تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-06-2021

ریلوے حادثہ اور دلخراش واقعہ

ریلوے کے ایک اور حادثے کی خبر آئی کہ آدھی رات کو گھوٹکی کے قریب دو مسافر ٹرینیں ٹکرا گئیں۔ گھپ اندھیرے میں بدقسمت مسافروں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ 65 زندہ مردوزن اور بچے آنِ واحد میں لقمۂ اجل بن گئے۔ 150 سے اوپر زخموں سے چور مسافر دونوں گاڑیوں کے انجر پنجر میں پھنس گئے۔ اب وہ ہسپتالوں کے اندر حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ خبریں سن کر دل پاش پاش ہوگیا۔ ابھی اس سانحہ سے سنبھل نہ پائے تھے کہ ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ کینیڈا کے صوبے انتاریو کے شہر لندن میں ایک بیس سالہ دہشت گرد نے پاکستانی نژاد ایک مسلم فیملی کو اپنی تیز رفتار گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا کر کچل ڈالا۔ دہشتگردی کے اس واقعے میں میاں بیوی، پندرہ سالہ بچی اور اس کی 74 سالہ دادی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس واقعے نے دلِ رنجور کو مزید زخموں سے چور کردیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے مظلوم خاندان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا اور علی الاعلان کہا کہ ہمارے ملک میں دہشتگردی کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس افسوسناک واقعہ کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے۔
ریلوے کے خوفناک حادثے کو دیکھئے، یکایک موت کے منہ میں چلے جانے والے مسافروں کے غم سے نڈھال لواحقین کو دیکھئے، درد کی شدت سے چیخ پکار کرتے مریضوں کو دیکھئے اور ہمارے وزیروں اور مشیروں کی بے حسی بھی دیکھئے۔ ایک بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اگر صفِ ماتم بچھی ہو تو ایسے موقع پر چپ رہا جاتا ہے مگر ہمارے وزیر‘ مشیر ایسے جذبات سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔ لواحقین اور زخمیوں سے اظہارِ ہمدردی کرنے کے بجائے وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے حادثے کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈال دی اور کہاکہ سعد رفیق کے گناہوں پر سواتی کیوں استعفیٰ دیں۔ موجودہ وزیر ریلوے اعظم سواتی جائے حادثہ پر پہنچ توگئے مگر انہوں نے وہاں چٹاخ پٹاخ منطق والا یہ بیان داغنا بھی ضروری سمجھا کہ اگر میرے مستعفی ہونے سے ہلاک ہونے والے انسان زندہ ہو جائیں گے تو میں مستعفی ہونے کیلئے تیار ہوں۔ ان بیانوں میں کہیں بھی آپ کو دردمندی کی کوئی ادنیٰ سی لہر بھی نہیں محسوس ہوگی۔
یوں تو ریلوے گزشتہ کئی دہائیوں سے تباہی و بربادی کے راستے پر لڑھکتی چلی جا رہی تھی تاہم خواجہ سعد رفیق کے دور میں ریلوے قدرے سنبھلی ضرور مگر اس حکومت کے تین سالہ دور میں تنزلی کا سفر تیزتر ہوگیا ہے۔ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی دلچسپی اپنی شخصیت کی پروجیکشن میں تھی۔
شیخ صاحب کے زمانے میں قابل مرمت ٹریک کی تفصیلات سامنے آئی تھیں مگر انہوں نے مرمت کے کاموں میں خاص دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ اُن کے خیال میں بھی ایم ایل ون آئے گا تو ہماری مشکلات دور ہو جائیں گی۔ ایم ایل ون کیا ہے؟ یہ متبادل مین ٹریک سی پیک کا حصہ ہے‘ مگر یہ منصوبہ جسے تین برس پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا بوجوہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ نیز یہ منصوبہ شروع ہو بھی جائے تو کوئی پلک جھپکنے میں مکمل نہیں ہو سکے گا بلکہ اس کی تکمیل پر پندرہ برس لگیں گے۔ گزشتہ دو تین برسوں سے ریلوے کے عام گینگ مین سے لے کر اعلیٰ افسران تک ہر کوئی بقول علامہ اقبال ؔ ع
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
انگریزوں کے زمانے سے لے کر اب تک ریلوے میں ایک ایسا مینوئل نظام ہے جس میں گینگ مینوں کی سطح سے لے کر سپروائزروں تک روزانہ کی بنیاد پر ریلوے کے ہر سیکشن میں ٹریک کی جانچ پڑتال کا کام ہوتا ہے۔ ہر گروپ کے ذمے چند کلومیٹر کا علاقہ ہوتا ہے جہاں وہ ریلوے پٹڑی سے لے کر نٹ بولٹوں تک ہر چیز چیک کرتے ہیں اور خود ہی چھوٹی موٹی رپیئر بھی کر لیتے ہیں۔ جہاں ٹریک کی بڑی خرابی سامنے آئے اس کی خبر سیکشن انچارج کو دی جاتی ہے جو ہیڈکوارٹر سے رابطہ کرکے فوری طور پر قابل اصلاح ٹریک کی مرمت کرواتا ہے۔
ریلوے کی ابتدائی انکوائری کے مطابق حادثے کا سبب پٹڑی کے جوڑ کا ٹوٹنا ہے۔ بالفرض ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریلوے کا وہ پرانا مینوئل نظام کام نہیں کر رہا تھا ورنہ ڈیلی چیکنگ میں یہ فالٹ یقینا پکڑا جاتا۔ اگر گھوٹکی والا ٹریک نہایت خراب اور خستہ تھا تو پھر سکھر سیکشن انچارج نے یہاں پر سپیڈ کو کیوں نہ کنٹرول کیا۔ ہماری تحقیق کے مطابق ہر سیکشن انچارج کو ایکسپریس ٹرین تک کی حسبِ ضرورت سپیڈ گھٹانے کا مکمل اختیار ہے۔ ڈی ایس سکھر طارق لطیف نے کہا ہے کہ کئی بار ٹریک کی مرمت کیلئے محکمے کے اعلیٰ افسران کو لکھا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ چیف انجینئر نے 4 جون کے خط میں لکھا کہ آپ کو تمام وسائل دیئے گئے ہیں مگر آپ نے مرمت کا کام کیوں نہیں شروع کروایا۔ اس کے جواب میں ڈی ایس ریلوے نے لکھا کہ سو روپے کا کام ایک روپے میں نہیں ہو سکتا۔ اس حکومت کا ریلوے میں ہی نہیں ہر محکمے میں یہی رویہ ہے۔ مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کرتی اور اس کی سوچ یہ ہے کہ کام ہوتا ہے تو ہو نہیں ہوتا تو نہ سہی۔
اب ذرا چشم تصور سے اس منظر کو دیکھئے کہ کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی 13 بوگیاں پٹڑی سے اتر کر دوسرے ٹریک پر جا گریں۔ ان کے گرنے کے صرف 2 منٹ بعد اس کے مخالف ٹریک پر راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس اُن سے ٹکرا گئی اور یوں ہر طرف شورِ قیامت تھا اور زخمیوں کی چیخ و پکار سے کہرام برپا تھا‘ مگر خرابوں میں ان مظلوموں کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ آج 21ویں صدی کے جدید ترین کمیونیکیشن سسٹم کی ہم نے ریلوے کو ہوا تک نہیں لگنے دی لہٰذا دو گھنٹوں بعد ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ سکیں۔
میں نے ریلوے کے ایک سابق اعلیٰ افسر سے پوچھا کہ کیا ریلوے میں کوئی ایسا سسٹم نہیں کہ جہازوں کی طرح اُن میں ریڈار لگا ہو اور پندرہ بیس کلومیٹر سے گاڑیاں ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور ڈرائیور آپس میں رابطہ رکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ چند سال پہلے ریلوے نے آٹومیٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم (ATP) لگوانے کا فیصلہ کیا۔ سویڈن کی ایک کمپنی نے کام بھی شروع کر دیا مگر پھر اس کمپنی کے خلاف ریلوے کے اندر سے سازشیں شروع ہوگئیں۔ چند افسران کو گرفتار کر لیا گیا۔ بیرونی کمپنی کو جب طلب کیا گیا تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور اپنے واجبات کا مطالبہ کیے بغیر پاکستان سے نکل جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ریلوے کی تباہی و بربادی پر ایک کالم نہیں‘ تفصیلی مقالے کی ضرورت ہے مگر یہاں کالم لکھیں، مقالہ لکھیں یا کوئی تحقیقی رپورٹ پیش کریں سب بے معنی ہے کیونکہ آج کے حکمرانوں کو مخالفین پر تیراندازی کے علاوہ کسی کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اس وقت ریلوے افسران دیگر محکموں کی طرح احتساب کے ڈر‘ خوف کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتے۔ کچھ برس پہلے ریلوے کے ایک انتہائی نیک نام افسر کو اس لیے ڈیڑھ برس تک پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا کہ اس نے خراب ہو جانے والے چینی ریلوے انجنوں کو ہر وقت رواں دواں رکھنے کیلئے انجن بنانے والی چینی کمپنی کو مینٹیننس کا ٹھیکہ دے دیا۔ اس طرح وہ لابی متحرک ہوگئی جو چینی انجنوں کو ناکام کرکے کسی اور ملک کے انجنوں کو پاکستان لانا چاہتی تھی۔ ریلوے کے کینسر کو یہ حکومت بھی اچھی طرح سمجھتی ہے مگر مشکل علاج سے پہلو بچانا چاہتی ہے۔ اسی لیے اس حکومت نے ہر ناکامی کا ملبہ سابق حکومت پر ڈالنے کا آسان طریق کار اختیار کر رکھا ہے۔
اگر خلاصۂ کلام بیان کرنا ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ریلوے کی کہانی کرپشن اور سازشوں کی کہانی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved