تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     11-06-2021

’’لاہور لاہور اے‘‘

اب تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو ہے‘ گھر سے پڑھانے پر مجبور ہوں۔ میں تو سکرینوں پہ نظر جمانے سے تنگ آ چکا ہوں۔ لوگ جسے وقت گزاری کا مشغلہ خیال کرتے ہیں‘ میرے لئے عذاب سے کم نہیں۔ ہم کتابوں‘ رسالوں اور اخباروں کے زمانے کے لوگ ہیں۔ ابھی اندر سے وہ تبدیلی نہیں آ سکی‘ جو نئی نسل کا فطری مزاج نظر آ رہا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تین گھنٹے لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر درس و تدریس کی‘ تو پھر موبائل فون پر بیٹھ جائیں‘ وہاں سے دل بھرے تو ٹیلی وژن کا رخ کریں۔ یہ زندگی دوسروں کو مبارک‘ ہمارے لئے کمپیوٹر کی سکرین صرف ضروری اور محدود وقت کیلئے ہے‘ اور جونہی چھٹی ملتی ہے‘ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ اب تو یاد نہیں کب کوئی سیاسی پروگرام دیکھا تھا۔ ارطغرل بھی دیکھ چکے۔ ایک اقبالی بیان یہاں ضروری ہے کہ آج کے دور میں کمپیوٹر کے بغیر ہمارا کام چلتا ہی نہیں۔ اس کے بغیر نہ ہم باہر کے اخبار پڑھ سکتے ہیں اور نہ تحقیقی مواد اکٹھا کر سکتے ہیں۔ سب کچھ ویب پہ نہیں‘ مگر بہت کچھ مل جاتا ہے۔ طریقہ معلوم ہونا چاہئے۔ میری تعلیم مکمل ہوئی تو کمپیوٹر تعلیمی میدان میں اتر چکا تھا۔ تب سے انگریزی میں لکھنے کا کام‘ کتابیں اور مقالے‘ سب کمپیوٹر پر ہی کرتے ہیں‘ لیکن پڑھانے کا لطف کمپیوٹر پہ نہیں آتا‘ وہ تو کلاس روم میں ہی ممکن ہے۔ اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں لاہور کو بہت مس کیا۔ دوستوں کو‘ ہم کاروں اور جامعہ کے ماحول کو‘ صرف دو تین مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہو سکا۔
چند دن پہلے کسی سرکاری جامعہ کے سنڈیکیٹ کی میٹنگ لاہور میں مقرر تھی تو شرکت کرنا ضروری تھا۔ تقریباً بیس سال بسوں میں سفر کرنے کے بعد اب خود گاڑی چلا کر لاہور آیا۔ کبھی ارادہ نہ تھا کہ بسوں سے سفر کرنا ترک کروں گا‘ مگر وبا کے پھیلائو نے مجبور کر دیا۔ اب جہاں کہیں بھی جانا ہو‘ اپنی رفتار اور اپنے وقت کے مطابق دھیمے دھیمے بخیروعافیت پہنچ ہی جاتا ہوں۔ لاہور سے خاکسار کا رشتہ بہت پُرانا ہے۔ پہلی مرتبہ انیس سو اڑسٹھ میں بذریعہ ٹرین کالج کی ڈیبیٹنگ ٹیم کے ممبر کی حیثیت سے آیا تھا۔ انار کلی کے وسط میں دہلی مسلم ہوٹل اب بھی موجود ہے۔ اس زمانے میں معقول جگہ تھی۔ ہمارا قیام وہیں تھا۔ صبح کے ناشتے میں میٹھی اور ٹھنڈی لسی کا جگ اور تلے ہوئے انڈے اور پراٹھے تہہ بہ تہہ ہم اڑاتے۔ میرے ساتھ منصور قیصرانی اور ایک اور صاحب تھے‘ جن کا نام اب یاد نہیں۔ قیصرانی سے تو پُرانا یارانہ ہے‘ اب بھی ملاقات رہتی ہے۔ ایک دو دن ہم تقریر کرنے کی مشق میں مصروف رہے‘ اور آخر وہ دن بھی آ پہنچا جس کا بے قراری سے انتظار تھا۔ مباحثہ پنجاب یونیورسٹی کے تاریخی سینیٹ ہال میں منعقد ہوا۔ انگریزوں کے زمانے کی یہ عالیشان عمارت جامعہ پنجاب کی دیگر اسی طرز کی عمارتوں کے درمیان اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ صدارت اردو کے مشہور ادیب‘ مورخ اور نقاد ڈاکٹر عبداللہنے کی۔ عنوان 'تعلیمِ نسواں‘ تھا اور مجھے عورتوں کی تعلیم کے خلاف دلائل دینے تھے۔ مباحثے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف پُرجوش خطیب کی طرح بات کریں بلکہ آپ کی بات میں وزن بھی ہو۔ زبان سلجھی ہوئی اور دلائل جاندار ہوں۔ سٹیج پر آ کر تقریر شروع ہی کی تھی کہ لاہوریوں نے ایسی ہوٹنگ کی کہ اس شور شرابے میں خود بھی اپنی آواز نہیں سن پا رہا تھا‘ صاحبِ صدر کو چھوڑیں کہ مجھے یاد ہے وہ اونچا سنتے تھے۔ کوئی مائیک وغیرہ نہ تھے۔ ادھر میں کوئی دلیل پیش کرتا‘ ادھر وہ شور برپا کر دیتے۔
مجھ سے پہلے موضوع کے حق میں لاہور کے مشہور کالجوں کی طالبات زبردست تقاریر کرنے کے بعد دادوتحسین‘ تالیوں اور شاباش کے گونجتے نعروں میں فاتحانہ انداز میں اپنی نشستیں سنبھال چکی تھیں۔ جب تک تقریر جاری رکھی‘ مخالفانہ نعروں کی زد میں رہا۔ پسپائی گوارا نہ تھی۔ خدا خدا کرکے اپنا وقت پورا کیا‘ لیکن جب تک اپنی جگہ پر بیٹھ نہیں گیا‘ شور میرا پیچھا کرتا رہا۔ ٹرافی تو انہیں ملی جو خاکسار سے بہتر مقرر تھے‘ میرا انعام یہ تھا کہ بعد میں چائے پر ڈاکٹر سید عبداللہ نے مجھے شاباش دی اور فرمایا کہ اپنی بات بلا جھجک کہہ دینا ہی سب سے بڑی فتح ہے۔ کالج کے دور میں کوئی تقریری مقابلہ‘ کوئی مباحثہ ایسا نہ تھا‘ جس میں شرکت نہ کی ہو۔ ٹرافی کبھی ہاتھ نہ لگی۔ سوچتا ہوں کتنا کچھ حاصل کیا۔ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر ہوٹنگ کا مقابلہ کرنے‘ بات جاری رکھنے سے ہی طلبا میں خود اعتمادی آتی ہے۔ ہمیشہ طلبا کو بات کرنے‘ بحث میں حصہ لینے اور ہر نوع کے دلائل تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ہم سہل زبان میں جسے تنقیدی سوچ یا ذہن کہتے ہیں۔ مقابل دلیل سے سنورتا اور استوار ہوتا ہے۔ سماجی حقیقتیں سائنسی اصول نہیں‘ آرا‘ مشاہدے‘ تجربے اور تجزیے ہوتے ہیں‘ جتنے لوگ اتنی سماجی صداقتیں‘ کسی کو دوسری سچائی پر فوقیت نہیں‘ اگر ہے تو اپنی ذات کی حد تک۔
لاہور کے پہلے سفر نے میری زندگی بدل ڈالی۔ سوچیں‘ ہمارے زمانے کے اساتذہ کتنا ہماری تعلیم و تربیت میں دلچسپی رکھتے تھے‘ کھوج میں رہتے تھے کہ ملک کے کس کونے میں کہاں کوئی تقریری مقابلہ‘ ادبی اکٹھ یا کھیلوں کے میلے منعقد ہو رہے ہیں۔ ٹیمیں تشکیل دیتے‘ کچھ اور ٹریننگ کرواتے اور ہمیں لے کر چل پڑتے۔ لاہور دیکھا تو دنیا ہی بدل گئی۔ تب کاریں نہ تھیں‘ کچھ منی بسیں‘ تانگے‘ ٹیکسیاں اور رکشے۔ ہم نے لاہور کے شاہی قلعے سے لے کر مال روڈ‘ انار کلی اور مال روڈ سے ملنے والی سڑک پر کئی دن پیدل سفر کئے۔ جس عمارت کو دیکھتے‘ بس دیکھتے رہ جاتے۔ شاہی قلعے میں تو ایک دو دن قیام بھی کیا‘ وہاں ہمارے ساتھ آئے ہوئے استاد محترم تحسین حیات اثر صاحب کے کوئی عزیز کسی محکمے میں تعینات تھے۔ میکلوڈ روڈ پر ہم استاد کی ہمراہی میں چل پھر رہے تھے کہ قریب ہی شورش کاشمیری صاحب نظر آئے۔ ان دنوں ایوب خان کے خلاف تحریک میں لکھنے اور بولنے میں بہت سرگرم تھے۔ وقت ضائع کئے بغیر ہم نے ان سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی اور تعارف ہر جگہ کراتے وقت شروع اس بات سے کرتے کہ 'ہم مباحثے میں شرکت کیلئے ڈیرہ غازی خان سے آئے ہیں‘۔ انہوں نے بڑے مشفقانہ انداز میں ہماری ہمت افزائی کی۔ وہ لمحے اور وہ ملاقات میری متاع حیات کے خوبصورت ٹکڑوں میں سے ایک ہے۔ ایک مرتبہ شورش کاشمیری کے بیٹے اور ان کی بیٹی امریکہ سے لاہور آئے تو خاکسار سے ملنے لمز تشریف لائے۔ وہ خصوصی طور پر ملاقات کیلئے آئے تھے۔ انہیں اپنی عقیدت اور سعادت مندی کا قصہ بھی سنایا۔ لاہور کی یادوں پر تو ایک نہیں کئی کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں۔ بہت لوگ لکھ رہے ہیں کہ اسی طرح شہروں کی علمی‘ تہذیبی اور دانشوری کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔
اب تک لاہور میں چھبیس سال گزار چکا ہوں۔ ہمیشہ خواہش رہی کہ لاہور ہی میں ہمیشہ کیلئے رہوں گا‘ مگر میری بدقسمتی کہ امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد چالیس سال قبل واپس آیا تھا تو مجھے جوائن نہ کرنے دیا گیا۔ سختیوں کے اس زمانے میں ہمارے اپنے ہی دوستوں کے دل تنگ اور مزاج میں سختی آ گئی تھی۔ دوسری ترجیح قائدِ اعظم یونیورسٹی تھی۔ وہاں آسانی سے ٹھکانہ مل گیا۔ کئی سال لاہور کی خلش رہی۔ ایک مرتبہ دوبارہ بھی اپلائی کیا‘ مگر اسی زمانے میں خاکسار کو اس قابل خیال نہ کیا گیا کہ وہاں استاد تعینات ہو سکوں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں لاہور سے کہا کہ میں نے تیری محبت میں ثابت قدمی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ دانہ پانی اسلام آباد میں طے پا گیا۔ سمجھوتا کر لیا مگر پھر جب لمز میں پڑھانے کا موقع ملا تو لاہور گزشتہ دو دہائیوں سے آنا جانا پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ فرصت ملتے ہی پُرانے لاہور کے گلی کوچوں میں دیوانوں کی طرح بلا مقصد گھومنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ سردیوں میں تو تقریباً ہر ماہ کم از کم ایک مٹر گشتی چکر ضرور لگتا ہے۔ میرے اور سب کے لاہور شہر کی مزید کچھ باتیں اگلے کالم میں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved