افغانوں کی قسمت ایک بار پھر تغیرپذیر عوامل کی ٹھوکر سے ناقابل یقین تبدیلیوں سے ہم آغوش ہونے والی ہے؛ تاہم یہ پالیسی ٹرن کچھ ایسے سوالات کو جنم ضرور دے گا جو وہاں کے جمود پرور معاشرے کے ذہنی ارتقا کا زینہ بن سکتے ہیں۔ اس وقت افغان شہریوں کی سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران عالمی طاقتوں نے وہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے جال بچھا کر افغانستان کے شہری تمدن کو جس قسم کی سماجی سہولتوں سے روشناس کرایا‘ کیا طالبان ان کے موجودہ معیارِ زندگی کو برقرار رکھ پائیں گے؟ ریاستی امور چلانے کا جدید خطوط پہ کھڑا انتظامی ڈھانچہ، ملک کے طول وعرض میں پھیلے نقل و حمل کے جدید وسائل اور رسل و رسائل کا فعال انفراسٹرکچر، کابل، قندھار اور جلال آباد کی جدید یونیورسٹیز، انگلش میڈیم سکولز اورکالجز کے علاوہ ہسپتالوں کا وہ نظام جس میں خواتین کی قابلِ ذکر تعداد کارفرما نظر آتی ہے‘ کیا طالبان حکومت کا تصور ان سب کو اپنے تخیل میں سمو سکے گا؟اسی طرح آبپاشی کے جدیدترین وسائل، ریلوے سسٹم اور ہوائی سروس کا مضبوط ڈھانچہ، جسے بحال رکھنے کے لئے غیرمعمولی مالی وسائل اور مناسب تعداد میں ماہر عملے کی ضرورت پڑے گی، اسے کون ریگولیٹ کرے گا؟ دوسری جانب امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی شدت کے ساتھ اس سوال پر غور کر رہی ہے کہ کیا فوجی کے انخلا کے بعد افغانستان کے بڑے شہروں کو طالبان کی یلغار سے بچانے کیلئے افغان فورسز کو فضائی مدد دی جا سکتی ہے؟ کیا کابل سمیت بڑے شہروں کا قبضہ روکنے کیلئے صدر جوبائیڈن فوجی انخلا کے طے شدہ منصوبے میں کسی ردو بدل پہ آمادہ ہو جائیں گے؟ پھر ایسی اضافی کارروائیوں کو تادیر بحال رکھنا اور افغان گورنمنٹ کو لمبے عرصہ تک بچانا کیونکر ممکن ہو پائے گا؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر بائیڈن اور قومی سلامتی کے مشیروں نے پہلے تہیہ کیا تھاکہ فوجی انخلا کے ساتھ ہی فضائی مدد روک دی جائے گی لیکن اب وہ اس لئے اپنے فیصلے پر نظرثانی پر آمادہ ہیں کہ اگر سرعت پذیر فوجی پسپائی نے قومی سلامتی کیلئے مضمرات پیدا کیے تو ردعمل کیسے دیا جائے گا؟ اگرچہ امریکی حکام تاحال کسی نتیجے تک نہیں پہنچے لیکن اس ضمن میں یہ آپشن زیر غور ضرور ہے کہ امریکی جنگی طیارے یا مسلح ڈرون دارالحکومت کابل کے ممکنہ محاصرے کی صورت میں امریکا سے منسلک سفارت خانوں اور شہریوں کو لاحق خطرات سے بچانے کیلئے حرکت میں لائے جا سکتے ہیں؛ تاہم پنٹاگون کے کئی اہم عہدیداروں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس طرح کی فضائی مدد طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ امریکا اگلے ماہ افغانستان کے تمام فضائی اڈے چھوڑ دے گا؛ چنانچہ ایسی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ممکنہ طور پر خلیج فارس کے ٹھکانوں سے فضائی حملے کرنا پڑیں گے، جس کیلئے صدر بائیڈن کی پیشگی منظوری درکار ہو گی۔
بلاشبہ ستمبر کے پہلے عشرے تک غیر ملکی فوجیں نکل جانے کے بعد کابل کا ممکنہ سقوط ایسا بحران ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا؛ تاہم ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے امریکا سے زیادہ پڑوسی ممالک کو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں طالبان فورسز نے ملک کے ہر گوشے میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی، اس لئے واشنگٹن میں طالبان کے غلبے کو روکنے اور کابل سمیت پورے ملک پہ کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے افغان گورنمنٹ کی فوجی اہلیت بارے تشویش پائی جاتی ہے لیکن فوجی انخلا کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کو ہوائی مدد دینا نئی افغان پالیسی بارے بہت سے سوالات پیدا کر دے گی۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے مبینہ انسدادی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے القاعدہ اور دیگر عسکریت پسندوں کی افغانستان میں نئی صف بندی روکنے اور مغربی کنٹریکٹرز کو افغان فوج کی مدد جاری رکھنے کی اجازت کیسے دے گا؟ چنانچہ اس وقت سی آئی اے ملک میں انٹیلی جنس کو اکٹھا کرنے اور دہشت گردی کے خلاف انسدادی مشن کی خاطر نئے طریقے تلاش کرنے کیلئے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ سینئر امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ بالآخر افغان افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا‘ خاص طور پر اگرکمانڈوز اور فضائیہ کے دستے بکھرگئے تو صورتِ حال یکسر بدل جائے گی۔ حکام کا کہنا ہے، اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ امریکا اُن علاقوں میں افغان فورسز کو اضافی فضائی مدد دے سکے جن میں سے بیشتر پہلے ہی طالبان کے زیرِ کنٹرول ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ جب صدر بائیڈن نے اپریل میں انخلا کا اعلان کیا تو انہوں نے افغان حکومت بشمول سکیورٹی فورسز کی حمایت کا وعدہ کیا تھا؛ تاہم یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ہمارا سفارتی اور دوستانہ تعاون تو جاری رہے گا لیکن فوجوں کے انخلا کے بعد افغان فورسز کو ملکی دفاع کا فریضہ خود سرانجام دینا پڑے گا۔ گزشتہ دنوں سینیٹ کی سماعت میں پوچھے گئے ایک سوال پر سیکرٹری دفاع جے آسٹن نے افغانستان میں آئندہ کسی بھی جنگی کارروائی پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ مسٹر آسٹن نے کہا: امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے دوران ہم اب تک تو افغان سکیورٹی فورسز کو کچھ فضائی مدد دے رہے ہیں لیکن انخلا کے بعد انہیں مزید مدد دینا بہت مشکل ہوگا کیونکہ امریکی جنگی طیارے اور مسلح ڈرون ملک سے باہر ہوں گے۔ بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی پالیسی میں کچھ تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ افغانستان میں ممکنہ انتشار کا حقیقی محرک کون ہو سکتا ہے جسے فضائی حملوں میں ہدف بنایا جا سکے۔
یہ بحث عراق میں داعش کے عروج سے حاصل کردہ اسباق کی عکاسی کرتی ہے، جس نے 2014 میں اوباما انتظامیہ کو عراق کے شہروں کے دفاع کیلئے فوج اور فضائی کور واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ اس وقت کابل کا سقوط صاف نظر آرہا ہے، افغان کمانڈرز کہتے ہیں، انہیں امریکی ہم منصبوں نے بتایا تھا کہ امریکا بڑے شہروں پر قبضہ روکنے کیلئے فضائی قوت استعمال کرے گا، بالخصوص نگرانی کرنے والے ڈرونز افغان فضائیہ کیلئے اہداف کی نشاندہی کرتے رہیں گے؛ تاہم غیر ملکی ٹھیکیداروں کے انخلا کے بعد افغان پائلٹوں اور ہوائی جہازوں کو بحالی کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جس سے ان کی قوتِ مدافعت بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ گزشتہ ماہ ایوان میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کی کمیٹیوں میں صدر جوبائیڈن پر فوجی انخلا کے بعد افغان حکومت کو مدد فراہم کرنے کی اپیل کی گئی، جس میں نگرانی کیلئے جاسوس طیاروں کے ذریعے طالبان کے حملوں کی پیشگی معلومات کی فراہمی کی سفارشات بھی شامل تھیں۔ امریکی جرنیلوں نے اعتراف کیا کہ مغربی افواج کی دستبرداری کے بعد افغان سکیورٹی فورسز ایک یا دو سال میں یا چند مہینوں میں ہی شکست کھا سکتی ہیں۔ جنرل مارک ملی نے گزشتہ ماہ اپنے ہمراہ سفر کرنے والے صحافیوں کو افغان افواج کی اہلیت بارے حیرت انگیز معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سالہ جنگ میں ہزاروں ہلاکتوں پر محیط تجربات اور افغان فوج اور پولیس کی تربیت پر بھاری رقوم خرچ کرکے ان کی استعدادِ کار میں معقول حد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا افغان افواج ملک کو سنبھال لے گی تو جنرل ملی نے کہا: میرے خیال میں یہاں بہت سے منظرنامے ہیں، نتائج کی طویل حدود اور امکانات کی وسیع دنیا موجود ہے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ پنٹاگون کی نیوز کانفرنس میں جب سوال پوچھا گیا کہ فوجی انخلا کے بعد طالبان کی طرف سے بڑے شہروں پر قبضے کا خطرہ موجود ہے؟ تو مسٹر آسٹن نے جواب دیا:کیا امریکہ محض مفروضوں پر فضائی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کر لے گا؟
اس پوری صورتِ حال سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکی مقتدرہ افغانستان پر طالبان کے غلبے کواس امید سے دیکھتی ہے کہ میدانِ جنگ میں ناقابلِ تسخیر رہنے والے طالبان کو اقتدار کی گراں بار ذمہ داریاں ٹرانسفارم یعنی تبدیل کر دیں گی۔ بلاشبہ اب کی بار طالبان کو ایک بدلا ہوا افغانستان ملے گا جس کے عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں کے خوگر اور سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی سماج کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے۔