیت ہی مغربی ماحول میں پائی تھی۔ مغربی اثرات کا لازمی منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پاکستان نے ابتدائی مراحل ہی میں سوویت بلاک کی طرف سے ملنے والے اشاروں کو خیرباد کہتے ہوئے نام نہاد آزاد دنیا یعنی مغربی بلاک کو اپنالیا۔ یورپ اور امریکا کے زیرِ دست رہنے کو گوارا کرنا اصلاً اس خیال کے تحت بھی تھا کہ جو بے مثال ترقی مغرب نے کی ہے اُس میں سے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ علاوہ ازیں ''خدا بیزار‘‘ اشتراکیوں سے ''اہلِ کتاب‘‘ مغربی دنیا بہتر گردانی گئی۔ خیال یہ تھا کہ شاید یہ قربت ہمارے لیے تھوڑی بہت بہتری پیدا کرے گی۔ اور پھر مزاج بھی ملتا ہی تھا۔
جو ہم نے سوچا تھا ویسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ ریاستوں کے مفادات کی بات ہو تو مذہب، نسل، نظریہ ... سبھی کچھ طاق پر دھرا رہ جاتا ہے۔ ہمارے معاملات میں بھی یہی ہوا۔ امریکا اور یورپ کے اپنے مفادات تھے۔ پاکستان کا محلِ وقوع ایسا تھا (اور ہے) کہ کسی بھی بڑی طاقت کے لیے اُسے نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔ امریکا اور یورپ نے پاکستان کے محلِ وقوع سے آج تک بھرپور استفادہ کیا ہے مگر کوشش یہ رہی کہ پاکستان سے فائدہ تو اٹھالیا جائے، جواب میں اِسے کچھ خاص نہ دیا جائے۔
ایک دور تھا جب سابق سوویت یونین گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان سے ہوکر پاکستان سے بھی گزرنا چاہتا تھا۔ 1950، 1960 اور 1970 کے عشروں میں ہمارے حکمران مغرب پرستی میں حد سے گزر گئے ۔ انہیں مغرب سے ہٹ کر کچھ سُوجھتا ہی نہیں تھا۔ دانش مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ دیگر دنیا کی طرح اعتدال کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے اشتراکی دنیا سے بھی بہتر تعلقات استوار رکھے جاتے۔ سفارت کاری اور بین الریاستی تعلقات کا ایک زرّیں اصول یہ ہے کہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے جاتے۔ ہم نے مغرب کو اپنی پسندیدہ ترین ٹوکری قرار دے کر سارے انڈے اُسی میں رکھ دیے اور پھر قدم قدم پر اِس انتہائی نوعیت کی بے ذہنی و بے عقلی کا نتیجہ بھی بھگتا۔
امریکا نے ہمیں اپنا سمجھا ہے نہ یورپ نے۔ دونوں کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ اس میں زیادہ قصور ہمارا ہی ہے جب ہم نادانی پر بضد رہے ہیں تو پھر اُنہیں کوسنے کی ضرورت اور گنجائش ہی کہاں باقی رہتی ہے؟ جب تک بے وقوف زندہ ہیں، عقل مند بھوکے نہیں مرسکتے۔ جو دور ہمارے اربابِ حل و عقد سے دانش مندی کا متقاضی تھا وہ دور تو مغرب پرستی میں گزار دیا گیا۔ اشتراکی دنیا سے متوازن تعلقات استوار کرنے کی صورت میں بہتری کی تھوڑی بہت صورت ضرور نکل سکتی تھی۔ دو قطبی دنیا میں پاکستان جیسی ''جھولتی‘‘ ریاستوں کا کردار بہت اہم تھا کیونکہ ایسے غیر معمولی محلِ وقوع کی حامل ریاستوں کی دانش مندی ہی دو قطبی دنیا کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ پاکستان اور اِسی قبیل کی دوسری ریاستوں نے دانش مندی سے کام لینے میں تاخیر، تساہل اور کوتاہی‘ تینوں کا ارتکاب کیا اور دو قطبی دنیا کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ امریکا اور یورپ نے مل کو ان ریاستوں کو اپنے جال میں پھنساکر سوویت یونین کو چلتا کیا۔ ہم نے سینہ تان کر افغانوں کے ساتھ سوویت یونین کی تحلیل کا کریڈٹ لیا۔ اس کا نتیجہ بھی اب سب کے سامنے ہے۔ امریکا تین عشروں سے بے لگام ہے۔ اُسے روکنے والا کوئی نہیں۔ یورپ بھی امریکا کو قابو کرنے میں بہت حد تک ناکام رہا ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد پاکستان کے لیے پھر ایک اچھا موقع ہاتھ آیا کہ روس سے ہاتھ ملاکر اپنے چند ایک معاملات میں متبادل انتظامات یقینی بناتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کے لیے پاکستان کو قبول کرنا آسان نہ ہوتا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ روس کو گرم پانیوں تک آنا تھا اور آج بھی اُس کی یہی خواہش ہے۔ وسطِ ایشیا اور افغانستان کے بعد اُس کے لیے صرف پاکستان کو رام کرنا رہ جاتا ہے۔ ہم نے چین کو بھی تو راہداری فراہم کی ہے۔ ایسے میں وسطِ ایشیا اور روس دونوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرنے میں کیا قباحت ہے؟ پاکستان اگر روس سے واقعی قریب ہونا چاہتا تو چین کی مدد سے ایسا کیا جاسکتا تھا۔ ایک دور تھا کہ پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کی سی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے دونوں کو مذاکرات کی میز تک لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
سرد جنگ کے ختم ہونے پر ہمیں بہت کچھ کرنا تھا جو نہ کیا جاسکا۔ ہوم ورک لازم تھا مگر اس کی زحمت گوارا کیے بغیر نئی راہوں پر چلنا شروع کردیا۔ جس افغانستان میں سوویت یونین پھنس کر‘ الجھ کر رہ گیا تھا اُسی میں ہم بھی تو الجھ کر اس نہج کو پہنچے۔ اور اب ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ ہم افغانستان کی دلدل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بہت کچھ پانے کی دُھن میں ہم نے بہت سوں کو دیکھا ہے اور بہت سوں کو بھگتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کئی ایک نے ہمارا بھگتان کردیا ہے۔ شہریارؔ کا مطلع ہے ؎
جستجو جس کی تھی اُس کو تو نہ پایا ہم نے
اِس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
آج پھر ہم عجیب دو راہے پر کھڑے ہیں۔ ایک دنیا کے ہو پائیں اِس دُھن میں ہم نے ایک دنیا دیکھ لی ہے مگر جس کی جستجو تھی اُسے تاحال نہیں پاسکے۔ بین الریاستی معاملات میں حتمی دوستی ہوتی ہے نہ حتمی دشمنی۔ سب کچھ وقت کی نزاکت اور حالات کی نوعیت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اور یہ سب کچھ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔ ہاں! دانش مندی اِس میں ہے کہ ریاستیں اپنے معاملات کو دیکھ بھال کر طے کریں اور نقصان کے احتمال کی گنجائش کم سے کم سطح پر رکھیں۔ ہم نے دنیا کو کئی بار دیکھا ہے۔ اور کتنی بار دیکھیں گے؟ سفارت کاری و بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے دَر دَر بھٹکنے کی کوئی تو حد ہونی چاہیے۔ دوسروں کی لڑائی کے لیے اپنا آنگن فراہم کرنے کی روش کب تک برقرار رکھی جائے گی؟ سوچے سمجھے بغیر دوستی اور سوچے سمجھے بغیر دشمنی دونوں ہی سراسر خسارے کا معاملہ ہیں۔ اب سنبھلنے کی گھڑی ہے۔ لازم ہے کہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ پُلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکا ہے۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ کب ہم واقعی سنجیدہ ہوتے ہیں۔امریکا اور یورپ کے معاملات بہت بدل چکے ہیں۔ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات یورپ اچھی طرح سمجھتا ہے اس لیے وہ اپنا راستہ بدل رہا ہے۔ ہر معاملے میں اُس کی ہاں میں ہاں ملانے کی روش بھی اب بیشتر یورپی ریاستوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ہمارے اربابِ حل و عقد کے پاس حقیقت پسندانہ فیصلوں کے لیے زیادہ وقت نہیں ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے