تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-06-2021

آج کل ٹیکے زوروں پر ہیں!

پنجاب میں اس وقت بچہ سقہ والا معاملہ محسوس ہوتا ہے اور ٹی کے لگائے جا رہے ہیں۔ یہ ٹی کے کیا چیز ہے؟ میں نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک سرکاری افسر دوست سے پوچھا کہ ٹیکہ آج کل بیوروکریٹس کو کس بھائو پڑ رہا ہے تو وہ مسکرایا اور کہنے لگا: بھائی جی! کوئی اور بات کریں۔ پھر میری آنکھوں کی چمک دیکھ کر کہنے لگا: لگتا ہے آپ اس بارے میں کچھ لکھنے کیلئے مضمون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جواباً میں بھی مسکرایا اور کہا کہ اس میں مضمون بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ مضمون تو بنا بنایا ہے‘ بس لکھنے کی دیر ہے‘ حتیٰ کہ عنوان بھی بنا ہوا ہے اور وہ ہے: ٹی کے کے ٹیکے۔ وہ دوست مسکرایا تو سہی، مگر اسکی مسکراہٹ میں خوشی مفقود تھی‘ حالانکہ مجھے علم ہے کہ وہ ان ٹیکوں کی ایجاد سے قبل والی میرٹ زدہ پوسٹنگ کا حامل تھا‘ مگر وہ 'کبوتر با کبوتر، باز با باز‘ والا معاملہ تھا۔ بھائی بند کی محبت تو بہرحال دل میں ہوتی ہی ہے۔
دو روز قبل اسی دوست کا فون آیا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا: وہ جو آپ کا عنوان تھا وہ تو لیک آئوٹ ہو گیا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: کون سا عنوان اور کیسا لیک آئوٹ؟ وہ کہنے لگا: وہ جو آپ نے کہا تھا کہ ٹی کے کے ٹیکے، تو وہ آپ کے دوست رئوف کلاسرا نے استعمال کر لیا ہے۔ آپ کا عنوان آئوٹ ہو گیا ہے‘ اب آپ کیا کریں گے ؟ میں نے کہا: برادرم! یہ کوئی راز تھوڑا تھا جو لیک آئوٹ ہو گیا ہے، یا کوئی منصوبہ تھا جو طشت از بام ہو گیا ہے۔ یہ تو کھلا راز تھا اور اب پنجاب بھر کی بیوروکریسی میں اپنی مقبولیت کے طفیل شہرت کے چوبارے پر چڑھ چکا ہے۔ چاند چڑھتا ہے تو کل عالم دیکھتا ہے۔ اس لیک آئوٹ ہونے سے ایک قصہ یاد آ گیا ہے‘ اگر موڈ ہو تو سنائوں؟ وہ دوست کہنے لگا: نیکی اور پوچھ پوچھ! آپ کا قصہ بہرحال دلچسپ تو ضرور ہوگا۔
میں نے کہا: ایک ملک میں آبادی کی شرح منفی میں جا رہی تھی، حکومت نے لوگوں کو آبادی بڑھانے کے لیے Incentive دیتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت چھ بچوں والے خاندان کو مفت فلیٹ دے گی۔ ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ دل بڑا کرے اور فساد ڈالنے کے بجائے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذاتی فلیٹ کی مالکہ بننا چاہتی ہے تو اس کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ پھر اس نے اپنی بیوی کو حکومت کا اعلان سنایا اور کہا کہ وہ اس منصوبے کے تحت اپنے ذاتی فلیٹ کے مالک بن سکتے ہیں۔ بیوی نے حیرانی سے کہا: مگر ہمارے تو چار بچے ہیں‘ مزید دو بچے کہاں سے آئیں گے؟ شوہر نے نظریں نیچی کرتے ہوئے نہایت لجاجت سے کہا: میں تم سے یہی تو کہنا چاہ رہا تھا کہ اگر تم دل بڑا کرتے ہوئے فتنہ فساد برپا نہ کرو تو میرے پاس اس سلسلے میں ایک قابل عمل منصوبہ ہے۔ بیوی نے کہا: چلو بتائو۔ شوہر نے کہا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے اور اس میں سے اس کے دو بچے ہیں‘ اگر وہ قبول کرے تو میں ان دو بچوں کو گھر لے آتا ہوں اور یوں مل کر چھ بچے ہو جائیں گے اور ہم فلیٹ کے مالک بن جائیں گے۔ بیوی نے شوہر سے کہا‘ گو کہ معاملہ بہت سیریس اور سنگین تھا تاہم صرف وہ ذاتی فلیٹ کے چکر میں اس کو معاف کرتی ہے اور اسے اجازت دیتی ہے کہ وہ ان دو بچوں کو گھر لے آئے تاکہ وہ فلیٹ کے مالک بن سکیں۔ شوہر ان دو بچوں کو لینے کے لیے چلا گیا۔ چار چھ گھنٹوں بعد واپس آیا تو گھر میں چار کے بجائے دو بچے تھے۔ شوہر نے حیرانی سے پوچھا کہ باقی دو بچے کہاں ہیں۔ بیوی نے شرمندگی سے نظریں جھکاتے ہوئے کہا: لگتا ہے ہمارا منصوبہ لیک آئوٹ ہو گیا ہے۔ وہ بچے جن کے تھے وہ بھی تمہاری طرح انہیں واپس لے گئے ہیں۔
میں نے اپنے دوست کو کہا کہ ٹی کے والا معاملہ لیک آئوٹ نہیں ہوا محض اخبارات تک اب آیا ہے‘ سینہ بہ سینہ تو کئی ماہ سے چل رہا تھا۔ جو بات سینہ بہ سینہ چل رہی ہو اسے لیک آئوٹ ہونا نہیں کہتے۔ عزیزم رئوف کلاسرا سے دو تین دن پہلے اسی نام کو اشارتاً حبیب اکرم نے بھی اپنے کالم کی زینت بنایا تھا مگر تب لوگوں کے شاید پوری طرح پلے نہیں پڑا تھا۔ اب معاملات زیادہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ کافی پرانی انجمن امداد باہمی ہے جو اب پھر سے یکجا ہوگئی ہے۔ پہلے پہل اس انجمن کا قیام تب عمل میں آیا‘ جب ایک فریق تحصیل ناظم تونسہ ٹرائیبل تھا اور دوسرا فریق ایک سہولت کار محکمے میں تھا۔ شنید ہے کہ اس باہمی محبت کا آغاز تعاونِ باہمی کے اصولوں کا مرہون منت تھا اور راوی ہر دو فریقین کے بارے میں خوشحالی کی نوید سناتا ہے۔ اللہ جانے کس نے کس سے کتنا فیض حاصل کیا۔ ظاہر ہے ایسی چیزوں کا نہ کوئی حساب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کتاب ہوتی ہے تاہم پنجابی کہاوت ہے کہ ہنستے کا منہ اور روتے ہوئے کی آنکھیں ہر بات کی چغلی کھاتی ہیں۔ باہمی تعاون کی اس کہانی میں بھی روتے ہوئے کی آنکھوں کا تو کوئی ذکر نہیں‘ البتہ ہنستے ہوئے چہرے بہت سی باتوں کی چغلی کھاتے تھے۔
رئوف کلاسرا اور حبیب اکرم نے جن ٹیکوں کا ذکر کیا ہے وہ آج کل پنجاب کی بیوروکریسی میں اتنے ہی مقبول اور مشہور ہیں جتنے کہ آج کل کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے لگائی جانے والی ویکسین کے ٹیکے عام آدمی میں مشہور و مقبول ہیں۔ عام لوگوں کا چونکہ ٹی کے والے ٹیکوں سے کوئی براہ راست واسطہ نہیں اس لیے وہ ان سے پوری طرح باخبر نہیں ہیں لیکن ان ٹیکوں سے ہونیوالے ری ایکشن کی شکایات بہرحال برطانوی ویکسین آسٹرازینکا سے کہیں زیادہ ہیں اور شدید بھی۔
یہ صرف ایک فرد کا نام نہیں بلکہ پنجاب بیوروکریسی میں یہ ایک پورے گروپ کا نام ہے۔ اس گروپ کو سابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان کے دور میں قابو کرکے رکھا گیا تھا اور اس پر پوری نظر بھی رکھی ہوئی تھی۔ اس وقت کے آئی جی پی پنجاب بھی اس گروپ کو آنے والی تھاں پر رکھنے میں چیف سیکرٹری کے ساتھ تھے لیکن ہر دو افراد کے منظر سے چلے جانے کے بعد گروپ پھر سے ہرا ہو گیا‘ اوپر سے سرپرست اعلیٰ بھی دوبارہ فارم میں آ گیا۔ لیکن بُرا ہو شکایت بازوں کا انہوں نے ایک اونچے گھر میں شکایتیں لگانی شروع کر دیں۔ انہی شکایتوں کے طفیل سرپرست اعلیٰ کے آبائی ڈویژن میں کمشنری زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور سرپرست اعلیٰ کے رونے پیٹنے اور منت ترلا کرنے کے باوجود کمشنری کا بستر لپیٹ دیا گیا‘ تاہم اسے نسبتاً نچلے گریڈ کی لیکن دھانسو قسم کے ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کی پوسٹ‘ جو 20ویں گریڈ کے افسر سے چلائی جاتی رہی تھی‘ کو اپ گریڈ کر کے اکیسویں گریڈ کے اپنے من پسند افسر کے قابل بنا دی۔
صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں اب بھی شہباز شریف ماڈل کے مطابق پسندیدہ افسروں کو نچلے گریڈ میں ہونے کے باوجود اونچے گریڈ کی اسامیوں پر لگانے کا کام جاری ہے، اور پنجاب میں میرٹ کے بجائے انتظامی افسران اور خاص طور پر ضلعی انتظامیہ میں پسند اور پیسے کی بنیاد پر تعیناتیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اللہ خوش رکھے میرٹ کے دعوے کرنے والوں کو۔ ایک دوست کل ملا۔ وہ پوچھنے لگا کہ پنجاب میں ہونے والے حالیہ میرٹ کے قتلِ عام پر وزیر اعظم کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ اس ملائی سمیٹنے والی ٹیم کی سرپرستی قبول کر چکے ہیں یا محض سمجھوتہ کر کے خاموش ہیں؟ میں اسے اس سوال کا کیا جواب دیتا؟ مجھے تو خود پتہ نہیں کہ اس میں خان صاحب کی اشیرباد شامل ہے یا محض چشم پوشی سے کام چل رہا ہے؟ بہرحال پنجاب میں تو ہر طرف ٹیکوں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved