بجٹ کے موقع پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں شور شرابا ہونا کوئی نئی بات نہیں اور ویسے بھی ایک کام مسلسل ہوتا رہے تو اس کی عادت ہوجاتی ہے پھر وہ نہ ہو تو عجیب لگتا ہے۔ خیر ہماری اسمبلی تو یہ ریکارڈ بھی رکھتی ہے کہ ستمبر 1958 میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اجلاس میں ہونے والے ہنگامے میں کسی رکن کی جانب سے پھینکا جانے والا پیپر ویٹ لگنے کے سبب زخمی ہوئے اور پھر دو روز بعد انتقال کر گئے تھے۔
اس بار کے بجٹ اجلاسوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی رہی اور روایتی طور پر ایک دوسرے کو تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں وغیرہ وغیرہ‘ لیکن اس بار جو ایک نیا کام نظر آیا وہ جارحانہ رویہ تھا۔ قومی اسمبلی‘ جس کا ایک اجلاس تقریباً1 کروڑ 26 لاکھ کا پڑتا ہے‘ کسی گلی کوچے کا چوک لگ رہی تھی۔ غلیظ گالیاں بکنے کا مقابلہ جاری تھا بجٹ کی کاپیوں سے ایک دوسرے پر حملے کئے گئے‘ اور بہت کچھ تو میڈیا دکھا ہی رہا ہے۔ اب یہ بحث بے معنی ہو چکی ہے کہ پہل کس نے کی، بات تو یہ ہے کہ حکمران جماعت اس کلچر کی ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد ان میں ایک ٹھہراؤ اور مدبرانہ رویہ نظر آتا لیکن ہمیں تو آئے دن اس میں کوئی نرالی ہی بات سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔
پارلیمنٹ کسی بھی ملک کے اجتماعی شعور کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ عوام کی رائے سے منتخب نمائندے عوام کا حق حکمرانی یقینی بنانے کیلئے ایوان میں پہنچتے ہیں۔ عوامی مسائل اور امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اس عمل میں دنیا کے ہر جمہوری ملک کے ایوان میں تند و تیز بحث اور تلخ جملوں کے تبادلے ہوتے ہیں۔ بھارتی راجیہ سبھا میں فروری 2014ء میں تلنگانہ بل پیش کرنے کے موقع پرکانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے تلنگانہ بل کے حامیوں پر مرچوں کا سپرے کر دیا تھا۔ ترکی کی پارلیمنٹ میں 2016ء میں ارکان اسمبلی گتھم گتھا ہوگئے تھے۔ گھونسوں اور لاتوں کا تبادلہ ہوا۔ پانی کی بوتلوں سے ایک دوسرے پر حملے کئے گئے۔ جارجیا کی پارلیمنٹ میں 2014ء میں ارکان پارلیمنٹ باکسنگ ڈے پر باکسرز بن کر ایک دوسرے پر مکے برساتے رہے۔ نیپال کی پارلیمنٹ میں 2015ء میں ارکان اسمبلی نے لڑائی میں کرسیاں اٹھالی تھیں۔ توڑ پھوڑ بھی کی۔ یوکرائن کی پارلیمنٹ میں 2012ء میں روسی زبان کے استعمال کرنے کے بل پر ارکان ہاتھا پائی پر اتر آئے تھے۔ 2020ء میں تائیوان کی پارلیمنٹ میں ایک تقرری پر حکومت اور اپوزیشن کے ارکان لڑپڑے تھے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی تندوتیز جملوں کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ نعرے بازی بھی ہوتی ہے‘ ڈیسک بجائے جاتے ہیں‘ لیکن منگل کے روز سوشل میڈیا مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر لفظ ''شیم‘‘ ٹرینڈ کررہا تھا۔ اس ٹرینڈ کے ساتھ قومی اسمبلی کی کارروائی کے جو مناظر سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں، بطور قوم ہمارا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہیں۔ ایوان اکھاڑہ بنا رہا۔ ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ ایک دوسرے کو مغلظات سنائی جارہی تھیں۔ بجٹ کی کاپیاں ہتھیار بنی ہوئی تھیں۔
منگل کے روز پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کی کارروائی شروع ہوئی تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کے پیش کردہ بجٹ پر رائے پیش کرنی تھی۔ ان کی تقریر شروع ہوئی تو ساتھ ہی پی ٹی آئی ارکان اور وزرا نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بات نعرے بازی، سیٹیوں اور ڈیسک بجانے سے گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ پی ٹی آئی رکن علی نواز اعوان نے ن لیگ کے روحیل اصغر کو بجٹ کتاب دے ماری۔ اس کے بعد ایوان میں ایک ختم نہ ہونے والی لڑائی شروع ہوئی۔ کتابوں کی جنگ میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان تاک تاک کر ایک دوسرے پر وار کرتے رہے۔ شہباز شریف کی طرف بھی کتاب اچھالی گئی جو ان تک نہیں پہنچ سکی۔ پی ٹی آئی کی ملیکہ بخاری منہ پر کتاب لگنے سے زخمی ہوگئیں۔ اس سارے ہنگامے میں وزیر تعلیم شفقت محمود اور وزیر ماحولیات زرتاج گل کتاب سے ڈیسک بجاتے نظر آئے۔ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری بھی نعرے لگاتی رہیں۔ علی امین گنڈا پور اور مراد سعید بھی آوازے کستے رہے۔ کچھ ارکان سیٹیاں اور باجے لے کر آئے تھے جو بجا کر وہ شوروغل میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ اس سارے عمل کے دوران سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اجلاس میں 3 بار وقفہ ہوا۔ تیسری بار کا 20 منٹ کے لیے لیا گیا وقفہ اگلے دن تک ملتوی ہوگیا۔ اس ہڑبونگ، بدنظمی اور بدتہذیبی میں ہر رکن اسمبلی، حصہ بقدر جثہ شریک رہا۔ کچھ حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایسے بھی تھے جو خاموش رہے یا بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ گنتی کے ان چند افراد میں اسد عمر، علی محمد خان، حماد اظہر اور محسن داوڑ نظر آئے‘ لیکن جو مناظر ٹی وی سکرینوں پر ایک بار نشر ہوئے اور پھر خبروں میں بار بار دہرائے گئے وہ اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ بحیثیت قوم ہمارا اجتماعی شعور کس سطح پر ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان کا ایک تقدس ہے۔ اس کا پاس نہیں رکھا گیا۔ ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کی خواتین موجود تھیں۔ ان کی موجودگی کا بھی احساس نہیں کیا گیا۔ ایوان کے معزز اراکین نے اس مقدس ایوان میں ایک دوسرے کو جن القابات سے نوازا اور جس طرح سے ناصرف اپنے معزز ساتھیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ کی‘ افسوسناک ہے۔ مجھ سمیت 22 کروڑ سے زائد پاکستانی ان معزز ممبران قومی اسمبلی سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ معزز ایوانوں میں بیٹھنے والے یہ قانون ساز کیا ایسے ہی الفاظ کا تبادلہ اپنے گھروں میں موجود اپنی مائوں،بہنوں اور بیٹیوں سمیت گھر کی دیگر کی خواتین کے سامنے کرتے ہیں؟ یا کرسکتے ہیں؟ ٹی وی چینلز نے اپنی ٹرانسمیشن میں تو ان بیہودہ الفاظ اور غلیظ گالیوں کو ضرور حذف کردیا تاہم سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں یہ الفاظ 22 کروڑ پاکستانیوں سمیت پوری دنیا نے دیکھے اورسنے۔ بات ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی، آج جس وقت میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں اس وقت بھی سامنے لگی تمام ٹی وی سکرینوں پر ناصرف قومی اسمبلی میں ہونے والے دلخراش واقعہ کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے والے نام نہاد لیڈر اس کی اپنے اپنے نقطہ نظر سے مختلف طرح کی توجیہات بھی پیش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے لیہ سے ایک رکن اسمبلی کی ایوان میں بیٹھے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پر آوازے کسنے کی ایک ویڈیو بھی گردش میں ہے۔ ان کی فقرہ بازی پر ایوان میں ہی موجود زرتاج گل کے چہرے کے تاثرات اس بات کے گواہ تھے کہ وہ اپنے ساتھی رکن کی بات پر خفا بالکل نہیں۔ بلاول بھٹو کے لیے استعمال کیے جانے والے ان الفاظ کو میں یہاں لکھ نہیں رہا کیونکہ ان الفاظ میں صرف بلاول بھٹو کی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کی توہین کی گئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اصل لڑائی جمعہ 11 جون سے شروع ہوئی جب وزیر خزانہ شوکت خان ترین نے بجٹ پیش کیا۔ وزیراعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے۔ ایسے میں اپوزیشن ارکان نے شور مچایا۔ نعرے بازی کی۔ اس بیچ مریم اورنگزیب اور رومینہ خورشید عالم دیگر لیگی خواتین کے ساتھ پلے کارڈ اٹھائے کھڑی تھیں۔ ان سے پلے کارڈ چھیننے کی حکومتی ارکان کی ویڈیو کا بھی چرچا رہا۔ اس روز سے ہی حکومتی اراکین میں کافی غم و غصہ پایا جارہا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم کے خلاف کچھ نازیبا نعرے بازی کی۔ ایسے ہی کچھ نعرے منگل کو بھی ایوان میں گونجتے رہے۔ ان کی بازگشت شاید آنے والے دنوں میں بھی قومی اسمبلی کی کارروائی میں سنائی دیتی رہے گی۔ ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو لڑائی مزید بڑھے گی۔