تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-06-2021

تیرے نہ ہوسکے تو کسی کے نہ ہوسکے

مسلم ممالک کی کمی نہیں مگر ہم انوکھے ہیں۔ ہمارا کیس سب سے الگ ہے۔ اسلامی دنیا کے دیگر ارکان تو کسی نہ کسی شکل یا حیثیت میں دنیا کے نقشے پر موجود تھے۔ انہیں آزادی ملی یا تقسیم در تقسیم کی شکل میں ریاست کا درجہ ملا۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ہندوستان کا حصہ تھے۔ اُس ہندوستان کا جو ہزاروں برس سے اکھنڈ تھا یعنی کبھی کوئی تقسیم واقع نہ ہوئی تھی۔ ہم جب اپنے لیے الگ وطن لینے میں کامیاب ہوئے تو بھارت اکھنڈتا برقرار نہ رکھ سکا اور دنیا والوں کی نظروں میں ''کھنڈِت‘‘ ہوگیا۔
یہ غم کچھ کم نہ تھا۔ فطری سی بات ہے کہ بھارت کے عام ہندو کے لیے ہم پاکستانی آج بھی بہت حد تک ناقابلِ قبول ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ جن کے دیش کا ٹکڑا الگ ہوا وہ تو نفرت محسوس کرتے ہی رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کے نام پر ایک خطۂ زمین حاصل کیا تھا اُنہیں کیا ہوا۔ وہ اپنا عہد کیوں بھول گئے؟ پاکستان کو تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ ہم نے ملت کی حیثیت سے ایک عہد کیا تھا ... یہ کہ ہم پاکستان کے نام سے ملنے والے خطۂ ارض پر اللہ کے دین کو نافذ کریں گے‘ اپنی زندگیوں کی تطہیر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ بھی بتائیں گے کہ اسلام ہر دور کے لیے لایا یا بھیجا جانے والا دین ہے جو ہر طرح کے حالات میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ عہد اللہ سے کیا گیا تھا۔ ہم یہ عہد بھولے تو اللہ کی رحمت بھی ہمیں بھول گئی۔ ہماری کیا بساط تھی کہ ہمیں ایک الگ وطن ملتا‘ یہ تو اللہ کا کرم تھا جس کی بدولت ہم ایک الگ وطن لینے اور دنیا کو یہ دکھانے کے قابل ہوئے کہ اگر ارادہ نیک ہو تو اللہ کی رحمت کے سہارے وطن تک حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں ہر حال میں اللہ کا ہوکر جینا تھا۔ پاکستان کو باقی دنیا کے لیے ایک مثال ثابت ہونا تھا۔ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے لیے پاکستان کو نمونہ بننا تھا تاکہ وہ بھی ہم سے کچھ نہ کچھ سیکھتے اور اللہ کی راہ پر گامزن ہونے کی کچھ تحریک پاتے۔ ایسا تو تب ہوتا جب ہم اللہ کی راہ پر گامزن رہنے کی کوشش کرتے اور اُس میں کامیاب رہتے۔ حق یہ ہے کہ وطن مل جانے کے بعد ہم آن کی آن میں دنیادار ہوگئے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم زیادہ سے زیادہ بے دینی کو گلے لگاتے چلے گئے۔ دنیا حیران تھی کہ اگر عمومی سطح کی زندگی ہی بسر کرنی تھی تو ایک الگ وطن لینے کی کیا ضرورت تھی؟ مسلم کہلائے جانے والے ممالک کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ وہ بھی اسلام کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بروئے کار لانے میں دلچسپی نہیں لیتے تھے ہم نے بھی ایسا ہی کیا تو پھر ہم میں اور اُن میں فرق کیا رہا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ سوال برحق اور جائز ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اُسی کو بھلادیا گیا تو طویل جدوجہد کے ذریعے یہ خطۂ زمین حاصل کرنے کی ضرورت کیا تھی‘ دنیا جس طور چل رہی تھی اگر اُسی طور چلتی رہنی تھی تو ایک نیا تجربہ کیوں کیا گیا؟
قیامِ پاکستان کے جواز سے متعلق سوالات اُس وقت بھی اٹھائے گئے جب یہ نیا نیا معرضِ وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کے جواز کی بحث چھڑنے پر ہمیں جب بہت دکھ ہوتا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے ملک کے قیام کی جدوجہد میں عملی حصہ لیا تھا‘ اس کے نام پر گھر بار‘ خاندان‘ آبائی وطن سب کچھ چھوڑا تھا اور ہجرت کے دوران شہادتیں بھی جھیلیں اُنہیں کتنا دکھ ہوتا ہوگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا اور وہ فرض کی حیثیت رکھتا تھا ... یہ کہ ہم اللہ کے ہوکر رہیں‘ اُنہی کے رہتے ہوئے جئیں۔ ہمارے لیے دین سے ہٹ کر کوئی اور راستہ درست نہ تھا۔ ہم نے تو ساری جدوجہد ہی اسلام کے نام پر کی تھی۔ دین جس نوعیت کا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے اور دینی تعلیمات پر عمل کی صورت میں جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ ہمیں کر دکھانا تھا۔ ہماری ذمہ داری کسی بھی دوسرے مسلم ملک کے لوگوں سے کہیں بڑھ کر تھی کیونکہ ہمیں دین کے نام پر محض آزادی نہیں ملی تھی بلکہ ہم نے ایک باضابطہ وطن حاصل کیا تھا۔ اس وطن میں ہمیں اسلام کو ہر طرح سے نافذ کرکے دکھانا تھا اور دینی تعلیمات پر عمل کی صورت میں انفرادی سطح پر بھی زندگی کا روشن پہلو دنیا کے سامنے لانا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد پہلے ہی عشرے میں ہم نے اللہ کی راہ سے ہٹ کر دنیا بھر میں پناہ گاہیں تلاش کرنا شروع کردیا۔ ہمارے لیے اوّل و آخر اللہ ہی حقیقی کارساز ہیں اور وہی تمام معاملات میں ہمارے مشکل کشا ہیں مگر ہم نے اللہ کی رضا میں راضی رہنے کے بجائے دنیوی سہاروں کو ترجیح دی۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ہمیں بہت بڑی اور مددگار محسوس ہوئیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم اُن کے ہو جائیں تو دوسروں کی بندگی اور غلامی سے چُھوٹ جائیں مگر ہم نے اللہ کے وعدے پر بھروسا نہ کیا اور دنیوی طاقتوں کی بندگی اختیار کی۔ اللہ کے وعدے کو برحق سمجھنے اور اُن کی رحمت پر بھروسا کرنے سے روگردانی کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہ برآمد ہوا۔ خلیل الرحمن اعظمی مرحوم نے کہا تھا ع
تیرے نہ ہوسکے تو کسی کے نہ ہوسکے
ہمارا بھی تو یہی کیس ہے۔ اللہ کے در کو چھوڑ کر دوسروں سے لَو لگانے اور اُن سے اپنے مسائل حل کرنے کی امید وابستہ کرنے کے نتیجے میں ہم اب تک در در بھٹک رہے ہیں۔ مغرب کی غلامی کو اپنا مشرب بنانے کے نتیجے میں ہم اسلام کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے بھی اصل راہ سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ محض نام کے مسلمان ہوکر جینے میں کتنی قباحتیں ہیں اس کا اندازہ کچھ اُنہی کو ہوسکتا ہے جو اس کرب سے دوچار ہوں۔ اور ہم سے بڑھ کر کون اس کرب سے دوچار ہوگا؟
ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے اب بھی ناگزیر ہے کہ اللہ کے دین کو ہر معاملے میں اپنائیں‘ زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کی رضا اور منشاء کے تابع کریں۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھر سمجھ لیا جائے کہ وہ ذلّت بھی ختم نہیں ہوسکتی جو سات عشروں سے ہم پر مسلّط ہے۔ دکھاوے کی خاطر اللہ کے دین کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور در پردہ طاغوتوں کے زیرِ دام رہنا ... یہ تو مناسب نہیں۔ مصلحت اگر مجبور کرتی بھی ہے تو کہیں کہیں۔ ہر معاملے میں تو مصلحت ہمیں لاچاری کی حد تک مجبور نہیں کرسکتی۔
معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ اللہ کی مرضی کے تابع ہونے چاہئیں۔ ہمیں ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی اور خوش رہنا ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح اسی نکتے میں مضمر ہے۔ اللہ کی رسّی چھوڑ کر دنیوی سہارے تلاش کرنے کی صورت میں جو کچھ بھگتنا پڑتا ہے وہ ہم بھگتتے آئے ہیں۔ اس وقت بھی ایک قوم کی حیثیت سے ہم منقسم و منتشر ہیں ؎
کچھ نہیں سُوجھتا ہمیں تجھ بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُن کے ہو جائیے تو دنیا قدموں میں آ گِرے گی۔ معاملہ اِس کے برعکس ہو تو نتیجہ بھی برعکس ہی ہوگا۔ اللہ کے در سے وابستہ ہو رہنے ہی میں خیر و برکت ہے۔ ایک قوم یا ریاست کی حیثیت سے ہم کبھی اِس کے آغوش میں بیٹھتے ہیں‘ کبھی اُس کے آغوش میں۔ یہ سلسلہ ہماری عزتِ نفس کو مجروح اور مسخ کرتا رہا ہے اور اب بھی معاملہ کچھ زیادہ نہیں بدلا۔
تیزی سے بدلتی دنیا میں ہمارے پاس ڈھنگ سے جینے کا ایک ہی آپشن ہے... اللہ سے پُرامید رہتے ہوئے اپنے زورِ بازو پر بھروسا رکھیں اور ہر مشکل کا تدارک اپنے دین کی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کریں۔ در در بھٹکنے اور جِس تِس کی غلامی اختیار کرنے سے بہ درجہا بہتر یہ ہے کہ ہم اللہ کے ہو رہیں‘ اُنہی سے مدد چاہیں‘ اُنہی کو دست گیر اور مشکل کشا مانتے ہوئے اُنہی کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہیں۔ کسی کے نہ ہو پائیں اِس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و رب کے ہوجائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved