تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     11-07-2013

قوم کو شرمندگی سے بچائیں

ہماری کرکٹ ٹیم برطانیہ کا دورہ کرنے آتی ہے تو لاکھوں پاکستانیوں کے دل شدید اضطراب میں ڈوب جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور خصوصی دُعائیں مانگتے ہیں۔ ہر شخص دُوسرے سے اور اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کرکٹ ٹیم ہمارے لئے باعث فخرہوگی یا باعث شرمندگی؟ پچھلے ماہ جو ہوا وہ کسی کوکیسے بھول سکتا ہے؟ ہمارا جو برُا حال ہوا وہ نہ پوچھیں۔ ساری ٹیموں میں سب سے زیادہ خراب کارکردگی ہماری رہی۔ یقینا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اُن میں سے چند ایک میں بھی جانتا ہوں مگر یہ میرا منصب نہیں کہ میں انہیں ماہرانہ انداز میں بیان کروں۔ میں ہزار ضبط کروں مگر دو باتیں لکھنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔ اول، جب عمران خان قومی ٹیم کے کپتان تھے تو ہمارے چھ کھلاڑی انگلستان کی کائونٹی کرکٹ میں ہر سال کے پانچ ماہ بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ان دنوں ایک بھی نہیں۔ کیوں نہیں؟ دوم، ہم کرکٹ کنٹرول بورڈ کی قیادت ان لوگوں کے سپرد کیوں نہیں کرتے جو کرکٹ کو سمجھتے ہوں۔ کرکٹ اُن کا اوڑھنا بچھونا ہو۔ فوجی آمریت کے زمانہ میں جنرل توقیر ضیاء، پھر جنرل مشرف کے امریکہ میں ذاتی خدمت گار نسیم اشرف ۔ وہ گیا تو ذکاء اشرف آئے جو بڑے نیک نام اور قابل شخص ہیں مگر بینکنگ کے میدان میں۔آپ اُنہیں دندان سازی کے شعبہ کا سربراہ بنا سکتے ہیں نہ شہری ہوا بازی کا۔ اپنی تقرری میں کسی قانونی سقم کی وجہ سے اُن کی ملازمت ختم ہوئی۔ہوئی کہ یہ کام بھی سپریم کورٹ کو کرنا پڑا۔ اب میاں نواز شریف نے جو میرٹ اور صرف میرٹ کے زرّیں اُصول کو دہراتے نہیں تھکتے ، ہُماکا طلسماتی پرندہ نجم سیٹھی کے سر پر بٹھا دیا۔ ہر ماہ پانچ لاکھ روپے کے قریب تنخواہ۔ دس لاکھ روپے کی مراعات ان کا کام غیر ملکی دُوروں اور آئی سی سی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے سوا کیا کام ہو گا۔کرکٹ سے مکمل ناواقفیت کی وجہ سے وہ ان اجلاسوں میں ایک لفظ بھی نہ بول پائیں گے۔ بھلا ہو عرفان صدیقی کا،وہ میاں نواز شریف کے مداحوں میں سر فہرست ہیں مگر نجم سیٹھی کی غلط تقرری پر اُنہوں نے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگایا ہے۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ وہ نجم سیٹھی کے دوست ہیں مگر پھر بھی وہ اُصول کی بات کریں گے۔ نجم میرا دوست ہی نہیں ایک قسم کا شاگرد بھی ہے۔ 1964 ء میں جب میں ایچیسن کالج میں ایچ ایس سی (یعنی اے لیول) کے تین جفا کش طلباء کو معاشیات اور سیاسیات پڑھاتا تھا تو نجم سیٹھی میرے شاگرد بن جانے سے اس لئے بال بال بچ گئے کہ اُن کے مضامین مختلف تھے البتہ نجم کا کزن ارشد سیٹھی نہ بچ سکا۔ میں نے ایچی سن کالج میں نجم سیٹھی کو ایک بار بھی کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا۔ گذشتہ چوالیس برسوں میں اُنہیں کئی بار ملا ہوں، کرکٹ کے بارے میں اُنہوں نے آج تک نہ ایک لفظ بولا ہے نہ لکھا ہے اور غالباً سوچا بھی نہیں۔ برطانیہ میں کئی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ بطور نگران وزیرا علیٰ اُنہوں نے شہباز شریف کے لگائے ہوئے افراد کو تبدیل نہیں کیا جس کا صلہ اُنہیں اس تقرری کے ذریعہ دیا گیا۔ بدقسمتی سے اس غلط اور ناقابل دفاع تقرری نے ایک الزام کو ٹھوس ثبوت مہیا کر دیا ہے۔مناسب تو یہی تھا کہ کرکٹ کے بارے میں اپنی آہ و زاریوں پر کالم ختم کر دیا جاتا کہ غم و غصہ کے عالم میں اور کچھ نہیں سوجھتا۔ صورت حال بہت خراب ہے۔ کرکٹ کے معاملات بہتری کے متقاضی ہیں اور اصلاح کے طلب گار۔ وزیراعظم نے ہمیں نجم سیٹھی کا تحفہ دے کر سمجھا ہوگا کہ وہ ساری دُنیا کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کے دُنیا بھر میں لاکھوں شائقین جن میں انگریزوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے اور میں نے بچشم خود اُنہیں یہاں کھیلے جانے والے میچوں میں پاکستان کی پرُ جوش حمایت کرتے ہؤے دیکھا ہے، کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ پی آئی اے جس طرح قومی ائیرلائن ہے اسی طرح ہماری کرکٹ ٹیم بھی صحیح معنوں میں قومی ہے۔ جو برُا حال قوم کا وہی پی ائی اے کا اور وہی کرکٹ ٹیم کا۔ ڈیوڈکیمرون پاکستان سے اب واپس برطانیہ آگئے ہیں۔ آپ اُنہیں فون کر کے (پیسے بچانا چاہیں تو اسلام آباد میں برطانوی سفیر سے) پوچھ لیں کہ ان کے ملک میں وزیراعظم کا کرکٹ کی انتظامیہ میں کتنا عمل دخل ہے۔ جواب ملے گا صفر۔ میاں نواز شریف بھی اس اچھی روایت کو اپنائیں۔ یہ کالم ختم ہونے کو تھا کہ اچانک نظر New Statesman پر پڑی جس کے تازہ شمارہ میں Amol Rajan کا کالم چھپا ہے۔ تعارفاً بتایا گیا ہے کہ ایک بڑے اخبارکے نئے مدیر ہیں (نام سے بھارتی لگتے ہیں) وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے بعدجو کرکٹ ٹیم مصیبتوں کے بھنور میں گرفتار ہے وہ آسٹریلیا کی ٹیم ہے۔ ڈوبتی ہوئی یہ ٹیم جس تنکے کا سہارا لینے والی ہے اُس کا نام ہے فواد احمد۔ فواد کو ابھی آسٹریلیا کی شہریت نہیں ملی۔ کئی قانونی مراحل ابھی طے ہونے باقی ہیں۔ ٹیم کے پریشان حال منیجر نے دہائی دی ہے کہ یہ مراحل جلد از جلد حل کئے جائیں تاکہ فوادایم سی سی کے خلاف چندٹیسٹ میچ تو کھیل سکے۔ فواد نے پاکستان سے مفرور ہو کر آسٹریلیا میں سیاسی پناہ مانگی ہے۔ فاضل کالم نگار نے فواد کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا ہے کہ وہ گیند کو شین وارن کی طرح پکڑیں گے تو اپنے نئے ملک کی خدمت کرتے ہوئے زیادہ وکٹیں حاصل کر سکیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved