تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     11-07-2013

منظم انتشار

جون 2011ء میں جسٹس ریٹائرڈجاوید اقبال کی سربراہی میں تشکیل پانے والے ایبٹ آباد کمیشن کی لیک ہونے والی رپورٹ نے پاکستانی ریاست، سیاست اور سفارت کے دیوالیہ پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔رپورٹ میں دو سو سے زائد فوجی افسران، سیاست دانوں اور اونچے عہدوں پر فائز ریاستی اہلکاروں کے بیانات قلم بند کئے گئے ہیں۔ کمشن رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکی ڈرون حملے ’’غیر تحریر شدہ مگر سیاسی سمجھوتے‘‘ کے تحت کیے جارہے ہیں۔پاکستانی حدود کے سو میل اندر امریکی حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کو ’’1971ء کے بعد ملک کی بدترین تذلیل قرار دیا گیا ہے۔‘‘رپورٹ میں شائع ہونے والا ایک نوٹ بھی قابلِ توجہ ہے جس کے مطابق ’’پاکستان کی حکومتیں شاید ہی کبھی عوام سے ایماندار رہی ہیں۔‘‘تاہم ایک دہائی تک اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے (جس کے دوران کئی سال اس نے انتہائی حساس علاقے میں گزارے) متعلق رپورٹ میں کوئی تسلی بخش وضاحت موجود نہیں ’کوئی بتلائے کہ ہم بتائیں کیا‘کے مصداق یہ رپورٹ سرکاری اقرار نامے کا درجہ رکھتی ہے۔معیشت کا گہرا ہوتا ہوا بحران ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور سماجی و سیاسی انتشار کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے لیکن گلگت بلتستان سے لیکر کوئٹہ اور کراچی تک ، پورے ملک میں جاری اس بربریت اور انتشار میں بھی ایک نظم موجود ہے۔ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے دنیا بھر میں نظریاتی اور سیاسی خلا کو جنم دیا تھا۔پاکستان میں ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازو کے انہدام سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو ریاست نے مصنوعی طور پر مذہبی رجعتیت کے ذریعے پُر کروایا۔ آمر ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کو استعمال کیاجبکہ امریکیوں نے اُسے افغانستان میں جاری ’ڈالر جہاد‘ کو چلانے اور اس خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔ خاص طور پر سر د جنگ کے آخری عرصہ میں یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی۔ مشرقِ وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں امریکہ نے خاص طور پر مذہبی تعصب کے ابھار کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا۔یہ عمل 1950ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔فلسطین کی تحریک آزادی پھوٹ ڈالنے اور PLOمیں موجود بائیں بازو کے رجحانات کو کچل کر قومی آزادی کی تحریک کو مذہبی تنازع بنانے کے لئے جہادی گروہوں کو خود امریکہ اور اسرائیل نے پروان چڑھایا تھا۔ اس عمل کی حالیہ مثال شام ہے جہاں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ اور جمہوریت کا علمبردارامریکہ اپنی اتحادی بعض عرب مملکتوں کے ذریعے دہشت گردوں کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ انڈونیشیا میں ہونے والا حالیہ تاریخ کا بد ترین قتلِ عام امریکی سی آئی اے نے اپنے مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ہی کروایاتھا۔30ستمبر 1965ء کو معروف قوم پرست رہنما سوئیکارنو کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کرنے کے بعد سامراجیوں نے انہی رجعت پسند عناصر کو فوجی آمر جنرل سہارتو کی قیادت میں انڈونیشیا میں موجود بائیں بازو کو کچلنے کیلئے استعمال کیا۔کمیو نسٹ پارٹی انڈونیشیا (PKI) سوویت بلاک کے باہر دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی تھی جس کے تیس لاکھ با ضابطہ ممبران کے ساتھ ساتھ دس لاکھ سیاسی ہمدرد مختلف تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں میں موجود تھے۔ستمبر 1965ء سے جنوری 1966ء تک مذہب کے ان ٹھیکیداروں کے ہاتھوں دس لاکھ سے زیادہ ’کافر سرخے‘ خاندانوں سمیت ذبح ہوئے۔زیادہ تر مذہبی جنونیوں کا تعلق انڈونیشیا کی مشہور بنیاد پرست جماعت نہضۃ العلماء کے یوتھ ونگ ’انسور ‘سے تھا۔امریکی سامراج اور مذہبی بنیاد پرستوں کی معاشی پالیسیوں میں کوئی تضاد موجود نہیں ، دونوںایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں کے مفادات سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں۔ آج بھی طالبان کے ایک سے زیادہ دھڑے ایسے ہیں جن کے امریکی سامراج کے ساتھ شروع سے قریبی مراسم استوار رہے ہیں۔طالبان کوئی یکجا اکائی نہیں ہیں۔ سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کا استعمال اگرچہ ’امریکی ایجاد‘ ہے لیکن موجودہ عہد میں پاکستان کے ’قریبی دوستوں‘سمیت کئی دوسری سامراجی قوتیں بھی اس ’فن‘ میں ماہر ہوچکی ہیں۔ تضاد تب پیدا ہوتا ہے جب متضاد مفادات رکھنے والی مختلف سامراجی قوتیںاپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے مختلف مذہبی گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔پاکستانی ریاست کے کئی دھڑے عوامی تحریکوں کو دبانے اورسماجی انتشار پیدا کر کے کسی ممکنہ انقلابی موج کا رخ موڑنے کیلئے ان عناصر کو استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ انسانی سماج میں مذہب کا کردار ہمیشہ سے ایک سا نہیں رہا۔سرمایہ داری نے اپنے زوال کے اس عہد میں اسے بھی ایک کاروبار میں تبدیل کردیا، نہایت منافع بخش کاروبار!1980ء کی دہائی میں امریکیوں نے ان بنیاد پرست عناصر اور ریاست میں موجود ان کے سر پرستوں کی خوب تربیت کی تھی کہ کس طرح منشیات کی خریدوفروخت اور دوسرے ناجائز طریقے اپنا کر نہ صرف لامحدود دولت کمائی جا سکتی ہے بلکہ ’مقدس جنگ‘ کے خرچے بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔دنیا کے بیشتر دوسرے خطوں میں سامراجی جنگوں کے دوران یہی طریقہ کار استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔غربت کی چکی میں پس رہے کروڑوں لوگوں کو سادگی کا درس دینی والی ملا اشرافیہ اور مذہبی پارٹیاں بہت امیر ہیں۔گاؤں کا مولوی اب جاگیردار کے اناج اور مذہبی رسومات کی آمدن سے گزارہ نہیں کرتا۔سائیکل سے پجارو تک کا سفر اس نے بہت تیزی سے طے کیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر اگل کر چندہ جمع کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے ’آزاد خیال‘، سیکولر اور جمہوری حکمران بھی سماجی بغاوتوں کا رخ موڑنے کیلئے مذہبی تعصب کا ہی سہارا لیتے ہیں۔اعتدال پسند سمجھے جانے والے بہت سے مذہبی گروہ تشدد پسندوں کی نرسریاں بن چکے ہیں۔ایک جدید سرمایہ دار انہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے؛ تاہم سرمایہ داری کے نامیاتی بحران میں ریاست رجعتیت اور ترقی مخالف عناصر کو ہوا دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ در حقیقت ایسی رپورٹوں کا منظر عام پر آنابھی ان سامراجی قوتوں کی کمزوری اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہے۔ جب تک ان کا سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ بربریت سماج کو تاراج کرنا جاری رکھے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved