تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-06-2021

چھوٹیں تو مر ہی جائیں اسیرانِ زندگی

انسان سو طرح کے سکون تلاش کرتا ہے کہ وہ مسرور و مخمور رہنا چاہتا ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ زندگی سے کسی حد تک دامن چھڑایا جاسکے۔ زندگی سے دامن چھڑانا اس قدر ضروری کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟ شاید اس لیے کہ ذہنوں میں یہ بے بنیاد تصور جڑ پکڑ گیا ہے کہ زندگی کا سامنا کرنا صرف دشواریاں پیدا کرتا ہے۔ بہت سے علوم و فنون محض اس مقصد کے تحت پروان چڑھائے گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طور زندگی سے تھوڑی دیر کے لیے دامن چھڑاکر کسی خیالی دنیا میں وقت گزارا جائے۔ کیا ایسا کرنے سے کچھ ملتا ہے؟ حقیقی دنیا سے فرار ہمیں کچھ دے سکتا ہے یعنی زندگی کا معیار کچھ بلند ہوسکتا ہے؟ لوگ تو یہی سمجھتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ خیال گھر کرچکا ہے کہ روزانہ زندگی سے کچھ دیر کے لیے دامن چھڑانے ہی میں عافیت ہے۔ اہلِ دانش کی رائے یہ ہے کہ زندگی سے پیچھا چھڑانے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے بجائے زندگی کے تمام حقائق کا پامردی سے سامنا کرنے ہی میں جینے کا حقیقی لطف پوشیدہ ہے۔ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا بھرکے دکھ اُسی کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ یہ تصور سراسر بے بنیاد ہے۔ روس کے عظیم ناول نگار لیو ٹالسٹائی نے لکھا ہے کہ تمام خوش باش خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ ہر ناخوش خاندان اپنی الجھن، پریشانی اور دکھ ظاہر کرنے کے معاملے میں انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔
جب تک ہم زندہ ہیں تب تک زندگی کا سودا برقرار ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ مرتے دم تک تو جینا ہی ہے۔ اور جب جینا ہی ٹھہرا تو پھر اِدھر اُدھر کے بہت سے لایعنی معاملات کے بارے میں سوچنے سے کیا حاصل؟ ہمارے لیے اپنا وجود کیا کہ جس کے لیے متفکر ہوا جائے؟ ہر انسان کو سب سے پہلے اپنے بارے میں، اپنے مسائل اور امکانات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہی زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ واکر پرسی نے اپنی معروف تجزیاتی تصنیف ''لاسٹ اِن دی کاسموس‘‘ میں انسان کی ذہنی پیچیدگیوں کو عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی نکتہ یا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان نے پوری کائنات کا غم پال رکھا ہے مگر اپنے ہی وجود کو بھول بیٹھا ہے۔ بقول مجازؔ ؎
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کا تو گریباں سی ڈالا، اپنا ہی گریباں بھول گئے
قصہ یہ ہے کہ صاحب کہ اللہ نے ہمیں جو سانسیں عطا کی ہیں وہ اگر ڈھنگ سے بسر کی جائیں تو زندگی بنتی ہیں۔ ہمیں صرف جینا نہیں ہے بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق جینا ہے اور وہ اس یقین کے ساتھ کہ جو کچھ اللہ نے ہمارے لیے طے کیا ہے وہی ہمارے لیے مفید ترین ہے۔ ہم چند ایک معاملات میں دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے فیصلے کرسکتے ہیں۔ اس کی گنجائش بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی ہے۔ زندگی اپنے تمام منفی اور مثبت پہلوؤں کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہم سوچنے کا انداز بدل لیں تو راز پا جائیں۔ اللہ کی مرضی یہ ہے کہ ہم زندگی سے خود بھی مستفیض ہوں اور دوسروں کو بھی فیض یاب ہونے کا موقع دیں۔ ایسا کب ہوسکتا ہے؟ صرف اس وقت جب ہم زندگی کو نعمت سمجھ کر قبول کریں۔ ہمارا جینا اُسی وقت واقعی جینا ہے جب ہم اپنے حصے کا کام کریں۔ اللہ نے زندگی سی نعمت اِس لیے عطا نہیں کی کہ اُس کے بارے میں بدگمانیاں پالتے رہیں،بات بات پر برہم ہوں، اپنے حصے کا کام کرنے پر متوجہ رہنے کے بجائے محض گلے شکوے کرتے ہوئے جئیں‘ کہ جو کر ہی نہیں سکتے اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں اور جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ بھی نہ کر پائیں۔
زندگی کو بہت کچھ کہا گیا ہے۔ یہ تو سوچنے کے انداز پر منحصر ہے کہ کوئی زندگی کو کیا سمجھتا ہے۔ جنہیں زندگی کو برتنے کا ہنر سکھایا گیا ہو وہ ایک ایک پل پورے ہوش و حواس کے ساتھ گزارتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں واضح توازن اور استحکام پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ طے کرلے کہ زندگی کے دامن میں اُس کے لیے کچھ بھی نہیں تو پھر واقعی زندگی اُسے کچھ نہ دے پائے گی۔ کسی کے لیے زندگی گلشن ہے تو کسی کے لیے خارزار۔ کوئی اِسے سمندر گردانتا ہے تو کوئی ریگ زار۔ حکیم محمد اظہرؔ وارثی کہتے ہیں ؎
اللہ رے دل فریبیٔ زندانِ زندگی
چُھوٹیں تو مر ہی جائیں اسیرانِ زندگی
اِس ایک شعر کے ذریعے حکیم محمد اظہر وارثی نے دراصل کوزے میں دریا کو بند کردیا ہے۔ شعر ایسا ہے کہ پڑھیے اور حِظ اٹھاتے رہیے۔ زندگی ایک زندان یعنی قید خانہ ہے مگر یہ قید خانہ اس قدر حسین و دل فریب ہے کہ اِس سے رہائی کو جی نہیں چاہتا۔ بہت سی پریشانیاں جھیلنے کے باوجود انسان چاہتا ہے کہ اس زندان میں رہے۔ اب سوچیے کہ جب اِس زندان سے رہائی ملتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ انسان مر جاتا ہے! بس! اتنی سی کہانی ہے۔ زندگی کی ''اسیری‘‘ سے چُھٹنے پر موت ہی تو نصیب ہوتی ہے۔ یہ بدیہی حقیقت ہے مگر شاعر نے کتنی خوبصورتی سے اِس بات کو شعر کی لڑی میں پروکر ایک نئے زاویے کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ زندگی کے زندان سے چُھٹنے پر انسان موت سے ہم کنار ہوتا ہے مگر شاعر نے یہ تصور دیا ہے کہ جب انسان کو زندگی کے حسین و دل فریب زندان سے رہائی دی جاتی ہے تو وہ رہائی پر خوش ہونے کے بجائے زندگی کے زندان سے جدا ہونے کے غم سے مر جاتا ہے! یہی بات یوں بھی کہی گئی ہے ؎
اِتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے ؍ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
زندگی کا ہم پر اوّل و آخر صرف ایک حق ہے ... یہ کہ اِس سے پیار کریں، اِس کے تقاضوں کو سمجھیں، اِس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی کا حق ادا کرنا کیا ہے؟ اپنے لیے بھی آسانیوں کی راہ ہموار کرنا اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا۔ اس سوچ کے ساتھ بسر کی جانے والی زندگی قابلِ رشک ٹھہرتی ہے۔ ہمیں اس طور جینا ہے کہ قدم قدم پر آسانیاں پیدا ہوں۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم سمجھیں تو یہ گلشن ہے، مرغ زار ہے۔ اگر خواہ مخواہ یہ تصور پروان چڑھائیں کہ زندگی کے ہر راستے پر ہمارے لیے صرف خار ہی بکھرے ہوئے ہیں تو پھر یقین کیجیے کہ خار ہی ملیں گے۔
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ مشکلات کا سامنا ہو۔ خواہش بُری نہیں لیکن اگر مشکلات انسان کے اپنے اعمال کی پیدا کردہ ہوں تو؟ دوسروں کی دی ہوئی مشکلات سے بچنا لازم ہے اور اس حوالے سے شکوہ بھی جائز ہے مگر اپنے ہی ہاتھوں پیدا کی جانے والی پریشانی سے نظر چُرانا؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ زندگی کی دل کشی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہم اپنے حصے میں آنے والی ہر مشکل کے تدارک کی خاطر سنجیدہ اور باعمل ہوں۔ مسائل کے حوالے سے کڑھنے اور گِلے شکوے کرتے رہنے سے صلاحیت اور سکت دونوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔زندگی کے بارے میں مثبت سوچ اپنائیے۔ کسی بھی معاملے کا روشن پہلو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ بہت سے بُرے معاملات میں بھی ہمارے لیے کچھ نہ کچھ خیر موجود ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اُس خیر کو دیکھنے والی آنکھ ہمارے پاس ہے یا نہیں۔ (بقولِ اقبالؔ) زندگی قدم قدم پر ہم سے کہتی ہے ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نُور دل کا نُور نہیں
اگر کسی نے طے کرہی لیا ہے کہ زندگی کو زندان سمجھتا رہے گا تب بھی وہ اِس زندان کی خوبصورتی کو نظر انداز نہ کرے۔ زندگی کا حُسن ظاہر کی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا۔ اقبالؔ ہی نے کہا ہے ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
زندگی کو زندان سمجھنا ہے تو کوئی بات نہیں مگر اِس زندان کی خوبصورتی اور دل کشی کو تو نظر انداز مت کیجیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved