تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-06-2021

آرزوئے انفرادیت

انفرادیت کے اعتبار سے دیکھیے تو دنیا کا ہر انسان یکتا و یگانہ ہے۔ قدرت نے ہر انسان کو چند ایسی خصوصیات کے ساتھ خلق کیا ہے جو صرف اُسی میں پائی جاتی ہیں۔ ہر انسان بجا طور پر بلا خوفِ تردید یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی ایک انسان بھی اُس کی سی خصوصیات کا حامل نہیں۔ یہ تو ہوا فطری انفرادیت کا معاملہ جس سے انکار ممکن ہی نہیں‘ اب آئیے اِس سوال کی طرف کہ کیا محض منفرد ہونا کافی ہے؟ غور کیجیے تو اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ سیدھی سی بات ہے، محض انفرادیت کا حامل ہونا بڑی بات نہیں بلکہ اصل اہمیت اِس بات کی ہے کہ کوئی دنیا کو کیا دے پاتا ہے اور دنیا سے کیا لے کر اپنا معیار بلند کر پاتا ہے۔
کم و بیش ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں یکتا ہو، مثالی نوعیت کی انفرادیت کا حامل قرار پائے۔ اپنی اصل میں یہ انتہائی فطری اور ناگزیر خواہش ہے لیکن اگر اِس سے مطابقت رکھنے والا عمل نہ پایا جائے تو معاملہ خواہش کی منزل ہی میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہونا اور بات ہے اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو پوری آب و تاب کے ساتھ پیش کرنا اور بات ہے۔ دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ لوگ اپنی صلاحیت کو کافی سمجھتے ہوئے اِس مرحلے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ قدرت نے سنگِ مرمر خلق کیا ہے۔ ہمیں یہ قدرتی طور پر ملتا ہے یعنی اِسے بنانے پر محنت نہیں کرنا پڑتی مگر اس سنگِ مرمر کی توقیر اور قدر و قیمت اُسی وقت بڑھتی ہے جب ہم اُس پر محنت کرتے ہیں، سنگِ مرمر کے ٹکڑے کو تراش خراش کر کوئی چیز بناتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے حالاتِ زندگی پڑھ دیکھیے یا اُن کے انٹرویوز کی مدد سے اُن کی زندگی میں جھانکیے تو اندازہ ہوگا کہ کسی کو بھی پکی پکائی ہانڈی نہیں ملی۔ سب نے اپنے فطری رجحان کو پروان چڑھایا، صلاحیتوں کو نکھارا اور اپنے شعبے کے تمام تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے محنت کی تو ہی بات بنی۔ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں کہ کسی ایک فرد یا چند افراد تک محدود ہو۔ ہر دور میں اُسی کو کامیاب دیکھا گیا ہے جس نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر کمال پیدا کیا اور ایک دنیا کو حیرت میں مبتلا کیا۔
ہاں! فی زمانہ کچھ بن پانا، کچھ کر دکھانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت ممکن بنائی جاچکی ہے اور دوسرے یہ کہ مسابقت بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھنے سے ہر شعبے میں اُن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اپنے آپ کو منوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ آج کا نوجوان جب کچھ کرنے کی ٹھانتا ہے تو ہر شعبے میں بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھیڑ اُس کا حوصلہ پست کرنے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے۔ مسابقت سے انسان مزاجاً گھبراتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ گھبراہٹ نقصان دہ ہے۔ مسابقت ہی تو انسان کو کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ جب تک کوئی خطرہ یعنی مسابقت نہ ہو تب تک اِنسان خصوصی طور پر یعنی تیاری کے ساتھ کچھ کرنے پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ کسی بھی شعبے میں وہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں جنہیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اگر وہ ڈھیلے پڑے تو اُن کی جگہ دوسرے آجائیں گے۔ اپنے مقام سے محروم ہو جانے کا خوف انسان کو زیادہ اور ڈھنگ سے محنت کرنے کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ مسابقت کا یہ حال ہے کہ کسی بھی شعبے میں دوسروں سے واضح طور پر منفرد دکھائی دینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔ دنیا الجھ گئی ہے۔ ہر شعبہ ہوش رُبا نوعیت کی پیش رفت کا حامل ہے۔ نام بنانا اب گزرے ہوئے زمانوں جیسا آسان نہیں رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سو سال پہلے کی دنیا بھی بہت آسان تھی۔ آج معاملات ایسے الجھ کر رہ گئے ہیں کہ انسان کے لیے اپنی انفرادیت ثابت کرنا انتہائی پیچیدہ عمل ہوچکا ہے۔ باصلاحیت افراد تو ہر دور میں ہوا کرتے تھے اور ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خصوصیت تو پائی ہی جاتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہر طرح کی انفرادیت یا خصوصیت دنیا کے کام کی نہیں ہوتی۔ انسان کو اپنے اندر وہ صفات پیدا کرکے پروان چڑھانی چاہئیں جو دنیا اُس میں دیکھنا چاہتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں انفرادیت یقینی بنانا کب ممکن ہو پاتا ہے؟ عموماً اُس وقت جب انسان باقی تمام معاملات کو ایک طرف ہٹاکر اپنے واضح ترین مقصد پر توجہ مرکوز کرے، پورے انہماک کے ساتھ کام کرے اور اپنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ یہ سب کچھ آسان نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی الجھن بڑھتی جارہی ہے، زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا امتحان کے درجے میں داخل ہوچکا ہے۔ کل تک بہت سے معاملات سادہ تھے جنہیں نبھانا مشکل نہ تھا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ واقعی کچھ کر دکھانے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔
اگر کوئی یہ طے کرلے کہ اُسے انفرادیت کی منزل تک پہنچنا ہے تو سمجھ لیجیے زندگی کا رنگ ڈھنگ بدلنے کا مرحلہ آن پہنچا۔ آج کی دنیا میں اپنی منفرد حیثیت یقینی بنانا پورے وجود کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔ کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے بہت کچھ الگ سے کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو پروان چڑھانا پڑتا ہے اور اس کے بعد لگن برقرار رکھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ بھی چلنا چاہتے ہیں اور اُس سے الگ بھی دینا چاہتے ہیں۔ انفرادیت کی بنیادی شرط ہے اوروں سے الگ ہو رہنا، اپنے وجود کو پورا وقت دینا، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، اپنی سکت کو بروئے کار لانا اور دنیا کو دکھانا کہ کچھ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ انسان باقی دنیا میں بھی گم رہے اور سب سے منفرد بھی دکھائی دے ؎
اِک تو اہلِ جہاں میں گم رہنا
اور پھر آرزوئے یکتائی!
زمانہ آپ کی بات اُس وقت سُنے گا جب آپ اپنے دل کی بات سُنیں گے، اپنے وجود کے سمندر میں غوطہ زن ہوں گے۔ اپنے اندر ڈوب کر ابھرے بغیر کوئی ابھر نہیں سکا۔ دنیا اُسی کو مانتی ہے جو اپنے وجود کی بات مانتا ہے، اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر اُس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس نے اپنے لیے طے کیا ہو۔ انفرادی سطح پر ملنے والی کامیابی اُسی وقت یقینی ہو پاتی ہے جب انسان طے کرلے کہ اُسے جو کچھ کرنا ہے، جو کچھ بننا ہے اُس کے لیے باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے اپنی ذات میں گم رہے گا، اپنے آپ کو پورا وقت دے گا اور اپنا کام پورے انہماک سے کرے گا۔ چکبستؔ کی بات یاد رکھیے ؎
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے
کسی کو نہیں‘ کسی ایک کو بھی نہیں۔ محنت بنیادی امر ہے اور حقیقی محنت یقینی بنانے کے لیے دوسروں سے ہٹ کر جینا لازم ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں گم رہتے ہوئے ہم باقی دنیا سے ہٹ کر کچھ کر دکھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ منفرد ہونے کی آرزو کو اگر بارآور ثابت کرنا ہے تو اپنے آپ کو ماحول سے تھوڑا سا دور کرکے اپنے وجود کی گہرائیوں کا شناور ہونا پڑے گا۔
ہر زمانہ خصوصی طور پر کچھ کرنے والوں سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ ہو جاؤ۔ ایسا کرنا اس لیے لازم ہے کہ دنیا کے میلے میں گم ہوکر صرف سیر کی جاسکتی ہے، اپنی مرضی کے مطابق کچھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی بسر کرنے یعنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انسان کو معاشی جدوجہد کرنا ہی پڑتی ہے مگر اپنے پورے وجود کو معاشی جدوجہد کی نذر کرنا کسی بھی اعتبار سے عقل کا سَودا نہیں۔ اپنے وجود کو بروئے کار لاکر اُسے منفرد انداز کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا وہ چیلنج ہے جو کم و بیش ہر انسان کو قبول کرنا چاہیے تاکہ دنیا کی رنگینی میں اضافہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved