انتخابات ہوں تو اُن میں ووٹ دینے کیلئے ہاتھ استعمال کرنا ہوتا ہے مگر جو لوگ ووٹ دینے نہ جائیں وہ (انگریزی محاورہ کے مطابق) پائوں سے ووٹ دیتے ہیں۔ آپ نے ضرورغور فرمایا ہوگا کہ جوں جوں ہمارے ملک میں انتخابات نمائشی اور میکانکی ہوتے گئے‘ پائوں سے ووٹ دینے والوں کی تعداد ہاتھ سے ووٹ دینے والوں سے بڑھتی گئی۔حلقہ این اے 249 کراچی میں یہ حقیقت ایک بار کھل کر سامنے آگئی، لیکن داد دیجئے ہمارے حکمران طبقے کے افراد اورتجزیہ کاروں کو کہ وہ روایتی گل محمد بنے ہوئے ہیں۔ موصوف کی ایک خوبی جس نے اُس کا نام ہمارے ادب میں لکھوایا وہ یہ تھی کہ زمین اپنی جگہ سے ہلے یا نہ ہلے‘ گل محمد اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہٹے گا۔ وہ دیکھ بھی سکتا ہے اور سُن بھی سکتا ہے مگر بدقسمتی سے وہ گونگا ہے اس لئے بول نہیں سکتا ورنہ وہ ہمیں آنے والے خطروں سے ضرور خبردار کرتا مگر ہماری چارج شیٹ یہ کہتی ہے کہ اگر زبان ساتھ نہیں دیتی تو وہ ہاتھ کو جنبش دے کر خطرے کی گھنٹی تو بجا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اُس نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہو‘ سرخ روشنی کا چراغ جلایا ہو‘ ہاتھوں سے اُس قسم کے اشارے کئے ہوں جو ہم ریلوے لائن پر سوئے ہوئے شخص کو جگانے کیلئے اُس صورت میں کریں گے کہ ہمیں تیز رفتار ٹرین اُس کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہو۔
اہم سوال یہ ہے کہ کراچی کی سٹیل مل کے اُس یونٹ کو فعال بنانے اور نئی زندگی بخشنے میں کیا رکاوٹ ہے جو آکسیجن (کورونا دبا کی عروج کے زمانہ میں اُس کی کلیدی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں) کو بڑے پیمانے پر بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کوئٹہ سے اسلام آبادیا لاہور کے سرکاری ملازمین کے مظاہروں میں حصہ لینے والوں کے نعروں سے لے کر لیڈی ہیلتھ ورکروں اور اساتذہ کی فریاد تک۔ مجھے برطانیہ میں اس طرح بڑی اچھی طرح سنائی دیتی ہیں جس طرح کینیڈا میں میرے ساتھی کالم نگار حمید باشانی کو اور نصف صدی پہلے امریکہ میں ڈاکٹر اقبال احمد اور ڈاکٹر فیروز احمد کو اور ان دنوں عادل نجم اور شاہین صہبائی صاحبان کو اور پیچھے جائیں تو میرے مرحوم دوست اور نظریاتی استاد پروفیسر حمزہ علوی کو اور اس سے بھی پیچھے جائیں تو برطانیہ میں بیرسٹر چوہدری رحمت علی۔ یہ بات اہم نہیں کہ آپ کا محل وقوع کیا ہے؟ اہم یہ ہے کہ آپ کی سوچ کیا ہے؟ کیا آپ ہر وقت اپنے ملکی حالات پر لکھتے‘ پڑھتے‘ سوچتے رہتے ہیں یا آپ (موٹی جلد کے خول میں بند ہو کر) آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور کانوں میں روئی ٹھونس کر رہتے ہیں؟ اپنے وطن میں رہائش کے باوجود آپ کو غریب کسانوں سے نہ محنت کش مزدورں سے‘ نہ لیڈی ہیلتھ ورکروں سے‘ نہ اساتذہ سے‘ نہ اُفتادگان خاک سے غر ضیکہ کسی سے بھی کوئی ہمدردی نہیں۔ آپ نے زندہ رہنے کا فن سیکھ لیا ہے کہ مہنگائی ‘ افراطِ زر‘ ناانصافی‘ہر قسم کی زیادتی کے سیلابِ بلانے آپ کو بے حس بنا دیا ہے۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ ہمارے ہاں سیاسی نظام کیلئے جمہوری اسم صفت کا استعمال تہمت کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا آپ کو ابھی تک پتا نہیں چلا کہ ہم نے کئی بار اپنے وزرائے خزانہ (محمد شعیب‘ محبوب الحق‘ حفیظ شیخ اور شوکت ترین) اُن لوگوں کو بنایا جو پارلیمنٹ کے رکن ہی نہیں تھے اور ہر لحاظ سے غیر سیاسی ماہرین ٹیکنو کریٹ تھے اور مالیات کے ذمہ دار وزرا تو ایک طرف رہے ہم نے تو دوبار اپنے وزرائے اعظم بھی امریکہ سے درآمد کیے ہیں۔ پچاس کی دہائی میں امریکہ سے محمد علی بوگرا جو وہاں ہمارے سفیر تھے اور جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیز جو ایک بینک میں پاکستانیوں کی خفیہ رقومات کا حساب کتاب رکھتے تھے اُنہیں بلایا گیا۔ کسی ایک صوبے میں بھی وہ شخص وزیراعلیٰ نہیں جو پہلے صوبائی اسمبلی میں قائد ایوان بنا اور پھر اس عہدے پر فائز ہوا۔ چاروں کے چاروں نامزد کئے گئے۔ ذرا سوچیں کہ بارہ کروڑ (پنجاب) آبادی کے اُس صوبے کی اسمبلی بھی اپنا قائد ایوان اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ نہیں چن سکتی کہ اگر وہ آزاد ملک ہوتا تو دنیا میں پہلے بڑے پچاس ممالک میں ہوتا۔ ایوانِ بالا (Senate) کے اراکین کس طرح چنے گئے؟ اسلام آباد کی نشست سے زیادہ عبرتناک مثال اور کون سی دی جا سکتی ہے؟ قومی اسمبلی کے کتنے قوانین منظور کرتی ہے اور صدرِ مملکت (اپنے اختیارات کا غیر مناسب ) استعمال کرتے ہوئے ہر سال کتنے نادر شاہی فرمان (Ordinances) جاری کرتے ہیں؟ قومی اسمبلی کے اراکین قومی مفادات کے کس حد تک محافظ ہیں؟ کیا وہ سلطانی جمہور کے ترجمان کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟ محنت کشوں کا تو کیا ذکر (جو ہر جمہوری ملک کی پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں) کیا متوسط طبقے کا کوئی فرد پارلیمنٹ کا رکن ہے یا بن سکتا ہے؟ کیا مقامی سطح پر بلدیاتی حکومتیں کام کر رہی ہیں؟ کیا کوئی بھی سیاسی جماعت (ماسوائے جماعت اسلامی) اندرونی طور پر جمہوری ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟ کیا سیاسی جماعتیں فرد ِواحد کی جاگیر نہیں جو اس کے بعد اس کی اولاد کو (جائیداد کی طرح) ورثہ میں ملتی ہیں؟
کروڑوں اربوں کے اخراجات سے گورنر رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیا ہمارے آئین 1935 ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا چربہ نہیں جو ہندوستان پر برطانوی راج کی گرفت مضبوط کرنے کیلئے بنایا گیا تھا؟ کیا امنِ عامہ (دراصل حکومت ِوقت) کی حفاظت کیلئے بنائے گئے MPO جیسے قوانین (وہ بھی براستہ آرڈیننس) انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی نہیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملزم کو مقدمہ چلائے بغیر سالہا سال جیل میں رکھا جائے؟ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ عوامی نمائندوں کی نالائقی یا کرپشن (یا اکثر دونوں) سرکاری افسروں کو بالا دست بنا دیتی ہے؟ کیا ہم اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن‘ ق‘ ف) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی ناکامیوں اور عوامی تائید سے بتدریج محرومی کے بعد جو خلا پیدا ہوا وہ پُر کرنے کیلئے کچھ دیگر جماعتیں جدوجہد کر رہی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں اقتدار سنبھال لیں۔ حالیہ انتخابات میں حوصلہ افزا نتائج کے بعد انگریز تمثیل نگار شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے Hamlet میں لکھا تھا: Every Thing is Rotten in the State of Denmark ۔ کیا اس قول کا اطلاق ہمارے سیاسی اور معاشی نظام پر نہیں ہوتا؟ اگر جواب اثبات میں ہے پھر دوسرا اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم اس بے حد تشویشناک صورتحال کا علاج کرنے میں کن دوائیوں اور کس عملِ جراحی پر غور کر رہے ہیں؟
قومی مسائل کے حل کیلئے قومی اتفاقِ رائے کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے؟ کیا ہم آنکھیں اس وقت کھولیں گے جب شہر کو سیلاب بہا کر لے جا چکا ہوگا؟ دس مجوزہ اقدامات اندھیرے کو روشنی‘ خزاں کو بہار‘ مایوسی کو یقینِ محکم میں تبدیل کر سکتے ہیں، بقول اقبال بھٹکے ہوئے راہی کو پھر سوئے حرم لے جا سکتے ہیں او روہ ہیں (1): مقامی حکومتوں کا فعال‘ جاندار‘ زندہ و تابندہ نظام۔ (2): پارلیمانی نظام کی از سر نو تشکیل۔ (3): حلقہ بندیوں کی بجائے متناسب نمائندگی۔ (4): یونیورسٹیوں کو ایسے اداروں کی شکل دی جائے جن کی بدولت جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے نمو ہو سکے۔ (5): عوام دوست اور جلد انصاف دینے والا عدالتی نظام۔ (6): زرعی اور صنعتی شعبہ میں انقلابی اصلاحات ۔(7): کم تنخواہوں والے سرکاری ملازمین کی جائز شکایات کے خاتمے کیلئے بااختیار کمیشن ۔(8): ایسا کوئی بجٹ نہ بنایا جائے جس میں ایک روپے کا بھی خسارہ ہو۔ (9): ہمارے اوپر ایک ڈالر یا ایک پائونڈ کا بھی قرض نہ ہو (ان دنوں ہزاروں ارب روپے کا ہے)۔ (10): احتساب اور شفاف حکومت کی ضمانت دینے والا نیا عمرانی معاہدہ۔
کالم نگار نے اپنے ملک کو پہلے بنتے دیکھا اور پھر بگڑتے دیکھتا اور اب اس اُمید پر زندہ ہے کہ وہ اسے سنورتے دیکھے گا۔