تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     14-06-2021

اسلاموفوبیا اور تہذیبی تصادم

کینیڈا میں مسلم خاندان کے بہیمانہ قتل نے نام نہاد مغربی تہذیب کا پول کھول دیا ہے۔ حالیہ واقعے کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ '' اسلاموفوبیا‘‘ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف نفرت و عداوت کی لہر میں شدت آچکی ہے جومسلمہ اُمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ وزیر اعظم عمران خان نے بھی دلخراش سانحے کو مغربی ممالک میں پھیلنے والے 'اسلاموفوبیا ‘کی ایک کڑی قرار دیا۔ قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں کھل کر اسلاموفوبیا کے خلاف اظہارِ خیال کرتے ہوئے یورپ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا کہ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں‘ وہاں ان کے خلاف نفرت و عصبیت کی مہم جاری ہے۔ اس حوالے سے حتجاجی مراسلے، یادداشتیں پیش کرنے کے بجائے مسلم ممالک کو یکجا ہو کر عالمی سطح پر بھرپو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ازخود نسل پرستی کا اعتراف کرتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ''اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت اس ملک (کینیڈا) میں نہیں ہے تو میں اس کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہسپتال میں زیرعلاج بچے کو ایسے پُرتشدد واقعے کی وضاحت کیسے پیش کریں گے؟ آپ کیسے یہ ان خاندانوں سے نظریں ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت نہیں ہے؟‘‘۔ سوال تو یہ ہے کہ مغربی سر زمین پر اگر کوئی مقامی عیسائی‘ یہودی100 مسلمانوں کو بھی کچل ڈالے تو جائے وقوعہ پر پھول چڑھا کر، موم بتیاں جلا کر معاملہ پس پشت کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ اگر حملہ آور پاکستانی یا کسی اور مسلم ملک سے تعلق رکھتا تو کیا ہوتا‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کچھ کہنے سننے سے پہلے ہی مسلم ممالک پر قیامت ٹوٹ چکی ہوتی اور تحقیقات سے قبل ہی سزا سنا دی جاتی۔ درحقیقت یورپ سے لے کر بھارت تک اسلامو فوبیا کی لہر عروج پر ہے۔ مودی کی سر پرستی میں حیوانیت کا برہنہ ناچ جا رہی ہے، مسلمانوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، دن دہاڑے پولیس کی سر پرستی میں آر ایس ایس کے غنڈے مسلم خواتین کی عصمتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ بھارت مسلم دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ کورونا کا ملبہ بھی مسلم طبقے پر ڈال دیا گیا تھا۔ الغرض آرایس ایس کا پرچارک نریندر مودی بھارت سے مسلم نام و نشاں مٹانے کے گھنائونے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ۔اب تک بھارت بھر میں ڈھائی سو سے زائد مسلمانوں کو گائے ذبیحہ کرنے کا الزام لگا کر قتل کیا جا چکا ہے۔
اس وقت افغانستان میں امریکااور اس کے یورپی حواریوں کا کیا حال ہوچکا ہے‘ وہ سب جانتے ہیں۔ دوسری جانب بحیرہ روم اور بحیرہ اسود پر ترکی کی سرگرمیاں زور پکڑتی جارہی ہیں، روس، چین اور ترکی کے درمیان ایک عسکری، معاشی اور سیاسی اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ افریقہ میں چین کی معاشی پیش قدمی اور ترکی کی جانب سے افریقہ میں پیر جمانے کے عمل نے پورے یورپ کو فکرمند کردیا ہے کہ اب یہاں ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے وقت محدود ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب مذہب کے نام پر یورپ کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کے لیے آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر توہین آمیز آرٹیکلز اور خاکوں سے پوری مسلم دنیا کو اشتعال دلایا گیا تاکہ اس کے ردعمل کے غبار میں یورپ میں اسلام دشمن قوتوں کی نئی صف بندی کی جاسکے؛ چونکہ جغرافیائی طور پر فرانس شمالی افریقہ کے قریب واقع ہے اور الجزائر جیسے بڑے ملک میں اسے استعماریت کا خونیں تجربہ بھی ہے‘ اس لیے ابتدا یہاں سے ہوئی؛ تاہم یہ معاملہ صرف فرانس تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کی پشت پر پورا یورپ بشمول امریکا کھڑا ہے۔ شمالی افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا تک کی جدید تاریخ دیکھ لی جائے تو علم ہو گا کہ اس خطے میں فرانس نے مسلمانوں کی دولت لوٹنے کے لیے بے پناہ ظلم وستم ڈھائے ہیں، الجزائر کی جنگ آزادی کسے یاد نہیں جہاں 70 لاکھ نہتے مسلمانوں فرانسیسی استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ الجزائر میں ہی فرانس نے سب سے پہلے اپنے ایٹمی دھماکے کرکے یہاں کی مقامی آبادیوں کی زندگیوں کو دائو پر لگایا تھا۔ مالی اور چاڈ کا ہزاروں ٹن سونا فرانس منتقل کیا گیا اوراس علاقے کے مسلمانوں کو فاقوں مرنے پر مجبور کردیا گیا۔ یورپین تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ فرانس کی تمام ثروت کا انحصار افریقہ سے لوٹی ہوئی دولت پر ہے۔ الجزائر، چاڈ، مالی اور دیگر افریقی ملکوں میں فرانس نے پوری منصوبہ بندی سے مسلمان علمائے دین اور ان کے ہزاروں طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتارا تاکہ اسلام کے حوالے سے اس خطے میں جہالت اور لاعلمی پھیل سکے۔ تقریباً تمام یورپی ملکوں نے اپنے اپنے مقبوضات مسلم ممالک میں یہی کچھ کیا۔ فرانسیسی اور دیگر مغربی مورخین کے مطابق بیسویں صدی میں فرانس کی کوئی وقعت نہیں تھی مگر پھر اسے تین چیزوں کے سبب ایک برتری ملی، ایک‘ وہ جوہری قوت بن گیا، دوسرا‘ جوہری قوت کی وجہ سے اسے سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل ہو گئی، تیسرا سب سے بڑا عامل افریقہ ہے جہاں کی دولت لوٹ کر اس نے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ دوسری جانب یورپ میں مسلم تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی کی بنیاد پر ہی عدم روا داری فروغ پا رہی ہے، ووٹوں کے حصول کے لیے سیاسی قائدین مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے والے گروپوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا ان کا سیاسی ایجنڈا بن چکا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں یا حکومتیں اس رجحان کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے اس کو سیاسی مقاصد اور انتخابات میں زیادہ حمایت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ دنیا میں ہر کہیں مغرب اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے لیکن یورپ میں مسلمانوں کے مقامی معاشروں میں جذب ہونے پر اصرار کیا جا رہا ہے‘ یہ سراسر دہرا معیار ہے۔
عالمی منظرنامہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ آج کس قدر نیوورلڈ آرڈر کا دجالی نظام کہیں کامیاب تر تو کہیں شکست خوردہ نظر آ رہا ہے۔ اسی نیوورلڈ آرڈر کے استحکام کے نام پر پوری دنیا میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور جس طرح اقوام متحدہ جیسے اداروں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے‘ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ تمام عالمی ادارے اسی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا قتل اس آرڈر کی ایک کڑی ہے؛ تاہم عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی عداوت کو بڑھانے میں تحریکِ استشراق (orientalism) کا اہم کردار رہا ہے۔ مستشرقین اسلام کے ساتھ منافرت کو صلیبی جنگوں سے جوڑتے ہیں کیونکہ عیسائی مشنریوں کا قیام صلیبی جنگوں کے بعد عمل میں آیا تھا جن کا مقصد مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرکے یورپی استعمار کا غلام بنائے رکھنا تھا۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد European Monitoring Centre on Racism and Xenophobia کی ایک رپورٹSummary Report on Islamophobia EU after 11 September 2001 کے مطابق‘ یورپ کی کم و بیش پندرہ ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے اور نائن الیون کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2004ء میں اقوام متحدہ نے بھی Confronting Islamophobia: Education for Tolerance and Understanding کے عنوان کے تحت اپنے ایک پروگرام میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کا جائزہ لیا تھا۔ 2008ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے زیر اہتمام 21 ممالک میں منعقدہ ایک سروے کے مطابق اسلام اور مغرب کے درمیان عداوت کی خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی کمیشن کے کونسل آف یورپ برائے نسلی امتیازات و صبر؍ امن و آشتی کے بیان کردہ اسلاموفوبیا کی تعریف کی روشنی میں آج مسلمان نہ صرف عقائد کی بنیاد پر بلکہ نسل کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والا طبقہ یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو مختلف طریقوں سے اس حد تک عاجز کیا جائے کہ وہ مغرب سے مزاحمت پر اتر آئیں تاکہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو حقیقی ثابت کیا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved