تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-06-2021

’’نیو نارمل‘‘ کا جھگڑا

اہلِ دانش کہتے ہیں کہ دنیا میں کچھ بھی ناقابلِ فہم نہیں۔ حالاتِ حاضرہ ہوں یا تاریخ کے چھوٹے بڑے واقعات ... سبھی کچھ ہماری سمجھ میں آسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس دیکھنے والی نظر اور سوچنے والا ذہن ہے یا نہیں۔ تاریخ کے جن واقعات کے بارے میں ہم محض سوچ اور الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ اُن کی منطق کیا ہے وہ بھی کسی اعتبار سے غیر منطقی نہیں ہوتے۔ سب کچھ کسی نہ کسی تناظر کے تحت ہوتا ہے۔ تناظر سمجھ میں آجائے تو بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ دنیا کل بھی اُتنی ہی الجھی ہوئی تھی جتنی آج الجھی ہوئی ہے۔ کل بھی اسے سمجھنا انتہائی دشوار تھا اور آج بھی آسان نہیں۔ مگر یہ دشواری صرف اُن کے لیے ہے جو اُتھلے پانیوں میں بھاگ دوڑ کرکے شور مچاتے اور ''طوفان‘‘ برپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پیالی میں طوفان اٹھانا بھی اسی کو تو کہتے ہیں۔
تاریخ کو پڑھ جائیے‘ واقعات کو آپس میں جوڑتے جائیے تو سب کچھ سمجھ میں آتا جائے گا۔ اس وقت بھی یہی عمل جاری ہے۔ جن ریاستوں نے اپنی غیر معمولی ترقی اور نظم و ضبط کے ذریعے کم و بیش چار صدیوں تک دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کی ہے اب اُن پر اضمحلال کا عالم طاری ہے۔ بہت کچھ ہے جو بدل چکا ہے‘ بہت کچھ ہے جو ان عالمی حکمران ریاستوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی طاقت گھٹتی جارہی ہے‘ دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھنا ان کے لیے دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں جو کچھ بھی اُن سے ہوسکتا ہے وہ تو ضرور کیا جائے گا اور کیا جارہا ہے۔ آج ہمیں دنیا بھر میں جو بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں وہ سب اسی تناظر میں ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے پر یعنی سوویت یونین کی تحلیل کے وقت امریکا اور یورپ کے سامنے کوئی بھی ایسی ریاست نہ تھی جو اُن سے بھرپور انداز سے ٹکراسکتی‘ بین الاقوامی یا عالمی امور میں اُنہیں منہ دے کر اپنی بات منوا سکتی۔ چین ابھر رہا تھا مگر اتنا نہیں اُبھرا تھا کہ مغرب کو خطرہ محسوس ہوتا۔ چین کی طاقت میں اضافے کا عمل خاصا سست رفتار تھا۔ امریکا اور یورپ کو اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ اب ٹیکنالوجیز کو ایک خاص حد تک رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق گھٹنے لگا تھا۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کے پاس ایک ہی آپشن بچا تھا ‘ یہ کہ کسی نہ کسی طور سیاسی معاملات کو الجھاکر سفارت کاری کے محاذ پر ایسی حالت پیدا کردی جائے جس میں کسی بھی چھوٹے ملک کا پنپنا اور ابھرنا کم از کم تین چار عشروں کے لیے تو ممکن نہ رہے۔ اوّلین اقدام کے طور پر مسلم دنیا کو نشانے پر رکھا گیا۔ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ شام اور کئی دوسرے ممالک میں شدید خلفشار پیدا کرکے ان کی معیشت اور معاشرت دونوں کو تباہ کرنے کے حوالے سے جامع منصوبہ سازی پر عمل کیا گیا۔ آج کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکا نے یورپ سے مل کر مسلم دنیا سے جو سلوک روا رکھا اُس کا کتنا بھیانک نتیجہ برآمد ہوچکا ہے۔ جو پہلے ہی پریشان حال تھے اُنہیں کسی بھی سطح پر ابھرنے کے قابل نہ چھوڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔
چین کو دبوچنے کی کوشش میں امریکا اور یورپ اب تک مجموعی طور پر تو ناکام ہی رہے ہیں۔ اور سوال صرف چین کا نہیں روس‘ ترکی اور برازیل کا بھی تو ہے۔ یہ تمام ممالک مل کر ایک گروپ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کے لیے مسابقت یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معاملات بہت آگے جاچکے ہیں۔ چین کا راستہ روکنے کی کوشش امریکا کے لیے انتہائی نقصان دہ رہی ہے۔ یورپ اس معاملے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محتاط ہوکر چل رہا ہے۔ یورپ چونکہ افریقہ سے جُڑا ہوا ہے اس لیے وہ محلِ وقوع کی نزاکت کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یورپی طاقتوں نے افریقہ اور ایشیا کے جن ممالک پر حکومت کی تھی اُن کے باشندے آج بڑی تعداد میں یورپ کا حصہ ہیں۔ کئی یورپی ممالک طاقت میں رونما ہونے والی کمی کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں اُن کے پاس امریکا کی اندھی تقلید کا آپشن نہیں بچا۔ اب انہیں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا ہے۔
عالمی ادارے چونکہ اب تک مغرب کے پنجۂ استبداد میں ہیں اس لیے اُن کی مدد سے طاقت برقرار رکھنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ عالمگیر سفارتی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔ مغرب اور بالخصوص امریکا کے پاس اب اپنی طاقت کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کا ایک طریقہ رہ گیا ہے ‘ یہ کہ باقی دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مسلم دنیا جس کی طرف جھکتی وہی سب سے بڑا حریف بن کر سامنے آتا۔ یہ گنجائش بہت حد تک ختم کر دی گئی ہے۔ مسلم دنیا میں اندرونی اختلافات کو بھی خطرناک حد تک ہوا دی جاتی رہی ہے اور اس سے قبل صریح بلا جواز جارحیت کے ذریعے کئی مسلم ممالک کو تباہ کرکے بھی مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔
محض اتنا کرنا کافی نہ تھا۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا کے لوگوں کو اُن کے ممالک یا سرزمین تک محدود رکھنا بھی لازم تھا۔ اس کے لیے ناگزیر تھا کہ حالات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاتا۔ ایک ایسی دنیا معرضِ وجود میں لائی جانی تھی جس میں سب کچھ نیا ہو اور جو کچھ بھی غیر معمولی دکھائی دے وہی معمول قرار پائے۔ یہی سبب ہے کہ اب ہر طرف ''نیو نارمل‘‘ اور ''دی گریٹ ری سیٹ‘‘ کا غلغلہ ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر یہ منصوبہ سازی کی ہے کہ پہلے مرحلے میں معیشتوں کو اتار چڑھاؤ کی نذر کردیا جائے اور ایک نئی طرزِ زندگی کی طرف یوں ہانکا جائے کہ دنیا بھر میں لوگ اپنی امنگیں اور آرزوئیں دل ہی میں رہ جائیں۔ پس ماندہ ممالک سے لوگ بڑی تعداد میں ترقی یافتہ دنیا کا رخ کر رہے تھے۔ یہ حرکت پذیری روکنا لازم سمجھا گیا۔ کورونا وائرس کو ایک آلے کے طور پر بروئے کار لاتے ہوئے ایسی فضا پیدا کی گئی ہے جس میں دنیا تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی معیشتیں ڈانواں ڈول ہیں۔ پھر ویکسی نیشن کے نام پر بھی الجھنیں پیدا کی گئی ہیں۔ چار پانچ ویکسینز میدان میں ہیں۔ بیرونی سفر میں کوئی ویکسین قبول کی جارہی ہے‘ کوئی نہیں۔ دیگر سفری پابندیاں بھی سامنے آچکی ہیں۔ یہ گویا اس امر کا اعلان ہے کہ لوگ اپنے ولولوں کو تھام کر اپنے ملک کی حدود میں رہیں‘ طالع آزمائی کا شوق دل سے نکال دیں۔ ''نیو نارمل‘‘ یہ ہے کہ جو کچھ بڑی طاقتیں طے کر رہی ہیں اُنہیں بلا چُوں چَرا قبول کرتے جائیے‘ مزاحمت کا نہ سوچیے۔ ''نیو نارمل‘‘ کے نام پر جو کچھ لایا یا متعارف کرایا جارہا ہے اُس میں کچھ اچھا بھی ہے۔ قدرت کا اصول ہے کہ ہر خرابی کے بطن سے تھوڑی بہت اچھائی بھی ہویدا ہوکر رہتی ہے۔ دی گریٹ ری سیٹ کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اُس میں چھوٹے اور کمزور ممالک کے لیے بھی چند ایک اچھے اشارے ہیں۔ غیر منظم انداز سے جینے کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ سب کچھ برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ معاشی معاملات درست رہتے ہیں نہ معاشرتی۔ انفرادی زندگی بھی تہس نہس ہو جاتی ہے اور اجتماعی زندگی کو بھی اُتھل پُتھل سے بچانا ممکن نہیں رہتا۔ آج پاکستان جیسے معاشروں کو اسی بحران کا تو سامنا ہے۔ وقت کسی کی کوتاہی معاف نہیں کرتا۔ جو کیا ہو وہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں کیونکہ یہ سب کچھ قدرت کے طے کردہ نظام کے تحت ہے۔
اہلِ پاکستان کو بھی ''نیو نارمل‘‘ کا سامنا ہے۔ جو کچھ لایا جارہا ہے اُس کے مطابق خود کو بدلنا فی الحال تو ناگزیر ہی ہے۔ ہاں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرکے ''نیو نارمل‘‘ سے اپنے لیے کچھ اضافی فوائد کشید کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے سوچا جارہا ہے۔ ہمیں بھی سوچنا ہے۔ بدلتی دنیا میں ہمیں بھی ''نیو نارمل‘‘ کے تحت نارمل ہونا ہے۔ ہمارے ہاں ڈیڑھ سال کے دوران جو کچھ ہوا ہے وہ تو ''نیو نارمل‘‘ کو ''نیو ابنارمل‘‘ بنانے کی خواہش کے تابع دکھائی دے رہا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved