تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     11-06-2021

کورونا کی جنگ

یہ کہا جائے کہ کورونا وبا حالیہ دہائیوں میں دنیا کو درپیش سب سے بڑی آزمائش ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کرہ ٔارض پر ڈیڑھ برس قبل جنم لینے والا مہلک وائرس اب تک کروڑوں انسانوں کو متاثر جبکہ لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنا چکا ہے اورکوئی ایسا ملک نہیں جو اس مرض کی تباہی سے محفوظ ہو۔ یہ وبائے عظیم اس عالم ِجدید کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے اس نے ثابت کر دیا کہ انسان کی بے شمار نت نئی ایجادات اور ریاستوں کی بھرپور دفاعی صلاحیتیں بھی انسانی حفاظت کی ضامن نہیں۔ اس اَن دیکھے وائرس کا وار جدید اسلحے سے کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آج تمام ممالک جنگی آلات سے زیادہ ویکسین کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ دنیا جو کبھی کارل مارکس کے معاشی نظریے Haves and Have Nots کے گرد گھومتی تھی آج Vaccinated and Not Vaccinated میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ریاستوں کے درمیان عسکری نہیں بلکہ''Vaccine War‘‘ چھڑ چکی ہے‘ تمام عالمی قوتیں اپنی اپنی ویکسین کے مؤثر ترین ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں جبکہ حلیف ممالک کو ویکسین کی فراہی سے تعلقات مضبوط بنا کر اپنے دھڑے میں شامل کرناویکسین ڈپلومیسی کا حصہ ہے۔ آج ہر ملک نے دوسرے ممالک کے ساتھ سرحدیں بھی بند کر رکھی ہیں‘ ہوائی اڈے ویران پڑے ہیں‘ عالمی تقریبات منسوح ہو رہی ہیںیعنی یہ دنیا جو کئی سالوں سے گلوبل ویلج بن چکی تھی‘ کی شکل بدل رہی ہے۔ انسان اب شاید آزاد زندگی کو بھول جائے گا کیونکہ پورے عالم میں گو مگو کی کیفیت ہے کہ آیا یہ آزمائش کبھی ختم ہو گی یا نہیں؟ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وبا کو 'چینی فلو‘ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے‘ بالآخر وہ نہ صرف خود اس وائرس کا شکار ہوئے بلکہ یہ وبا امریکہ میں پانچ لاکھ سے زائد زندگیاں نگل گئی‘ برازیلین صدر بولسونیرو بھی لاک ڈاؤن کے مطالبے کو یہ کہہ کر ٹھکراتے رہے کہ آخر ہمیں ایک نہ ایک روز مر ہی جانا ہے اور اسی لاپروائی میں یہ مرض وہاں ساڑھے چار لاکھ سے زائد جانیں لے گیا‘ بھارت میں بھی پہلی لہر کی کم شدت کے بعد مودی سرکار کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی انہیں لے ڈوبی‘ تمام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کیا گیا اور پھر وبا کی دوسری لہر نے وہاں قیامتِ صغریٰ برپا کر دی؛چنانچہ جس جس ملک نے اس وبا کو مذاق سمجھا اور اس سے نمٹنے میں کوتاہی برتی ‘ تباہی ان کامقدر بن گئی۔
چند ماہ قبل جب دنیا میں کورونا ویکسی نیشن کا عمل شروع ہوا تو امید کی کرن جاگی کہ اب سب معمول پر آجائے گا‘ یہ سوچا جانے لگا کہ شاید انسان نے کورونا کو شکست دے دی ہے مگر حقیقتاً یہ جنگ اب تک جاری ہے‘ جسے شاید لڑتے ہوئے کئی سال بیت جائیں گے۔ دو بڑی وجوہ اس جنگ کے طویل مدت تک جاری رہنے کا ثبوت ہیں‘ پہلی یہ کہ یہ وائرس ہر گزرتے دن کے ساتھ خود کو تبدل کر رہا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ دنیا کی آبادی کا کثیر حصہ تاحال ویکسین سے محروم ہے۔حالیہ دنوں کورونا وائرس کی بھارتی قسمیں B.1.617 اورDelta variant کو دنیا بھر میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔کورونا وبا میں حالیہ بہتری کے بعد دس بڑے ممالک میں وائرس کی اس قسم کا سامنے آنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ خطرناک ویری اینٹ 50 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ جس کے خلاف ویکسین کی ایک خوراک 33 فیصد جبکہ دونوں خوراکیں 88 فیصد تحفظ دیتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس قسم کو انتہائی خطرناک ویری اینٹس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔اس وائرس کے پھیلاؤ کی بات کریں تو برطانیہ میں یومیہ سامنے آنے والے پانچ ہزار کے لگ بھگ کیسز میں 75 فیصد نئے مریض ڈیلٹا ویری اینٹ سے متاثر ہیں ‘ جس کے بعد برطانیہ میں21 جون کو کھلنے والا لاک ڈاؤن بھی مؤخر ہونے کا خدشہ ہے ۔ اسی طرح چین کے ڈیڑھ کروڑ آبادی والے صنعتی شہر Guangzhou میں بھی اس قسم کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد سخت لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے اور صنعتیں جو کھل رہی تھیں انہیں دوبارہ تالے لگ گئے ہیں۔ ماہرینِ صحت خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارتی قسم کے کورونا سے صحت یاب لوگوں کو دوبارہ متاثر کرسکتی ہے۔ کینیڈین ادارۂ صحت کی چیف Dr.Theresa Tam نے خبردار کیا ہے کہ بیشک کینیڈاا ور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین تیزی سے لگائی جا رہی ہے مگر یہ وبا جلد جان نہیں چھوڑنے والی‘ امریکی صدر کے مشیرِ صحت Dr. Fauci کا بھی ماننا ہے کہ مستقبل میں وائرس شکلیں بدل سکتا ہے جس سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔
وطنِ عزیز کی بات کریں تو 22 کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کو کورونا کے خلاف نبردآزما ہونے کیلئے پہلے مرحلے میں آٹھ کروڑ ویکسین فوری طور پر درکار ہیں‘ مگر صورتحال یہ ہے کہ اب تک ملک میں 43 لاکھ کے قریب افراد کو ویکسین کی ایک خوراک جبکہ بمشکل 24 لاکھ کے قریب افراد کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگ پائی ہیں‘ یہ شرح آبادی کے لحاظ سے 1.2 فیصد بنتی ہے جبکہ ویکسین کی دوڑ میں مغرب تو آگے ہے ہی مگر بھارت ‘ بنگلہ دیش‘ نیپال ‘ سری لنکا بھی ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں لگنے والی ویکسین کا جائزہ لیا جائے تو اکثریت عوام کو چین کی بنی ہوئی سینو فام ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ فائزر اور ایسٹرازینیکا ویکسینز بھی مخصوص افراد کو لگ رہی ہیں۔ یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ پاکستان میں عام استعمال ہونے والی سینو فام ویکسین عالمی ادارہ صحت سے تصدیق شدہ ہے جس کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 79فیصد مؤثر قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ چینی ویکسین کے حوالے سے بعض متنازع باتیں بھی گردش کررہی ہیں تاہم عرب امارات ‘ جہاں کی ویکسی نیشن مہم دنیا کی تیزترین ویکسی نیشن مہمات میں شامل ہے‘ نے سینو فارم پر سب سے زیادہ انحصار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات چین کی شراکت سے کورونا ویکسین تک ترقی پذیر ممالک کی پہنچ بڑھانے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ سینو فارم کمپنی اور یو اے ای کے ٹیکنالوجی ادارے G42 کے جوائنٹ وینچر سے Hayat-Vax کے نام سے سینو فارم ویکسین کی دسیوں لاکھ خوراکیں تیار کی جاچکی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کے قریب تمام ممالک جہاں پاکستانی روزگار کی غرض سے موجود ہیں‘ نے پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ جبکہ سفر کیلئے ویکسین لگانے کی شرط رکھی گئی ہے؛چنانچہ ہمیں اپنے لوگوں کیلئے ویکسین کا بندوبست کرنا ہوگاکیونکہ ترسیلات زر ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو فی الفور بدلیں‘ ہماری اولین ترجیح عوام کو جلد از جلد کورونا ویکسین لگانا اور ویکسین کی تسلسل کے ساتھ فراہمی ہونی چاہیے‘ جس کیلئے حکومت کو ٹھوس حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ بلاشبہ این سی او سی اور دیگر ادارے کام کر رہے ہیں‘ جس طرح حکومت نے کورونا ویکسین خریدنے کیلئے مزید ایک ارب ڈالر کی سمری بنائی ہے جسے منظوری کے بعد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ایسے اقدامات خوش آئند ہیں مگر ویکسین کی خریداری کے ساتھ ساتھ اس کی مقامی سطح پر تیاری کیلئے بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے‘ جیسے فائزر جس فارمولے سے تیار ہوئی ہے اس فارمولے پر پاکستانی سائنسدانوں کو بھی کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح کورونا کے باعث پوری دنیا کو انٹرنیشنل اکنامک فال آئوٹ کا سامنا ہے‘ لہٰذا ہمیں اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی معاشی پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی اور اپنی برآمدات پر خاص توجہ دینا ہوگی۔اسی طرح عوام کے گھروں کے چولہے بند کیے بغیر احتیاطی اقدامات جاری رکھنے کیلئےSustainable Efforts کی بھی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جس میں ماہرین مؤثر سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی تیار کریں جس میں بھوک اور بیماری دونوں سے بچا جا سکے‘کیونکہ ہمیں ہر حال میں کورونا کے خلاف جنگ جیتنا ہوگی‘ ورنہ ہم کسی قسم کی معاشی‘ سماجی یا دفاعی جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved