تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     14-06-2021

پنشن

آج پھر وہ دن آ گیا تھا جو مہینے میں ایک بار آتا تھا مگر اُس کو اگلے پورے مہینے تک کے لیے پریشان کیے رکھتا تھا۔ پنشن کا دن! پنشن وصول کرنے کا دن اور پنشن وصول کرنے کے لیے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کا دن! وہ اسے یکم نہیں ‘پنشن والا دن ہی کہتا تھا۔ آج مہینے کی پہلی تھی۔
اچھا خاصا دن چڑھ چکا تھا۔ اس کی نیند بھی پوری ہو چکی تھی مگر جسم میں ایک کسلمندی تھی۔ پوری طرح اس کی آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں۔ رات کو وہ سو بھی جلد گیا تھا۔ کبھی کبھی جو کسی چینل پر نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتا تھا اور بسا اوقات اس مجادلے پر زیر ِ لب مسکرا بھی لیتا تھا۔ اس سے بھی آج کل مکمل پرہیز تھا۔ وہ بہت جلد سو گیا تھا، اس نے سوچا نیند پوری ہو جائے گی اور صبح خوش خوش اٹھ بیٹھوں گا مگر اب اس کی آنکھیں پوری طرح کھل نہیں رہی تھیں۔ اس نے ادھ کھلی آنکھ سے کمرے کا جائزہ لیا وہاں بھی ہر چیز نارمل تھی۔ عموماً وہ صبحِ کاذب کے وقت کھڑکی کا پردہ سرکا کر سوئے ہوے شہر اور اپنی سوئی ہوئی گلی کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ ہر چیز خاموش‘ ہر شے بے حس و حرکت۔ اس وقت نہ اندھیرا ہوتا نہ اجالا‘ نہ دھوپ نہ چھائوں۔ بس وہ ہوتا اور خاموش گلی ہوتی۔ ایک طمانیت اس کے اندر باہر پھیل جاتی۔ اس کا دن اچھا گزرتا۔ دن کا آغاز اچھا ہو تو بزرگ کہتے تھے کہ دن اچھا گزرتا ہے۔ اسی لیے بڑے بوڑھے بزرگ کہا کرتے تھے: یا اللہ! کسی نیک دے متھے لاویں۔
وہ خوش ہوتا اور کھڑکی کے آگے دیر تک کھڑا رہتا۔ کھڑے کھڑے اسے جب خیال آتا یہ شہر، یہ گلی، یہ گلی کے لوگ اٹھیں گے اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔ بس یہی لمحہ ہوتا تھا جب اس کی ساری مسرت ساری خوشی کافور ہو جاتی تھی۔ صبحِ کاذب کے وقت پرندے جب پر جھاڑتے تو وہ خوش ہوتا۔ سامنے بڑے سے پیڑ کے درمیان سے پرندوں کی آوازیں آتیں شاخیں ہلتیں پرندے چہچہانے لگتے‘ صبح ہو جاتی۔ وہ بھی خوشی سے دن کا آغاز کرتا یا آغاز کرنے کی تیاری شروع کرتا مگر آج یہ سب کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس کی آنکھ صبحِ صادق کے وقت ہی کھل گئی تھی مگر اس نے نہ صبحِ کاذب کا نظارہ کیا‘ نہ پرندوں کے پر جھاڑنے کا انتظار کیا۔ خاموشی سے چادر کا کونا کھینچا جیسے چاہ رہا ہو کہ دوبارہ نیند آ جائے۔
اس کی بیوی کو صبحِ کاذب کے وقت اٹھنے کی نہیں سحر کے وقت جاگنے کی عادت تھی۔ وہ سحر خیز تھی! اس کی یہ عادت اس کو باپ کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ اس کا باپ ایک ٹیلر ماسٹر تھا۔ کہنے کو تو وہ ٹیلر ماسٹر تھا مگر اصل میں وہ کاج نکالتا اور بٹن لگاتا تھا۔ تب کاج نکالنے والی مشین نہیں ہوتی تھی‘ لوگ اچھے کاج اور اس کی خوبصورت ترپائی کی وجہ سے اس دکان پر آتے تھے۔ دکان کا مالک تو اصل ٹیلر ماسٹر تھا مگر جو کاج نکالا کرتا تھا‘ نام اس کا بطور ٹیلر ماسٹر مشہور ہو گیا۔ جب کوئی گاہک آتا تو سب سے پہلے یہی سوال کرتا: کاج نکالنے والے ٹیلر ماسٹر یہیں کام کرتے ہیں؟ رفتہ رفتہ کاج نکالنے والا خطاب ختم ہو گیا اور صرف ٹیلر ماسٹر رہ گیا۔ مالک نیک آدمی تھا‘ اس نے شہر کی چھوٹی سی گلی میں اسے ایک مکان لے کر دیا۔ وہ سحر خیز آدمی تھا۔ سحر کے وقت اپنی بیٹی کو بھی اٹھاتا۔ اس کی یہی عادت بیٹی کو بھی ورثے میں ملی۔ وہ سحر کے وقت سے شروع ہو کر اپنا سارا کام گیارہ بجے تک مکمل کر لیتی تھی۔ اس کے باپ نے اسے کہا تھا کہ اگر اپنا دن سکون کے ساتھ اور افراتفری کے بغیر گزارانا چاہتی ہو تو تڑکے تڑکے اٹھ جانے کی عادت اپنا لو۔ اب سردی ہو یا گرمی‘ اس کا معمول تھا جلد جاگ جانا اور کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آ جانا۔ آج وہ اس کمرے میں تھوڑی دیر سے آئی۔ اس کا خاوند جاگ تو گیا تھا مگر ابھی بستر پر نیم دراز تھا۔
بیگم کے کمرے میں داخل ہونے کی دیر تھی‘ وہ سنبھلا اور اٹھنے کی جیسے کوشش کی۔ بیگم سے زیادہ کون جانتا تھا کہ آج مہینے کی پہلی ہے۔ بیگم نے کہا کہ اٹھ جائیے اور بینک سے ہو آئیے۔ پنشن کے لیے بینک جانا اس کے لیے روح کا آزار تھا اور بیگم کا دردِ سر بھی۔ اس کا بس چلتا تو اسے کبھی بینک نہ جانے دیتی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اس کی بیگم کی آنکھوں نے یکلخت کسی گہرے کنویں سے بوکے کی مدد سے پانی کھینچا، ایک موٹا سا آنسو اس کی بیگم کی پلکوں پہ پل بھر رکا، لرزا اور بالاخر نیچے گر گیا۔ یہ آنسو اس ماہانہ دکھ کا پیش خیمہ تھا جو ہر مہینے گھر میں وقوع پذیر ہوتا۔ ایسا تمام دن ایک تکلیف اور ناقابل بیان تکلیف میں گزرتا۔ دونوں چپ چپ ایک دوسرے کو تکتے زبان سے کچھ نہ کہتے مگر سب کچھ بیان ہو جاتا۔ اس نے واش روم میں کپڑے تبدیل کیے، اس دوران اس نے محسوس کیا اس کا پیٹ خاصا کم ہو گیا ہے۔ پتلون میں بیلٹ لگاتے اسے معلوم ہو گیا کہ ایک سوراخ اور بڑھ گیا ہے‘ پیٹ کی چربی اور گھل گئی ہے۔ اس کا دل چاہا کہ وہ شب خوابی کا لباس دوبارہ پہن لے اور بستر پر دراز ہو جائے۔
نو بج چکے تھے اور وہ لمحہ آ گیا تھا جس سے وہ دونوں بچنا چاہتے تھے اور جو ہر ماہ کی پہلی کو آتا تھا۔ ان دونوں کے بس میں ہوتا تو ہر مہینے کی پہلی کو مہینے سے نکال ہی دیتے۔ نہ پہلی آتی اور نہ ان کی روحیں زخمی ہوتیں۔ یہ ایسا عالم ہوتا جب وہ ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوتے مگر ایک دوسرے کے باہمی درد کو سمجھ بھی رہے ہوتے۔
پھر کچھ یوں گفتگو ہوتی:آپ نے اپنے دوست کو فون کر دیا تھا؟ کیا اس کے بیٹے نے آپ کے زندہ ہونے والے سرٹیفکیٹ (Life Certficate)پر دستخط کر دیے ہوں گے ؟ کیا اس کی تصدیق ہر ماہ ضروری ہے ؟ وہ دھیمی آواز میں کہتا: پنشن وصول کرنا ہمارا حق ہے‘ ہم نے زندگی کے اڑتیس سال اس محکمے، اس حکومت، اس ملک کی خدمت کی ہے۔ پنشن کوئی خیرات نہیں ہے‘ یہ ہماری اپنی رقم ہے جو حکومت ہمیں لوٹاتی ہے‘ وہ اپنے پلّے سے ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کرتی۔ آخر اس کی بر وقت ادائیگی کا ایک طریقہ کارہونا چاہیے۔ یہ پارلیمان میں ممبران کی فوج ظفر موج، وزرا کی قطاریں اور مشیروں کے جمگھٹے کس کام کے ہیں؟ یہ ہمارے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں۔ ہم پنشن کی وصولی کے لیے جائیں‘ اپنی رقم وصول کریں اور گھر لوٹ آئیں۔ اس کی بیگم کو معلوم ہو جاتا کہ اب اس کا فشار ِ خون بلند ہو جانا ہے۔ پنشن کی ادائیگی تو آسانی سے ہو جاتی ہے مگر اس سے پہلے ایک مرحلہ اس کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ تب اسے بقیدِ حیات کے صحیح مفہوم کا پتا چلتا۔
یہی وہ مسئلہ تھا جو اسے سارا مہینے بے چین کیے رکھتا۔ زندہ ہونے کا ثبوت دینا! زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ بنوانا۔ اسے سنبھالنا کہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جو پنشن کی وصولی کے لیے لازمی شرط ہے۔ اس کا دماغ جیسے چکرانے لگتا۔ اس کی بیگم کو معلوم تھا کہ اس کے خاوند کے دوست کا بیٹا‘ جو اس کاغذ پر دستخط کر دیتا تھا‘ پچھلے دو ہفتوں سے سرکاری کام کے سلسلے میں دوسرے صوبے میں گیا ہوا ہے‘ اس کے دوست کا بیٹا اس ماہ بھی واپس نہیں آیا تھا۔
تھوڑی دیر پہلے وہ گھر میں بیٹھا تھا بیگم سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے کپڑے تبدیل کیے تھے۔ ایک کپ چاے کا لیا تھا مگر اب بینک میں پنشن ادا کرنے والا عملہ اس زندہ ہونے کے سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی میں پنشن ادا نہیں کررہا۔ وہ عملے کے سامنے زندہ کھڑا ہے، باتیں کر رہا ہے‘ لڑ جھگڑ رہا ہے مگر عملہ کہتا ہے: زندہ ہونے کا ثبوت لائیے۔ اس سے بڑی انسانیت کی توہین اور کوئی ہے ؟ ایک زندہ آدمی گھر سے ثبوت لے کر چلے کہ وہ زندہ ہے۔ اس ثبوت کی تصدیق کسی سرکاری افسر سے ضروری ہے۔ سرکاری افسر کے سامنے پیش ہونے سے تو کہیں بہتر ہے وہ اپنے آپ پنشن کے حق سے ہی محروم کر دے۔ اس سے آسان تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا ہے۔ یہ کیا حماقت ہے ؟ اپنی زندگی اور زندہ ہونے کا ثبوت دینا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved