ہمارے کارکنوں کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا
تو ہم بھی ان کے بیٹے پکڑیں گے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹوز رداری نے کہا ہے کہ ''ہمارے کارکنوں کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو ہم بھی ان کے بیٹے پکڑیں گے‘‘ کیونکہ اگر باپ کو پکڑ رکھا ہے تو اسی کو کافی سمجھا جائے کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہوتا ہے جبکہ بچے تو ویسے بھی عقل کے کچے ہوتے ہیں اور اگر اپنے بچپنے میں اثاثوں وغیرہ میں اضافہ کر بھی لیں تو اس کی تو تعریف کرنی چاہیے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات بھی نکل آئے ہیں جبکہ ویسے بھی، پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔آپ اگلے روز سید خورشید شاہ کے بیٹے کی گرفتاری پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
بجٹ میں کمزور طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''بجٹ میں کمزور طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا‘‘ کیونکہ اگلے بوجھ سے ہی ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور مزید بوجھ ڈالنے کی گنجائش ہی نہیں؛ تاہم روز افزوں مہنگائی کو ہم بوجھ شمار نہیں کرتے جبکہ لوگ اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں اور ٹوٹی ہوئی کمروں کے ساتھ بھی ادھر اُدھر پھر رہے ہیں، اس لیے یہ بوجھ متوسط طبقے پر ڈالا جائے گا تا کہ وہ جلد از جلد اپنے کمزور بھائیوں جیسے ہو جائیں اور مساوات کی ایک قابلِ رشک صورتحال بھی پیدا ہو جائے جبکہ طاقتور طبقہ ہمارے کسی بوجھ کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ خود ہمارے لیے ایک بوجھ بنا ہوا ہے کیونکہ اس پر ہمارا کوئی بس ہی نہیں چلتا۔ آپ اگلے روز ایک چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
حکومت آزاد کشمیر میں مداخلت نہ کرے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت آزاد کشمیر میں مداخلت نہ کرے‘‘ کیونکہ جب پورا ملک موجود ہے تو آزاد کشمیر الیکشن میں مداخلت کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے حکومت کو کفایت شعاری کا ثبوت دینا چاہیے البتہ ٹیکنیکل بنیادوں پر اگر اس سے کچھ ہو سکے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور جس کا اسے حق بھی پہنچتا ہے ورنہ حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے کے لیے تو نہیں آتیں جبکہ وہ ساتھ ساتھ بھاگ دوڑ بھی کر رہی ہوتی ہیں تا کہ دال دلیہ ہوتا رہے اور عوام اسی میں مگن رہیں کہ حکومت ان کے لیے کام کر رہی ہیں‘ وہ الگ بات کہ حکومت کی بھاگ دوڑ کے باوجو دعوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور وہ حکومت پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے کا الزام دھرتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز آزاد جموں و کشمیر کے قائم مقام امیر نور الہدیٰ سے ملاقات کر ر ہے تھے۔
جلد ہماری معیشت آسمانوں کو چھوئے گی: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''جلد ہماری معیشت آسمانوں کو چھوئے گی‘‘ اور جو لوگ مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ ہیں ان کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ حکومت کا کام عوام کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے جبکہ اس سے بڑی عیاشی اور کوئی نہیں ہو سکتی اور جس سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اپنے آپ ہی واضح کمی واقع ہو جائے گی اس لیے دعا کریں کہ حکومت اس بہت بڑے پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں جلد از جلد کامیاب ہو کر اپنے مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے ہوئے عوام سے سرخرو ہو سکے۔ آپ اگلے روز وفاقی بجٹ کے حوالے سے اپنے رد عمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم تک بجٹ
پیش نہیں کیا جا سکتا: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم تک بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا‘‘ کیونکہ قانون کی پابندی بہت ضروری ہے اور ہم سے زیادہ قانون کا پابند اور کون ہو سکتا ہے، بلکہ ہم نے تو قانون کی پابندی کے ڈھیر لگا دیے تھے اور سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے جنہیں لوگ اب بھی یاد کر کر کے سبق پکڑتے ہیں اور یہ سبق ایک ایسا بٹیر ہے کہ اسے ہر صورت پکڑنا چاہیے کیونکہ آدمی ہر روز مٹن اور بیف نہیں کھا سکتا؛ اگرچہ ہم تو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والے ہیں اور ہمارے فقر و درویشیٔ طبع کی ایک دنیا نہ صرف واقف ہے بلکہ اس کی باقاعدہ مثالیں دیا کرتی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سندھ کو 1500 ارب روپے ملے لیکن نظر
نہیں آ رہا کہاں خرچ ہوئے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد احمد نے کہا ہے کہ ''سندھ کو 1500 ارب روپے ملے لیکن نظر نہیں آ رہا کہاں خرچ ہوئے‘‘ اگرچہ ایسی رقوم ویسے بھی نظر نہیں آتیں کہ کہاں خرچ ہوتی ہیں‘اس کے لیے کسی مضبوط خورد بین کی ضرورت ہوتی ہے جو کافی مہنگی ہوتی ہے اور کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں ہم اسے خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ اگر معلوم ہو بھی گیا کہ یہ رقوم کہاں خرچ ہوئی ہیں تو پھر دنیا کو بتانا بھی پڑے گا کہ کہاں خرچ ہوئی ہیں جو کہ حکومتی مفاد کے خلاف ہو گا اور ہم حکومتی مفاد سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے جبکہ ویسے بھی ہمارا اِدھر اُدھر ہونا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
چند برس ہی ہوتے ہیں
چند برس ہی ہوا کرتے ہیں/ دوڑ لگائیے، آگے نکلیے/ اور جان جائیے/ اچھل کود بے معنی ہوا کرتی ہے/ دنیا کو ہلا دیکھیے اگر۔۔۔۔/ بارشوں میں چھینٹے اڑاتے ہوئے/ ان اطراف کا پھیرا لگائیے/ جہاں آپ کی آوازیں/ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکیں/ بچوں اور پھولوں، موسموں اور خوابوں میں/ تلاش کیجیے، اسے جو معدوم ہو گیا/ کلام کیجیے، خود کلامی کی طرح/ راز کو راز مت جانیے/ بیان فرمائیے/ اور اس کی سزا کا لطف اٹھا لیجیے/ زندگی میں گھمسان کا رن پڑا ہے/ کُود نہیں سکتے تو اپنے جانبازوں کو/ کُمک ہی بھیجتے رہیے/ رائگانی کا دکھ، حصول کی سرشاری/ ایک وقت میں ایک سے لگنے لگتے ہیں/ جلدی کیجیے/ ایک سے نوّے تک/ گنتی بس اتنی ہی ہے/ وہ چہرہ جو آپ کے خیال ہی میں بنا رہا/ اور جس کی کھوج میں آپ نے/ لا تعداد چہروں سے استفادہ کیا/ اسے بھول جائیے/ معافی طلب کیجیے/ اور اس کے آنسو پونچھ کر/ گلے سے لگائیے/ اسے، جو موجود رہا ہے آپ کے لیے/ کسی اوٹ میں گزار لیجیے/ وہ جاں فزا لمحے/ جو ابھی گزارے جا سکتے ہیں / اوپر نکل جائیے/ منظر سے/ چند حافظوں میں/ کچھ عرصہ زندہ رہنے کے لیے
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ روکا ہوا تھا زندگی نے
مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں