تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     13-06-2021

عالمی وبا‘ ماحولیات اور انکساری

یہ سزا تھی... سزا ہی ہوگی ۔ عالمی وبا کی صورت میں فطرت نے انسان کی رعونت کا انتقام لیا۔ پانچ جون کو عالمی دن برائے ماحولیات کا پیغام ہے: ''فطرت کے ساتھ امن سے رہیں ‘‘۔ کورونا سے سیکھنے والا سبق یہی ہے ۔ وائرس سے پھیلنے والے امراض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں ۔ جب انسان قدرتی حیات کے مسکن میں دخل اندازی کرتا ہے تو جانور انسانوں کی دنیا میں سرایت کرنے لگتے ہیں ۔ کووڈ نے حملہ کرکے انسانوں کو محدود کردیا ۔ اس کا ہدف انسان کا سماجی میلان تھا۔ تمام سماجی سرگرمیاں جو انسانوں کو نہ صرف زندہ بلکہ زندگی سے بھرپور رکھتی ہیں‘ اس کے لیے مہلک بن گئیں ۔ ملاقاتیں زوم پر چلی گئیں ‘ بغل گیر ہونا موت کو گلے لگانے کا مترادف ہوگیا ‘ استقبالیوں پر پابندی لگ گئی ‘ جسمانی گرم جوشی اور سکون غارت ہوگیا ‘ دوست اجتناب کرنے لگے ‘قریبی رشتے داروں نے بھی ملنے سے گریز شروع کردیا‘ آخر کار آپ خود ہی گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے ۔ آپ کے آس پاس وہی لوگ ا ور وہی کام رہ گئے جو آپ کو برہم کردیتے ہیں ۔
ہر کوئی ویکسین کی جلد از جلد تیاری کے لیے دعائیں کررہا تھا۔ آخرکار دعائیں قبول ہوئیں ۔ لیجیے اب ویکسین دستیاب ہے ۔ لیکن کیا یہ ڈرائونا خواب ختم ہوچکا ؟ہر گز نہیں ۔ ممکن ہے کہ کچھ کے لیے ایسا ہوچکا ہو لیکن اکثریت کے لیے اس کے مضمرات تو ابھی شروع ہوئے ہیں۔ بلاشبہ زندگی کاکوئی متبادل نہیں لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ روزگار کے بغیر جینا مشکل ہے ۔جب ہم وائرس کے خلاف آگ اور خون کی جنگ جیت چکے ہوں گے تو بھوک اور غربت کی تمازت انسانی زندگی کو جھلسا رہی ہوگی ۔
بہت سے پسماندہ ممالک کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ زیادہ ڈرادینے والی چیز یہ ہے کہ اگرچہ ترقی یافتہ دنیا ترقی پذیر ممالک کے لیے امداد اور مواقع فراہم کرتی تھی لیکن اس بحران میں وہ خود پانی سے سر باہر نکالنے کے لیے ہاتھ پائوں مارہے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ حالات نازک ہیں۔ معاشی امکانات کا غیر یقینی پن بہت سوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گا۔ زیریں صحارا کے قحط زدہ افراد کے مناظرصرف ایک مخصوص خطے میں ہی نہیں دیکھے جائیں گے۔ ہم نے امریکا میں فوڈ بینکوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں دیکھی ہیں ۔ انڈیا میں لو گ بیماری اور بھوک سے بے یارومددگار دم توڑ رہے تھے ۔ یہ دل دہلا دینے والے مناظر احساس دلاتے ہیں کہ فوری اقدامات کا وقت آچکا ہے ۔ اب جبکہ ہم کورونا کے دوسرے سال میں ہیں‘ یہ سبق واضح اور بلند آہنگ ہے ۔
1۔ فطرت جوابی وار کرے گی: ماحول تفریح سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اگرچہ ماحولیات پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ٹرمپ کے دور میں یہ جاننے کے باوجود کہ عالمی وبا پھوٹ پڑی ہے ‘ بجٹ میں کٹوتی کردی گئی ۔ہم نے دیکھا کہ امریکا پیرس معاہدے اور Kyoto Protocolسے باہر آگیا ۔ صدر جو بائیڈن کی ماحولیات کے لیے بجٹ بڑھانے کی کوشش کو ریپبلکن پارٹی کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے ۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ یہ رقم معیشت پر خرچ کرنی چاہیے ۔ اُن کے لیے تفریحی صنعت کی بندش تازہ ہوا اور آکسیجن سے زیادہ اہم معاملہ ہے ۔ اس حوالے سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہالی ووڈ میں اربوں ڈالر جھونک دیں تو بھی وارنر برادرز (فلم ساز کمپنی)اُنہیں جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والے وائر س سے نہیں بچا سکیں گے ۔ ماحول کو صرف بیانات میں ہی نہیں ‘ بجٹ‘ منصوبوں اور عملی اقدامات میں بھی ترجیحی مقام ملنا چاہیے ۔
2۔ رعونت کی بجائے انکساری: اگر قیادت کی کامیابی یا ناکامی کا کوئی پیمانہ ہوسکتا ہے تو یہ میزان عالمی وباکے دوران دیکھنے میں آیا ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اپنے اپنے خطے کی عالمی طاقتیں‘ امریکا‘ بھارت اور برازیل کو مسلسل تکلیف اٹھانا پڑی ۔ یہ تینوں اپنے اپنے خطے کے دیوقامت ممالک ہیں لیکن یہ پہلی لہر کے دوران ناکام ثابت ہوئے جب متاثر اور جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد بڑھنے لگی ۔ اس دوران دیگر ممالک نے پہلی لہر سے سبق سیکھا اور دوسری لہر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ لیکن ایک مرتبہ پھر ان تینوں ممالک نے وائر س کو بے قابو ہونے دیا ۔ ان تینوں میں مشترکہ صفت پررعونت قیادت تھی ۔ ٹرمپ ‘ مودی اور برازیلین صدر بولسنارو(Bolsonaro)نے خطرے کو تسلیم کرنے کی بجائے غرور سے کام لیا۔ اس کی وجہ سے اُنہیں درست فیصلہ کرنے میں بہت دیر ہوگئی ۔ مودی نے جنوری 2021 ء میں وائرس کو محدود کرنے میں اپنی کامیابی کا اعلان کردیا ۔ رعونت نے اُسے ابھرنے والی دوسری لہر سے بیگانہ کردیا ۔ درحقیقت دوسری لہر نے بھارت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ۔دریاکے کنارے پر بکھری ہوئی لاشوں کے مناظر دل دہلا دینے والے تھے ۔ اس کی معاشی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔ کم و بیش 230 ملین بھارتی غربت کا شکار ہیں ‘وہ یومیہ 375 بھارتی روپوں سے بھی کم آمدنی رکھتے ہیں ۔ گزشتہ سال پہلی لہر کے دوران 100 ملین افراد بے روزگار ہوگئے تھے ‘دوسری لہر کے دوران صرف اپریل میں 7.3 ملین مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔
3۔ ہر کوئی یا کوئی بھی نہیں : موجودہ عالمی وباکے دوران ڈارون کی تھیوری Survival of the fittest یعنی بہترین کی بقا‘پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔ سبق یہ ہے کہ وائر س انسانی طبقات میں سے سب سے کمزور پر حملہ کرے گا‘ لیکن پھر دیگر کوبھی تباہ کردے گا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس (Tedros)نے امیر اقوام کی خود غرضی پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ویکسین صرف اپنے لیے ذخیرہ کررہی ہیں۔ وہ صرف یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ انہیں انسانیت کا مظاہر ہ کرنا چاہیے بلکہ عقل کرنی چاہیے۔ ایک قوم کو متاثر کرنے والا وائرس تبدیلی سے گزرتا ہے ۔ انڈین قسم اب دنیا میں ہر جگہ سرایت کرتی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ ویکسین تبدیل ہونے والی نئی اقسام کے مقابلے میں مؤثر ثابت نہ ہوں ۔ جب آخر کار امریکا نے بھارت کو امداد کی پیش کش کی اس وقت تک وائرس ہر جگہ پہنچ چکا تھا ۔ پروازوں پر پابندی لگانا ‘ لوگوں کو قرنطینہ میں محدود کرناعارضی اور ناکافی اقدامات ثابت ہوئے ۔ اس سے پہلے وائرس پھیل چکا تھا۔ ان کے مقابلے میں پاکستان نے اچھی کارکردگی کامظاہرہ کیا ہے ۔ تینوں لہروں کے دوران حکومت نے روزانہ کی بنیاد پر این سی اوسی(نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر) کی میٹنگ بلائی تاکہ ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے فعال فیصلے کیے جاسکیں ۔ وزیر اعظم کی سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی کے ذریعے لوگوں کی جانیں اور روزگار بچایا گیا اور صحت کی سہولیات میں اضافہ کیا گیا ۔ اس وقت پاکستانی معیشت چارفیصد شرح نمو رکھتی ہے جبکہ بھارت کی معیشت 7.3 فیصد کی شرح سے سکڑ رہی ہے ۔ تاہم جنگ ابھی جاری ہے ۔ دنیا کو تین کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔ خوراک کی ملکی اور عالمی حکمت عملی بنائیں : وقت آگیا ہے جب دنیا اُن ممالک کو خوراک کی فراہمی کا فورم بنائے جن میں کووڈ 19 سے زیادہ بھوک سے جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہو۔ ورلڈ فوڈ پروگرام ناکافی ہے ۔جی سیون ممالک کو سرکاری اور نجی اشتراک سے غریب ممالک کی کفالت کے لیے خوراک کا پروگرام بنانا چاہیے ۔ یہ شراکت داری علاقائی سطح پر مقامی کمپنیوں کو ترقی دے سکتی ہے جو بل اینڈ ملینڈا جیسی فاونڈیشنز کی چھتری تلے کام کرسکتی ہیں ۔
2۔ Gavi, The Vaccine Alliance جیسا ورچوئل کوٹہ برائے گلوبل ملازمت تشکیل دیا جائے : جس طرح GAVI گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ امیونائزیشن ہے ‘ اسی طرح آپ کو GAJE (گلوبل الائنس فار جابز اینڈ ایمپلائمنٹ ) کی بھی ضرورت ہوگی ۔ یہ الائنس عالمی وبا کے دوران گھر سے کام کرنا ممکن بناتا ہے ۔ دنیا کی تمام اہم کارپوریشنزاُن ممالک کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ مقرر کرتی ہیں جو وائرس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ اس لیے جارحانہ اقدامات کی بجائے ملازمت کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
3 ۔ سبز معیشت ‘ سبز صنعتیں ‘ سرسبز شہر: آخر میں GGE (گرین گلوبل ایمرجنسی) کی طرف قدم بڑھانے کا وقت ہے ۔ ہر قرضے ‘ صنعت کاری اور ترقیاتی منصوبے کو ہریالی سے مشروط کردیا جائے ۔ مزید پیش رفت کے طور پر سرسبز ماحول کے لیے قرضوں ‘ ٹیکس اور واجبات کی معافی جیسی ترغیبات رکھی جائیں۔ یہ ترغیبات دنیا کو سرسبز بننے کی راہ دکھائیں گی ۔ اس طرح ہم وائرس کے کسی اور حملے سے بچ جائیں گے ۔
سب سے بڑھ کر ‘ یہ انسان کے لیے عاجزی اور انکساری کی راہ اختیار کرنے کاموقع ہے ۔ یاد ہوگا کہ انسان کی توسیع پسندی کی وجہ سے بیچارے جانور گلیوں میں آنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ اب فطرت نے ردعمل میں انسانوں کو گلیوں سے نکال کر اپنے گھروں تک محدود کردیا ہے ۔ مارگریٹ میڈ نے کہا تھا '' ماحول کو تباہ کرکے تم انسانی معاشرہ تعمیر نہیں کرسکتے ‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved