تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     16-06-2021

صحرائے تھل منکیرہ اور ہم …(2)

صحرا میں دور دور تک اندھیرے کا سمندر تھا اور ہماری گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی تھی۔ مغل صاحب اور ملک صاحب گاڑی سے باہر نکل چکے تھے۔ ہمارے پیچھے آنے والی گاڑی بھی رُک گئی تھی۔ باہر مکمل تاریکی میں موبائل کی لائٹس نظر آرہی تھیں۔ میں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر اُترا تو صورتحال سمجھ آئی۔ ہماری گاڑی ایک ایسی جگہ پھنس چکی تھی جہاں ریت باریک اور گہری تھی۔ گاڑی کے ٹائر اس میں دھنس چکے تھے۔ ہم سب اردگرد کی جھاڑیوں سے ٹہنیاں لاکر ٹائر کے سامنے ریت پر رکھ رہے تھے‘ لیکن تمام تر کوشش کے باوجودگاڑی آگے نہ بڑھ سکی تھی۔ دوردور تک آبادی کے آثار نہیں تھے اور صبح ہونے میں بہت دیر تھی۔ مغل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ''آپ نے گھبرانا نہیں‘‘۔ یہ سُن کر تو میں واقعی گھبرا گیا۔ آخر ملک صاحب کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا۔ ان کی ہدایت پر سب گاڑی کو پیچھے کی طرف دھکا لگانے لگے۔ یہ حربہ کارگر ثابت ہوا۔ گاڑی گہری باریک ریت کے گرداب سے نکل آئی۔ اب ہم نے ایک متبادل راستہ اختیار کیا اور واپس ڈیرے پر بحفاظت پہنچ گئے۔ رات کو ایک آدھ بار بجلی گئی لیکن ہماری تکان ہمیں تھپکیاں دے کر سُلاتی رہی۔ رات کو مُغل صاحب نے بتایا کہ اگلے روز صبح علی الصبح وہ ایک دوست کی زمین پر جائیں گے‘ جو یہاں سے تیس پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میری آنکھ کُھلی تو مغل صاحب جا چکے تھے۔ میں کمرے سے نکل کر برآمدے میں آگیا‘ اور پھر بکائن کے درختوں کی گھنی چھاؤں میں ایک موڑھے پر آکر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں ماجد آگیا۔ کہنے لگا: چائے لے آؤں؟ میں نے کہا: فی الحال نہیں، ابھی تو لسّی لے آؤ۔ ماجد کی تیارکردہ لسّی میں ایک خاص ذائقہ ہے جو مجھے کہیں اور کہیں نہیں ملا۔ لسّی کے دو فرحت بخش گلاس پینے کے بعد جسم میں تازگی کا احساس ہوا۔ اب میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ سفید بطخوں کی ایک ٹولی قیں قیں کی آوازیں نکالتی ایک طرف کو جا رہی تھی۔ خوب صورت رنگوں والا مور چہل قدمی کر رہا تھا۔ ذرا آگے گیا تو کبوتروں کی کابک نظر آئی۔ یہ آسمانوں کی بلندیوں پر پرواز کرنے والے کبوتر تھے‘ اور مسلسل کئی گھنٹوں تک پرواز کر سکتے ہیں۔ اس سے آگے مرغیوں کا گھر تھا۔ میں نجانے کتنی دیر یونہی گھومتا رہا۔
پھر اچانک یاد آیا‘ ساہی صاحب نے آج اپنے ڈیرے پر ایک لسّی سیشن رکھا تھا۔ ملک صاحب اور میں ساہی صاحب کے ڈیرے پر پہنچے تو وہاں پہلے سے ہی کچھ دوست موجود تھے۔ ساہی صاحب نے خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا۔ دیوار سے لگی میز پر مینگو لسّی، نمکین لسّی اور میٹھی لسّی کے جگ رکھے تھے اور چیمہ صاحب ساقی گری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ آج ساہی صاحب نے کچھ نئے مہمانوں کا تعارف کرایا جن میں سے ایک اس علاقے کے پٹواری صاحب تھے۔ گاؤں اور قصبوں کی زندگی میں پٹواری کا اہم کردار ہوتا ہے جو زمینوں کی پیمائش سے لے کر ان کی فرد اور ٹرانسفر تک میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پنجاب کی ضرب الامثال میں پٹواری کا ذکر ایک انتہائی توانا اور با اختیار کردار کے طور پر آتا ہے۔ مثلاً ''اُتے رب باری تے تھلے پٹواری‘‘ یعنی اوپر خدا کی ذات ہے اور نیچے پٹواری۔ اسی طرح پنجاب کے لوک گیتوں میں بھی پٹواری کا ذکر دلچسپ انداز میں ملتا ہے۔ ایک پنجابی ماہیا ملاحظہ کریں۔
''کوٹھے اُتوں اُڈ کانواں...سد پٹواری آں جند تیرے ناں لاواں‘‘
''اے کاگا تو چھت سے اُڑ جا‘ میں پٹواری بُلا کر اپنے دِل کی سرزمین اپنے محبوب کے نام کرنا چاہتی ہوں‘‘
اسی محفل میں منکیرہ کے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر عمران سے بھی ملاقات ہوئی جو تقریباً دس مہینے اس علاقے میں تعینات ہوا تو یہاں کی طرزِ زندگی کا معترف ہو گیا۔ میں نے پوچھا کہ یہاں جرائم کی شرح کیا ہے تو عمران نے مسکراتے ہوئے کہا: یہ ایک کرائم فری علاقہ ہے‘ لوگ باہمی طور پر مِل جُل کر رہتے ہیں‘ اگر کوئی اختلاف بھی ہو تو برادری کے بڑے بیٹھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر سب بڑوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔
باہر سورج آگ برسا رہا تھا اور کمرے کے اندر ایئرکنڈیشنرکی ٹھنڈی ہوا اور لسّی کی تاثیر فرحت دے رہی تھی۔ تقریباً دوپہر تک یہ محفل جاری رہی۔ چیمہ صاحب علاقے کے نئے تحصیلدار سے گلہ کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک سال پہلے زمین کی پیمائش کی درخواست دی تھی لیکن بار بار کی یاددہانی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ محفل میں شامل علاقے کے نئے تحصیلدار کا کہنا تھا کہ میں تو تین مہینے پہلے اس علاقے میں تعینات ہوا ہوں‘ جلد ہی آپ کی درخواست کو دیکھوں گا۔ چیمہ صاحب اس طرح کے وعدے پہلے بھی سُن چکے تھے۔ وہ جانتے تھے یہ وعدے ایک سراب کی ماند ہیں۔ وہ برطانیہ کے شہری تھے اور حیران ہوتے تھے ایک عام اور جائز کام کے لیے شہریوں کو کیوں اتنا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اب دوپہر ہورہی تھی۔ ہم نے ساہی صاحب سے اجازت لی اور یونہی منکیرہ کی سڑک پر گھومتے ہوئے اردگرد کے منظر دیکھنے لگے۔ گاڑی عام رفتار سے چل رہی تھی اور میں باہر آگ برساتے سورج کی کرشمہ سازی دیکھ رہا تھا۔ اچانک ڈرائیور کو گاڑی کی رفتار کم کرنا پڑی۔ میں نے دیکھا‘ اس کی وجہ بھیڑوں کا ریوڑ تھا جس میں سے کچھ بھیڑیں سڑک پر آگئی تھیں۔ چلچلاتی دھوپ میں چرواہا چھڑی سے ہانکتا ہوا بھیڑوں کو اپنے راستے پر لے گیا۔ میں نے دیکھا بھیڑوں کے آخر میں ایک کُتا تھا۔ یہ دیہاتوں میں ایک عام منظر ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے پیچھے ایک کُتا ہوتا ہے جس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھیڑ اور بکری اگر ریوڑ سے بچھڑ کر ادھر اُدھر چلی جائے یا پیچھے رہ جائے تو اسے واپس ریوڑ میں لے آئے۔ شدید گرمی سے بچنے کیلئے اس نے سر اور چہرے کو سفید رنگ کے منڈاسے سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھڑی تھی اور دوسرے کندھے سے پانی کی ایک بوتل لٹک رہی تھی جس پراس نے کپڑا چڑھایا ہوا تھا تاکہ پانی زیادہ گرم نہ ہو۔ اس کی قمیص پسینے سے بھیگ کراس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی لیکن موسم کی سختی اس کے ارادے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکی تھی۔ صحراؤں اور پہاڑوں پر رہنے والے ایک جفاکش زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ اقبال نے انہی لوگوں سے متعلق کہا تھا:؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی/یا بندۂ صحرائی، یا مردِ کہستانی
گاڑی آگے بڑھنے لگی۔ اب میرے دائیں اور بائیں طرف صحرا کی وسعت تھی۔ مکمل چٹیل صحرا جس کی ریت پر ہوا نے اپنے نقش ونگار بنا رکھے تھے۔ ذرا آگے ریت کے بگولے اُٹھ رہے تھے۔ اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے صحرا غصے میں پھنکار رہا ہے اور اپنے اردگرد ہر ذی روح کو بھسم کردینا چاہتا ہے۔ ایسے میں مجھے ایک غیریقینی منظر دکھا دیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ گاڑی آہستہ کرے۔ نیلی قمیص اور سفید دوپٹوں میں یہ سکول کی ننھی منی بچیاں تھیں جو چھٹی کے بعد سکول سے دور اپنے گھروں کو پیدل جا رہی تھیں۔ ان کے پھول جیسے چہرے سورج کی آگ سے دہک رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک بچی گر پڑی۔ اس کی سہیلیاں اسے ایک قریبی درخت کے سائے میں لے گئیں۔ ذرا آگے گئے تو ایک سوزوکی گاڑی میں سکول کے بچے بھرے ہوئے تھے۔دو بچوں نے اپنے سر پکڑے ہوئے تھے۔ سب بچوں کی آنکھیں سورج کی تپش سے کبوتر کی طرح لال ہورہی تھیں۔ اسلام آباد کے یخ بستہ دفتروں میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں کے اپنے بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں کلاسوں میں ایئرکنڈیشنز ہوتے ہیں اوران کے بچوں کو ایئرکنڈیشنڈگاڑی سکول چھوڑتی اور واپس گھر لاتی ہے۔ اسلام آباد کے سبزہ زاروں میں بیٹھ کر تھل کے صحراؤں کی صعوبتوں کا خیال کیسے آسکتا ہے؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved