زندگی کے اصول بھی منفرد ہیں۔ جینا ہے تو اپنے بل پر، مرنا ہے تو اپنے بوتے پر۔ کوئی کچھ بھی کہے اور کچھ بھی کرتا پھرے، حتمی تجزیے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود ہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کا یہی ایک طور ہے جو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فرد ہو یا معاشرہ، کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔ ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے کون سے جتن نہیں کیے کہ کسی کے ہوجائیں مگر وائے ناکامی کہ کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ خواجہ میر دردؔ نے خوب کہا ہے ؎
وائے ناکامی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
ہم نے کسی کا ہو جانے سے متعلق جو بھی خواب دیکھا اُس کی بھیانک تعبیر جھیلنا پڑی۔ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں حقیقت یہ ہے کہ کسی کے ہو رہنے میں جو لطف ہے اُس سے کہیں زیادہ لطف اپنے وجود کے لیے سنجیدہ ہو جانے میں ہے۔ یہ نکتہ کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے کہ ع
اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں
بات فرد کی ہو یا معاشرے کی، گھوم پھر کر اپنی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ گھٹنے پیٹ ہی کو آتے ہیں۔ فرد اور معاشرے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہر معاملہ گھوم پھر کر اپنی طرف ہی واپس آتا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ وہی افراد اور معاشرے کامیاب رہے ہیں جنہوں نے ہر بات کو اپنے تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک قوم، ریاست اور معاشرے کی حیثیت سے پاکستانیوں نے اپنے سوا سب کا ہونے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہم نے اِتنے بلنڈرز کیے ہیں کہ اب تو اُن کی گنتی بھی یاد نہیں ؎
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سُناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا بتاؤں
ملک کے قیام کے فوراً بعد سے ہم نے کسی نہ کسی درِ دولت سے وابستہ ہونے کی سعی شروع کردی۔ اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنے کے بجائے دوسروں سے یہ آس لگائی گئی کہ کسی نہ کسی طور وہ ہمارے معاملات کو درست کرنے میں معاونت کریں۔ کبھی اِس در کو کھٹکھٹایا گیا، کبھی اُس در کو۔ یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ کوئی نہ کوئی بڑا ملک ہمارا رہنما اور دست گیر ثابت ہو رہے گا۔ یہ بلا جواز امید بھی وابستہ کرلی گئی تھی کہ دوسروں نے عشروں بلکہ صدیوں کی محنت کے ذریعے جو بھرپور کامیابی، ترقی اور خوش حالی ممکن بنائی ہے اُس میں سے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیں گے۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ آخر کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ایسا کیوں کرنے لگا۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمارے مسائل حل کرتا پھرے؟ دنیا کا ایک اصول تو روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ جس کسی بھی قوم یا معاشرے نے ترقی کی ہے، اپنے بل پر کی ہے۔ کوئی رہنمائی کرسکتا ہے، تھوڑی بہت مدد بھی کرسکتا ہے، حوصلہ بڑھا سکتا ہے مگر حتمی تجزیے میں تو سب کچھ خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، یہ اصول تبدیل ہوا ہے نہ ہوگا۔ کوئی کچھ بھی سوچے اور کچھ بھی کرے، دنیا اِسی اصول کے تحت چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی۔
انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ خواہش بلا جواز طور پر بھی پائی جاتی رہی ہے کہ کوئی اپنالے، اپنا ہوجائے، تمام مسائل کو اپنا سمجھ کر اُنہیں حل کرنے میں مدد دے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ایسا کیوں کرے؟ کسی بھی فرد یا معاشرے کی چند ترجیحات ہوتی ہیں۔ ترجیحات ہی کی بنیاد پر پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی حکمتِ عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ ہر فرد، معاشرے یا قوم کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ حقیقت سے نظریں چُراتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اور اِس کا نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم جو کچھ کرتے آئے ہیں وہ ہماری انفرادی سوچ کا بھی مظہر ہے۔ ہمارے معاشرے میں انفرادی معاملات ہمیشہ بے ترتیب رہے ہیں۔ لوگ منتشر خیالات کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ نظم و ضبط کو اہمیت دینے کا چلن اب تک عام نہیں ہوسکا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ریاستی سطح پر بھی اس حوالے سے کوئی بھرپور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو اس معاملے سے خاص دلچسپی کبھی نہیں رہی۔ حکمراں طبقے کی اپنی ترجیحات ہیں اور وہ اُن ترجیحات کے مطابق اہداف کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ ایسے میں کون ہے جو قوم کا سوچے؟ قوم کو خود ہی اپنے لیے کچھ سوچنا ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں سب کچھ مفادات کے تابع ہے۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی، سب کچھ مفادات کو سامنے رکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ معاملات کی خرابی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی غیر ضروری طور پر اور کسی جواز کے بغیر سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں سے مدد کی توقع رکھے۔ مدد مل تو سکتی ہے مگر ایک خاص حد تک اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھا جانا چاہیے کہ مدد کے بل پر ترقی تو خیر کیا یقینی بنائی جائے گی، ڈھنگ سے جینا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ کوئی بھی کسی کی مدد ایک خاص حد تک اور ایک خاص تناظر میں کرتا ہے۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ مسابقت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب اگر کسی سے کوئی معمولی سی بھی لغزش سرزد ہوتی ہے تو اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کی طرح اب معاملات راتوں رات غیر معمولی اثرات و نتائج کی راہ ہموار کر بیٹھتے ہیں۔ زندگی کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتے ہوئے زندگی بسر کریں، اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جئیں اور کسی پر غیر ضروری اعتماد کرنے کے بجائے اپنے وجود پر ایسا بھروسا رکھیں کہ دنیا رشک کی نظر سے دیکھے۔ کوئی بھی ہمارا کیوں ہو؟ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے سے بہت زیادہ امیدیں کیوں وابستہ کی جائیں؟ سب نے اپنی صلاحیت و سکت کے ذریعے اور منصوبہ سازی کی مدد سے ترقی کی ہے، اپنی خوش حالی یقینی بنائی ہے۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام راتوں رات خوش حالی سے ہم کنار نہیں ہوگئیں۔ بیشتر ترقی یافتہ اقوام نے صدیوں کی محنت کے نتیجے میں کچھ پھل پایا ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ کوئی اپنی صدیوں کی محنت کے ثمرات میں سے ہمیں کچھ بھی کیوں دے گا۔ جواز ہو تو کچھ امید وابستہ بھی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان اگر کسی بڑے ملک کے لیے کچھ کرسکتا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ بدلے میں اُسے کچھ نہ کچھ ملے گا۔ اس کی بھی بہرحال ایک حد ہے۔ ہر طاقتور ملک معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق طے کرتا ہے۔ دنیا کی یہی رِیت ہے۔
پاکستان غیر معمولی محلِ وقوع کا حامل ہے۔ یہ محلِ وقوع اُسے کئی بڑی طاقتوں کے لیے پُرکشش بناتا ہے۔ یہ چاہے تو اپنے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ کئی ممالک نے ایسا کیا ہے مگر اس کی بھی ایک حد ہے۔ وقت اور حالات کی نزاکت کے مطابق بہت کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ محض محلِ وقوع یا وسائل کی بنیاد پر کوئی بھی ملک حقیقی معنوں میں ترقی سے ہم کنار نہیں ہوسکا۔ بہت کچھ سیکھنا بھی پڑتا ہے۔ باصلاحیت افراد کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے مؤثر ورک فورس تیار کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ کوئی ہمارا ہو اور ہمارے مسائل حل کرے‘ اِس سے کہیں بہتر اور معقول یہ ہے کہ ہم خود اپنے مسائل کو سمجھیں، اپنے وسائل کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی کوشش کریں اور دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم میں بھی بہت کچھ ہے جو باقی دنیا کے لیے اہم ہے۔ اس کے لیے سنجیدگی بنیادی شرط ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے وجود سے مثالی محبت بھی لازم ہے۔ اپنائے جانے کے منتظر رہنے پر اپنے وجود کو ٹوٹ کر چاہنے کو ترجیح دی جائے تو بات بن سکتی ہے۔