تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     15-06-2021

بجٹ سے زیادہ امید مت لگائیں!

دن کے مقدر میں چاند ہے نہ چاندنی۔ چاند کو دیکھنا ہو تو رات کا انتظار کرناپڑتا ہے اور پھر رات جتنی کالی ہوتی ہے چاند اتنا ہی چمکدار اورحسین لگتا ہے۔ وفاقی حکومت کے بجٹ کا بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے معیشت کے حالات دگرگوں تھے‘ ہرشعبہ زوال کا شکار تھا‘ مہنگائی، بیروزگاری اور کاروبارکی خستہ حالی نے عوام کی چیخیں نکال دی تھیں‘ اب معاشی حالات میں قدرے بہتری آئی ہے تو حکومت شادیانے بجارہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تنقید کرنے والے اب داد بھی دیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا معیشت حقیقت میں بہتر ہوئی ہے یااعدادوشمار کا ہیر پھیر کام دکھارہا ہے ؟ کیا صرف وزیرخزانہ کی تبدیلی سے معیشت کے دن بدلے ہیں یا وجہ کچھ اور بھی ہے ؟ اور سب سے بڑھ کر وفاقی بجٹ کو متوازن اور عوام کا ترجمان بجٹ کیوں کہا جارہاہے ؟ کیا ایک بار پھر حکومت عوام کواطمینان کی میٹھی گولی تو نہیں کھلا رہی ؟
وزیرخزانہ شوکت ترین کا پیش کردہ بجٹ عوامی سے زیادہ کاروباری اور کاروباری سے زیادہ سیاسی محسوس ہوتا ہے۔ یہ بجٹ ''اسحاق ڈار فارمولے‘‘ پرتیار کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے اہداف متعین کیے گئے ہیں اور ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے بڑے بڑے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب بھی ایساہی کیاکرتے تھے‘ بڑے اہداف رکھ کر بجٹ بناتے اور پھر آخر میں قرضہ لے کر اخراجات پورے کرتے۔ معاشی گروتھ جتنی نظر آتی تھی اتنے ہی قرضے اوپر سے اوپر چلے جاتے تھے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ شوکت ترین صاحب ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا موجودہ حکومت کی نظر آئندہ الیکشن پر تو نہیں؟ یہ بجٹ بظاہر جتنا اچھا لگ رہاہے اس کی تکمیل اتنی ہی دشوار اورجان لیوا نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ کی بنیادیں غیر حقیقی اور غیر مستحکم تخمینوں پر کھڑی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت توقعات کی ناؤ پر بیٹھ کر معیشت کا سمندر پارکرجائے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو سکے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال میں ساری امیدیں ترسیلاتِ زر، برآمدات اور ٹیکسز کی وصولی سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ حکومت توقع کررہی ہے کہ ترسیلاتِ زر 26ارب ڈالر سے بڑھ کر 31 ارب ڈالر ہوجائیں گی۔ کیاحکومت بتانا پسندکرے گی کہ پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیسے ہوگا؟ موجودہ مالی سال میں ترسیلاتِ زر میں اضافے کی بڑی وجہ کورونا وائر س ہے‘ معلوم نہیں اگلے سال کورونا کی صورتحال کیا ہو اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی آئندہ مالی سال اتنے زیادہ پیسے بھیجیں گے یا نہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ یہی صورتِ حال برآمدات کی ہے۔ دنیا بھرمیں لاک ڈاؤن کے باعث اس سال ہمیں آرڈرززیادہ ملے مگر کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ آئندہ مالی سال میں بھی ہمیں پہلے سے زیادہ آرڈرز ملیں گے۔ رہی بات ٹیکسز کی‘ تو حکومت توقع کررہی ہے کہ ٹیکسز4600 ارب روپے سے بڑھ کر 5829 ارب روپے ہوجائیں گے۔ کیا حکومت بتائے گی کہ ٹیکسوں میں بارہ سو ارب روپے کا یہ اضافہ کیسے ممکن ہوگا ؟ اور اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو کیامالیاتی خسارہ گزشتہ دورِ حکومت کی طرح مزید قرضہ لے کر پورا کیا جائے گا؟ دوسری طرف حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پانچ لاکھ دکانوں پر مشینیں نصب کرنے جارہی ہے تاکہ ان سے بھی ٹیکس وصول کیا جاسکے۔ حکومت بڑی دکانوں پر تو مشینیں لگالے گی مگر ان پچیس لاکھ دکانوں کا کیا ہوگا جو ملک کے بڑے بڑے بازاروں میں موجود ہیں۔ انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر آمدن میں اضافہ نہایت مشکل ہے۔ حکومت کو سارے تاجروں کے لیے ایک پالیسی بنانا ہوگی ورنہ یہ لوگ پہلے ٹیکس دیتے تھے نہ اب دیں گے۔
ایک لمحے کومان لیتے ہیں کہ حکومت اپنے اہداف حاصل کرلے گی مگر آپ خود فیصلہ کریں، آپ ایسے گھرمیں کب تک رہ سکتے ہیں جہاں ویسے تو دنیا کی ہر آسائش موجود ہومگرآپ اسے استعمال نہ کرسکتے ہوں۔ بیڈروم سیون سٹار ہوٹل کے کمرے سے بھی زیادہ پُرآسائش ہومگر آپ وہاں سو نہ سکتے ہوں۔ گھر میں مہنگے سے مہنگے صوفے موجود ہوں مگر آپ کو ان پر بیٹھنے کی اجازت نہ ہو۔ کچن میں دیسی، چائنیز، لبنانی اور تھائی فوڈز دستیاب ہوں مگر آپ کے پاس اسے کھانے کا اختیار نہ ہو۔ ایسے گھر کی خوبصورتی اور جاذبیت کا اس شخص کو کیا فائدہ جو وہاں رہتا ہے ؟کیا صرف گھر کی ظاہری کشش اسے وہاں زیادہ دیر تک رہنے پر مجبور کرسکتی ہے ؟ وفاقی بجٹ بظاہر بہت اچھا ہے، اس کا حجم بڑھا ہے، شرحِ نمو اورٹیکسز پہلے سے زیادہ متوقع ہیں، مالیاتی خسارہ بھی کم ہوتا نظر آرہاہے، برآمدات، ترسیلاتِ زر اور زرِ مبادلہ کے ذخائربھی بڑھنے کی امیدظاہر کی گئی ہے مگر کیا اس بجٹ سے عام آدمی کی زندگی بھی بہتر ہوگی ؟ کیا مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی ؟ کیا روزمرہ کے استعمال کی اشیاء مثلاً آٹا، چینی، گھی، دالیں، گوشت، دودھ اورپیڑول کی قیمتیں کم ہوں گی؟ بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی واقع ہو گی ؟ اگر سرِ دست ایساممکن نہیں اور مہنگائی کا جن ایسے ہی بے قابورہنا ہے تو مڈل کلاس کا کیا بنے گا ؟ کیا کسی نے اس بارے سوچا ہے ؟
تحریک انصاف کی معیشت کے دو اہم پہلو ہیں۔ اول‘ بڑی صنعتوں، سٹاک مارکیٹ اور تعمیراتی شعبے کو مراعات دینا۔ دوم‘ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا خیال رکھنا۔ جب بھی نئی سکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں یا سبسڈی دی جاتی ہے تو بڑی صنعتوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ رہی بات انتہائی غریب لوگوں کی توان کا کہیں احساس پروگرام کے ذریعے خیال رکھا جارہا ہے تو کہیں ان کے لیے نئی نئی پناہ گاہیں اور لنگر خانے کھولے جارہے ہیں۔ ان دونوں طبقات کی موجودہ دورِحکومت میں چاندی ہوگئی ہے مگر مڈل کلاس کی مشکلات حکمرانوں کو دکھائی نہیں دے رہیں۔ مڈل کلاس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لنگر خانے جاسکتے ہیں اور نہ پناہ گاہوں میں جا کر سو سکتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کے شیئرزخرید سکتے ہیں اور نہ کارخانے لگا سکتے ہیں۔ انہیں تنخواہ پر گزارہ کرنا ہوتاہے یا چھوٹے کاروبار کے ذریعے زندگی کا پہیہ رواں رکھنا ہوتا ہے مگر اس وقت مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ مڈل کلاس کی سفید پوشی کا بھرم ختم ہوتا جارہاہے۔ ستم در ستم یہ کہ حکومت کو لگتا ہے کہ دس فیصد تنخواہ اور پنشن بڑھانے سے افراطِ زر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کیاحکومت کو نہیں معلوم کہ تین سالوں میں مہنگائی سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے اور صرف تنخواہ میں دس فیصد اضافے سے یہ گیپ پورانہیں ہوسکتا۔ حکومت نے بجٹ میں نان ٹیکس آمدن کی مد میں 2080 ارب روپے رکھے ہیں جس میں سے 610 ارب روپے پیڑولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ اگر حکومت نے یہ ٹیکس وصول کیاتو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں پندرہ سے بیس روپے اضافہ کرنا پڑے گا جس کا یقینی نتیجہ یہ نکلے گا کہ بجلی مزید مہنگی ہو گی اور فوڈ انفلیشن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو گا۔ یہی نہیں، حکومت نے بجٹ میں بنیادی ضرورت کی تیس سے زائد اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی ہے جس کے بعد فروزن گوشت، انڈے، گھی، دودھ، دہی اور پنیر سمیت درجنوں کھانے پینے کی اشیا مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ چینی اور ڈیری سیکٹر میں بھی اضافی ٹیکس لگایا جا رہا ہے جس سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ اس کے علاوہ لگ بھگ چار سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگنے سے بھی حکومت عام آدمی کی جیب سے اربوں بٹورے گی۔
بجٹ دستاویز کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال میں 17.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لینے جارہی ہے۔ آج تک کسی بھی حکومت نے ایک سال میں اتنا زیادہ قرضہ نہیں لیا۔ کیا حکومت یہ قرضہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تو نہیں لے رہی؟ اگر موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ہی معیشت کو لے کر چلناتھا تو ریفارمز کے دعوے کیوں کیے گئے تھے؟ موجودہ مالی سال میں بھی معاشی گروتھ مخصوص طبقے کے لیے تھی اور اس کا اثر عام آدمی تک نہیں پہنچا تھا۔ اگر آئندہ مالی سال میں بھی معاشی ترقی کا فائدہ محض بڑے لوگوں کو ہی ہوناہے تو اس بجٹ کو ہم عوامی بجٹ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved