تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     13-06-2021

شوکت ترین کا بجٹ

نواز شریف 2013ء کے عام انتخابات کے بعد تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے تو پاکستان کو دو بڑے مسائل درپیش تھے۔ دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے، اور پاکستانی ریاست کی صلاحیت اور نیت کے بارے میں طرح طرح کے سوالات قومی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جا رہے تھے۔ ایسے عناصر کی کمی نہیں تھی جو دہشت گردوں کو ''ناقابلِ تسخیر‘‘ قرار دیتے، اور پاکستانی قوم کے اعصاب کو چٹکیاں بھرتے رہتے۔ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر زور دیا جاتا، اور بڑے بڑے جگادری مجمع باز بھی بھیگی بلی بنے نظر آتے۔ کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی، شدید گرمی میں لوگوں کا جینا محال تھا، گھر کے اندر چین تھا نہ گھر کے باہر۔ کباب سیخ کی صورت وہ رات بھر پہلو بدلتے رہتے۔ کارخانے بند، کاروبار متاثر، ہر طرف مایوسی اور کسمپرسی کا عالم تھا۔ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے‘ جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، اپنے رفقا کے ساتھ ان دونوں مسائل سے نمٹنے کا عہد کر لیا۔ برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے، دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان امن کا گہوارہ بن گیا، اور بجلی کی پیداوار بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ریکارڈ مدت میں نئے کارخانے لگا کر دُنیا کو حیران کر دیا گیا۔ چین کی معاونت سے نہ صرف لوڈشیڈنگ پر قابو پایا گیا، بلکہ سی پیک کے ذریعے صنعت کاری کے ایسے خواب دیکھے اور دکھائے گئے کہ ہر شخص کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ روشن مستقبل جگمگانے لگا... اکثر مبصرین کا خیال تھا کہ اگر حکومت دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو آئندہ انتخابات میں وہ ٹہلتے ہوئے اقتدار تک پہنچ جائے گی، مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں پائے گا۔ فوجی اور سیاسی قیادت کی یک جائی نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان کی مسلح افواج نے عزم اور حوصلے کی نئی تاریخ رقم کی، اور پاکستان کو وہ امن اور چین مل گیا جس کا تصور بھی محال ہو چکا تھا۔ معیشت کی گاڑی فراٹے بھرنے لگی، ترقی کی شرح چھ فی صد کو چھو رہی تھی، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے عہدہ برآ ہوا، اور ایک بڑی معیشت کے طور پر اس کا اعتراف کیا جانے لگا، لیکن اس کے بعد برسرِ زمین اور زیرِ زمین بہت کچھ ہوا، اور بالآخر 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) محرومِ اقتدار ہو گئی۔ اِس سے پہلے نواز شریف پانامہ کی نذر ہو چکے تھے، ان پر چلائے جانے والے مقدمے نے انہیں ایوانِ اقتدار ہی سے باہر نہیں کیا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی پہنچایا، کیے دھرے پر پانی پھر گیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو قومی معیشت کی گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی۔ شرح نمو منفی ہو گئی، بے یقینی اور کسمپرسی نے ڈیرے ڈال دیے۔ نئی حکومت نے تیز رفتار ترقی کے جو دعوے کئے تھے وہ ہَوا میں اڑ گئے، روپے کی قدر میں کمی ہوئی، شرح سود میں اضافہ ہوا، مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا، کورونا کی وبا نے بے یقینی میں مزید اضافہ کیا، بے روزگاری کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر خرابی کا ذمہ دار پرانی حکومت کو قرار دینے والے میدان میں تھے، کچھ سجھائی دے رہا تھا، نہ دکھائی دے رہا تھا۔ احتساب کے نام پر جیلوں کے دروازے کھلے، مقدمات کی بھرمار ہوئی، مسلم لیگ (ن) کے متعلقین کے لیے جان بچانا مشکل ہو گئی۔ بے سروپا الزامات کے تحت انسانی حقوق پامال کیے جاتے رہے، پاکستانی جمہوریت ایک بار پھر الزام و دشنام کے نرغے میں تھی... دن گزرتے چلے گئے، امیدیں دم توڑتی چلی گئیں، پریشانیاں بڑھتی رہیں، دلاسے دیے جاتے رہے، خواب دکھائے جاتے رہے، سہانے دِنوں کے راگ الاپے جاتے رہے، یہاں تک کہ تین سال گزر گئے۔ تین بار وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے، بالآخر قرعہ فال شوکت ترین کے نام نکلا۔ وہ ایک بینک کار کے طور پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ برسوں پہلے پاکستان واپس آکر حبیب بنک لمیٹڈ کو خسارے کی دلدل سے نکالا، اور اس کی نجکاری ممکن بنائی تھی۔ ان میں ذمہ داری قبول کرنے، اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ موجود ہے اور صلاحیت بھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی، لیکن بڑے بڑے اکانومسٹ معاشی امور پر ان کی گرفت کا اعتراف کرتے ہیں۔ انہوں نے جو بجٹ پیش کیا ہے، اس نے تحریک انصاف کی ڈگمگاتی حکومت کو بیساکھی دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانے کے بجائے وہ اسے اپنی حکمت عملی کا قائل کرنے میں لگے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں اور ٹیکس میں اضافے کے بجائے پیداوار، اور ٹیکس نیٹ بڑھاکر وسائل میں اضافے کا یقین دِلا رہے ہیں۔ شرحِ نمو کا ہدف پانچ فیصد مقرر کر دیا گیا ہے، اعداد و شمار میں الجھے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بجٹ نے کچھ نہ کچھ آسودگی کا تاثر دیا ہے، اور آگے بڑھنے کے جذبے کو مہمیز دے دی ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر چار سال پہلے کی شرح نمو برقرار رہتی، تو آج معیشت سات سے آٹھ فیصد کی شرح سے آگے بڑھ رہی ہوتی۔ اب بحالی کے اقدامات ہورہے ہیں تو گویا چار برس پیچھے پہنچ جانے کو کامیابی گردانا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے متاعِ کارواں کے لٹ جانے کا ماتم کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم جہاں پہنچ گئے تھے، وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہونا بھی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر سکون کا سانس نہ لیا جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے امید کے چراغوں کو تیل اور بتی فراہم کر دی ہے۔ تنقید جو بھی کی جائے بے اطمینانی جو بھی ظاہر کی جائے، مسائل کا ذکر جو بھی کیا جائے، مشکلات کا اظہار جس طرح بھی کیا جائے، اس سے انکار ممکن نہیں کہ سمت درست ہونے کا احساس پیدا ہوا ہے۔ گاڑی چلتی نظر آرہی ہے، ہماری سیاست اس کے ساتھ کیا کرے گی، وہ اہلِ سیاست جانیں۔ بار بار سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارا ہے، اللہ نہ کرے یہ منظر پھر دہرایا جائے، اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو دِل پر جبر کر کے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا پڑے گا، ایک دوسرے کو راستہ دینا پڑے گا۔
وہ جس پر اللہ کا کرم تھا
عزیزم نعمان بن عزیز اِس طرح دُنیا سے رخصت ہو جائیں گے، اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ وہ چند سال سے کراچی جا بسے تھے، اور بزنس میں مصروف تھے۔ چند ہفتے پہلے اچانک برادرم شعیب بن عزیز کا فون آیا کہ نعمان کینسر کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کے پھیپھڑوں پر اس موذی مرض نے حملہ کیا ہے۔ انہیں لاہور لایا گیا، ڈاکٹروں نے دیکھا، ٹیسٹ پر ٹیسٹ ہوئے، شوکت خانم ہسپتال میں داخل بھی ہوئے لیکن مرض پھیل چکا تھا۔ ہاتھ دُعائوں کیلئے اٹھے ہی رہ گئے اور وہ وہاں جا بسے جہاں ہم سب کو جانا تو ہے، لیکن وہاں سے واپس کسی نے نہیں آنا۔ نعمان، شعیب کے چھوٹے بھائی تھے، لیکن ان کے سب دوستوں کو بڑا بھائی سمجھتے، اور وہ بھی انہیں چھوٹے بھائی کی طرح عزیز رکھتے۔ ہر دم چہرے پر مسکراہٹ چھائی رہتی، میٹھے لہجے میں میٹھے الفاط بولتے، اور سراپا خدمت بنے رہتے۔ چند ہی روز پہلے انہوں نے ایک واٹس ایپ گروپ میں اشفاق احمد صاحب کی ایک گفتگو شیئر کی تھی، انہیں ایصال ثواب کے لیے اسے اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں، نعمان کی تصویر ان الفاظ میں دیکھی جا سکتی ہے، کہ وہ ان ہی لوگوں میں سے تھے جن پر اللہ کا کرم تھا: جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا... اسے عاجز پایا، مَیں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا، اخلاص والا پایا... غلطی کو مان جاتا ہے معذرت کر لیتا ہے... مَیں نے اسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا۔ مَیں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے‘ اس کا درجن 13 کا ہوتا ہے‘ 12 کا نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved