تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     11-07-2013

پاک چین تعاون اور اس کے علاقائی مضمرات

پاکستان اور چین ایک عرصے سے اقتصادی اور ترقیاتی شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینے کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ان کوششوں کے محرکات میں دونوں ملکوں کی قیادت کا بڑھتا ہوا یہ احساس ہے کہ جہاں سیاسی،سفارتی اور دفاعی شعبوں میں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون بہت وسیع اور گہرا ہے‘ وہاں اقتصادی شعبوں یعنی دوطرفہ تجارت،سرمایہ کاری،مشترکہ منصوبوں مثلاََٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ترقی میں دونوں ملکوں کے تعلقات ناکافی ہیںاور اگر پاک چین دوستی کو مضبوط اور پائدار بنانا ہے تو اقتصادی شعبوں میں بھی مزید تعاون کرنا ہو گا۔ اس سوچ کے تحت پاکستان اور چین نے تقریباً دس سال قبل دوطرفہ تجارت کو بڑھانے، پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں چینی ماہرین کی شرکت میں اضافہ کرنے کے عمل کا آغاز کیا تھا۔اس کے نتیجے میں آج چین اور پاکستان کی دوطرفہ تجارت کا حجم 12 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کے اندر چین کی سرمایہ کاری بھی تین ارب ڈالر تک بڑھی ہے اور مختلف ترقیاتی منصوبوں مثلاً کان کنی، سڑکوں اور ڈیم کی تعمیر اور پن بجلی کی پیداوار میں چینی ماہرین اور ورکرز کی تعداد میں پہلے کے مقابلے میں اضافہ ہواہے۔ لیکن تجارت اور اقتصادی شعبوں میں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کی اس مقدار کا اگر چین کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے، تو یہ انتہائی ناکافی ہے اور اسے مزید وسعت دینے کی گنجائش موجودہے۔ اس کے علاوہ اب تک جن شعبوں میں تعاون کیلئے معاہدے ہوئے، ان پر یا تو سرے سے کوئی عمل درآمد ہی نہیں ہوا اور اگر عمل درآمد کا آغاز ہوا بھی ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورتِ حال، دہشت گردی اور غیر ملکی ماہرین کو سکیورٹی فراہم کرنے میں سابق حکومتوں کی ناکامی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اوران کے وفد کے حالیہ دورئہ چین نے پاک چین تعاون کو نئی جہتیں اور نئی وسعتیں دی ہیں۔ اس کا اندازہ دونوں ملکوں کے درمیان طے پا جانے والے معاہدوںاور مفاہمت کی یاداشتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ توانائی سے لے کر تیل،گیس اور کوئلے کی تلاش، ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر کی تعمیر کے شعبوں میں تعاون کیلئے دونوں ملکوں نے متعدد دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن ان میں سب سے دور رس مضمرات کا حامل وہ معاہدہ ہے جس کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان اکنامک کاریڈور قائم کیا جائے گا۔اس منصوبے کی تکمیل پر تقریباً 18 بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور پہلے مرحلے میں چین کے صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغرکو 2000 کلو میٹر لمبی سڑک کے ذریعہ گوادر سے ملایا جائے گا۔ بعد میں ان دونوں شہروں کو ریل کے ذریعے ملا دیا جائے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین کو بھی بے شمار اقتصادی اور جیو سٹر ٹیجک فوائد حاصل ہوں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے درست فرمایا ہے کہ یہ منصوبہ ایک گیم چینجر ثابت ہو گا کیوں کہ اس سے چین کے علاوہ دنیا کے تین بڑے خطوں یعنی جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا،مغربی ایشیا کی معیشت اور جیو پالیٹیکس پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ کاشغر کو گوادر سے ریل اور سڑک کے ذریعے ملانے سے چین کو بحیرہ عرب، خلیج فارس، مشرقِ وسطیٰ، بحرہند اور اس سے آگے افریقہ تک کے علاقوں میں آسان رسائی حاصل ہو جائے گی۔ گزشتہ چند برسوں میں ان خطوں میں واقع ممالک مثلاً ایران، سعودی عرب،سوڈان اور نائیجریا کے ساتھ چین کے تجاری تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور چین ان ممالک سے تیل اور قدرتی معدنیات درآمد کرتا ہے۔یہ تجارتی سامان بحر ہند سے گزر کر آبنائے ملاکا کے راستے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد چین کے مشرقی ساحلوں پر واقع بندرگاہوں پر اتارا جاتا ہے اور وہاں سے ان اشیا کو چین کے مغربی علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ گوادر کاشغر روٹ کی تکمیل سے یہ فاصلہ صرف 2000 کلومیٹر رہ جائے گا۔ اس سے چین کو وقت اور کرائے میں بھی بچت ہو گی اور مغربی چین کے علاقوں میں ترقی کی رفتار بھی تیز ہو گی جس کا براہ راست اثر قریبی علاقوں بشمول پاکستان پر پڑے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور اب بھوٹان کے ساتھ چین کے دوطرفہ تعلقات جس رفتار سے فروغ پا رہے ہیں،اس کی بنیاد پر خطے میں چین کی دلچسپی اور اثرورسوخ میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے گوادر کی بندرگاہ کو چین کے حوالے کردینے کے بعد پاک چین اکنامک کاریڈورکے قیام سے چین جنوبی ایشیا اور بحر ہند کی تجارت، معیشت اور تزویرات میں ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرے گا۔ گزشتہ پانچ سو برس سے زائد عرصہ سے یہ خطہ مغربی طاقتوں کا حلقہ اثر رہا ہے۔ اس عرصہ کے دوران میں خصوصاً 20 ویں صدی کے آخری نصف حصے میں مختلف طاقتوں نے اس خطے پر مغربی ممالک کی بالادستی کو چیلنج کیا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔1970ء کی دہائی میں بحر ہند سابقہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ لیکن بحرِاحمر سے لے کر سائوتھ چائنا sea تک امریکہ کی زبردست عسکری موجودگی نے کسی ملک کو بھی یہاں اپنے قدم جمانے کی اجازت نہیں دی۔اب چین اس علاقے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور اس کی بنیاد اس خطے میں واقع ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے،کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط سیاسی اور دفاعی تعلقات پہلے سے موجود ہیں۔اب تجارتی اور اقتصادی تعلقات اور مواصلاتی روابط میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادرپورٹ کا آپریشن بھی چین کے پاس ہے۔ اس صورتِ حال نے امریکہ اور بھارت کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ ان کو فکر اس بات کی ہے کہ ایک طرف مشرق میں آبنائے ملاکا کے سرے پر واقع میانمار (برما) کے ساتھ چین کے گہرے تعلقات ہیں اور دوسری طرف مغرب میں آبنائے ہرمز جس کے راستے جاپان اور مشرقِ بعید کے دیگر ممالک کی70 فیصد ضروریات کا تیل بحرِہند سے گزر کر ان تک پہنچتا ہے،کے قریب گوادر پر چین کا کنڑول ہے۔ مغربی قوتیں جن میں پرتگیزی اور انگریز خصوصاً قابلِ ذکر ہیں، نے برسوں تک ان ہی دومقامات پر قبضہ کرکے بحرِہند پر اپنی بالادستی قائم کی تھی۔اگر چین کو مغرب میں پاکستان، مشرق میں میانمار(برما)اور وسطی بحرِہند میں سری لنکا میں اپنا سیاسی، اقتصادی اور عسکری اثرورسوخ قائم کرنے کا موقع ملتا ہے تو جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا اورمشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں چین کا کردار اہمیت اختیار کر جائے گا۔ بحرہند صرف دفاعی لحاظ سے ہی اہم نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ایک عظیم تجارتی شاہراہ رہا ہے۔ اب بھی ہر سال تجارتی سامان سے لدے تقریباً 70ہزار بحری جہاز بحرہند کی موجوں پر سوار یورپ اور مشرقِ بعید کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ مستقبل میں بحرِہند کی تجارتی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہونے کی توقع ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ چین کا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved