تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     14-06-2021

قومی معیشت اور سیاسی محاذ آرائی

پاکستان کی سیاست شکر گزاری کے جذبات اور جمہوری پابندیوں سے عاری ہے۔ مخالف سیاسی جماعتیں اور قائدین ایک دوسرے کے سیاسی اخلاص پر سوال اٹھاتے ہیں اور اکثر اپنے سیاسی حریف کیلئے نازیبا زبان استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جیسے ہی پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن شروع ہوتا ہے، ان کے تنازعات اور اختلافات‘ معیشت اور اقتصادی ترقی کی رفتار پر مرتکز ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا کہ جی ڈی پی میں تقریباً چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے زراعت، دیہی معیشت، ہائوسنگ و تعمیراتی کاروبار، سروس سیکٹر، بینکنگ اور ٹیکسٹائل میں نمایاں پیشرفت کی خوشخبری بھی سنائی۔ اقتصادی سروے رپورٹ میں اس معاشی بہتری کی تفصیلات جاری کی گئیں۔ اپوزیشن جماعتیں‘ خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ معیشت میں بہتری کے بارے میں آنے والی رپورٹوں پر سوال اٹھاتی ہیں۔ وہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار پر سوال اٹھاتی ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت کو ملکی تاریخ میں پہلی بار معیشت کو بد ترین مرحلے پر لانے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ یاد رہے کہ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھیں (2008-2018) تو انہیں بھی اس وقت کی اپوزیشن کی جانب سے اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں معیشت کے جائزے میں اپنے اپنے پسندیدہ حوالوں سے بات کرتی ہیں۔ دونوں صرف ان امور پر بات کرتی ہیں جو ان کے دلائل کو درست ثابت کرتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی مجموعی حالت کو کمزور قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی وسائل، یعنی غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے یہاں اپنے رشتے داروں کو رقوم کی ترسیل اور پی ٹی آئی کی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم‘ پر ہے؛ تاہم ایسا صرف موجودہ حکومت کے ساتھ نہیں ہے۔ یہی بات پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کے دور کی معیشت کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ان کے دور میں بھی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات‘ غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس پر ہوتا تھا۔ حکومتِ پاکستان مختلف قسم کے ٹرم بانڈز پیش کر کے بھی بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرتی ہے۔ ان دنوں پاکستان کا غیر ملکی قرضہ تقریباً 110 بلین ڈالر ہے۔ اس کا تقریباً نصف حصہ 2008 سے 2018 تک کے دس برسوں میں حاصل کیا گیا تھا۔
2021 میں معیشت کی حقیقت کیا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کے معیشت کے بارے میں جو موقف ہیں‘ یہ ان کے کہیں درمیان میں واقع ہے۔ فروری 2020 سے کووڈ19 کے چیلنج کے باوجود پاکستان کی معیشت نے میکرو سطح پر کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بعض شعبوں میں مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے؛ تاہم حکومت ان دو اہم شعبوں کے بارے میں بات نہیں کرتی جو قومی معیشت کی مجموعی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان دو شعبوں پر توجہ دیئے بغیر معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ یہ شعبے ہیں: گڈ گورننس اور غربت و پسماندگی کا خاتمہ۔
گڈ گورننس کیا ہے؟ سرکاری مشینری کو اس انداز میں استعمال کرنا کہ معاشرے اور عوام کی بہبود کے لیے ریاست کے مادی اور انسانی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ریاست کی ذمہ داری وہ بنیادی خدمات مہیا کرنا ہے‘ جو لوگوں کو سکیورٹی اور تحفظ فراہم کریں اور ان کے لیے بہتر مستقبل کی امید پیدا کریں۔ اس میں سرکاری محکموں اور اہلکاروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور بدعنوانی، اقربا پروری اور قومی وسائل کی بربادی پر قابو پانا جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔ پالیسی سازی اور پالیسیوں پر عملدرآمد کے ذمہ دار اہم عہدوں پر پروفیشنلزم اور قابلیت کو ترجیح دیئے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے۔ قانون کی حکمرانی، سب کے لیے مناسب مواقع کی فراہمی، سرکاری امور میں شفافیت اور بلا امتیاز قواعدوضوابط کا نفاذ بھی اس مقصد کے حصول کیلئے بے حد ضروری ہے۔ گڈ گورننس کا رہنما اصول لوگوں کی خدمت ہے۔ قوانین بلا تفریق پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے بنائے جاتے ہیں۔جی ڈی پی میں اضافے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے آمدنی میں عدم مساوات اور غربت ختم ہو گئی ہے۔ جی ڈی پی اور غربت‘ دونوں بیک وقت بھی بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت کو معیشت کی مجموعی نمو میں اضافے کے فوائد کی تقسیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ترقی کے ثمرات کی تقسیم میں انصاف یقینی بنانے کیلئے اقدامات نہ کرے تو عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے اور جی ڈی پی میں بہتری پہلے سے امیر لوگوں کی دولت میں ارتکاز کا سبب بن سکتی ہے۔ غربت کے خاتمہ کیلئے ریاستی پالیسی کے ذریعے شعوری طور پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ حکومت غربت کے خاتمے اور ملازمت کے مواقع بڑھانے جیسے معاملات کو مارکیٹ کی قوتوں پر نہیں چھوڑ سکتی۔ اچھی معیشت کے ثمرات کو غریبوں میں از خود سست روی سے منتقل ہونے کے عمل پر بھی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مسائل معیشت کے لیے نئے نہیں ہیں، نہ ہی یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ مستقل مسائل ہیں‘ اگرچہ ان کی شدت مختلف حکومتوں کے ادوار میں مختلف رہی ہے۔ اگر آپ 2008 سے 2018 تک کے عرصے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر واپس جائیں اور جائزہ لیں تو آپ کو اس وقت کی حزب اختلاف کی طرف سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی معاشی پالیسیوں پر تنقید نظر آئے گی‘ جو موجودہ دور کی حزب اختلاف کی تنقید سے مشابہ ہو گی‘ بالکل ویسی ہی جیسی پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کی جا رہی ہے۔
واحد سب سے بڑا فرق اعلیٰ حکومتی سطح پر بدعنوانی اور ریاستی وسائل کے ناجائز استعمال کا ہے اور عمران خان کی جانب سے یہ اصرار کہ وہ بدعنوانی سے متعلق امور میں کسی کو بھی نہیں بخشیں گے۔ سیاسی تجزیہ کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)‘ دونوں کے ادوارِ حکومت میں کچھ اعلیٰ افراد اور ان کے حمایت یافتگان نے بہت پیسہ بنایا تھا؛ تاہم ان افراد کے احتساب کی حکومت کی پالیسی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے کیونکہ ہمیں میڈیا میں ان کی بدعنوانی کی کہانیاں ملتی ہیں اور حزب اختلاف کے کچھ رہنما گرفتار بھی کیے گئے‘ لیکن ان کہانیوں میں سے زیادہ تر کو عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ کچھ بھی برآمد نہیں کرایا جا سکا۔ اس صورتحال نے احتساب کے عمل‘ سیاست میں تنازعات اور پولرائزیشن میں اضافے کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ اپوزیشن اب پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں کچھ لوگوں پر بدعنوانی کے الزامات عائد کر رہی ہے؛ تاہم الزامات کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ پاکستان ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر کرپٹ ہونے اور ریاست کے وسائل کے استحصال کا الزام عائد کررہی ہیں۔
معیشت کے مسائل، خاص طور پر عام لوگوں کو معاشی ریلیف فراہم کرنے اور معاشی عدم مساوات ختم کرنے کے سوال پر اسی وقت مؤثر طریقے سے توجہ دی جا سکتی ہے جب حکومت اور حزب اختلاف‘ دونوں عام لوگوں سے متعلق معاشی امور طے کرنے میں کم سے کم تفہیم پیدا کریں۔
اس طرح کا امکان اس مرحلے پر دور نظر آتا ہے کیونکہ اپوزیشن نہیں چاہے گی کہ وہ حکومت کو معیشت کا کریڈٹ حاصل کرنے دے، خاص طور پر ایسے وقت پہ جب حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں کو بدعنوانی، تفتیش کے نام پر قید یا ضمانت پر ہونے یا نااہل ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سیاست بقا کی جدوجہد، ہر ممکن ذریعے سے سیاسی طاقت کے حصول‘ اور سیاسی حریفوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کی تگ و دو میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس قسم کی سیاست اچھی معیشت کے لیے سازگار نہیں، چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت حکمرانی کر رہی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved