ہر سال نئی نسل کے سامنے شاہراہِ حیات یعنی کیریئر کے انتخاب کا مرحلہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ گریجویشن مکمل ہوتے ہی عملی زندگی شروع کرنے کا معاملہ درشن دیتا ہے۔ پاکستان میں نجانے کیوں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عملی زندگی کا آغاز کم از کم چودہ جماعتوں کی تعلیم مکمل کیے جانے کے بعد ہی ہوگا یا ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں معاملہ مختلف ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ حال ہے کہ بچہ ابھی سکول ہی میں ہوتا ہے کہ اُسے عملی زندگی سے روشناس کرادیا جاتا ہے۔ چھوٹے موٹے کاموں کے ذریعے بارہ سے پندرہ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو کمانے کی طرف مائل کیا جاتا ہے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ باضابطہ عملی زندگی میں انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو کچھ ناگزیر حیثیت رکھتا ہے اُس کے بارے میں بہت پہلے سے بتا دینے میں کچھ حرج نہیں۔ ہمارے ہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے کے بجائے اُنہیں آنے والے زمانے یعنی عملی زندگی کے حوالے سے ڈرایا جاتا ہے۔ عملی زندگی کی الجھنوں سے بچوں کو روشناس کرانے کے بجائے اُنہیں قدم قدم پر خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ جب وہ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی کی طرف جائیں تو لگ پتا جائے گا۔ اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے اور بچوں کے ذہنوں میں مستقبل کے حوالے سے مثبت تصورات پروان چڑھانے کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور آج بھی ہے۔ سب کو تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزر کر ایک نہ ایک دن عمل کے میدان میں قدم تو رکھنا ہے یعنی کمانے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ جب یہ مرحلہ ناگزیر ہے تو اِس سے خوفزدہ کیوں ہوا جائے اور گھبرانے‘ جان چھڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ والدین اور اساتذہ دونوں کو اس حوالے سے اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔
ایک دور تھا کہ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا مشکل ضرور تھا مگر یہ کوئی بہت بڑا دردِ سر نہیں تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب زندگی نے پیچیدگی کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا۔ معاملات بہت حد تک سادہ ہوا کرتے تھے۔ نئی نسل سکول کے بعد کالج کی تعلیم سے بھی فارغ ہوکر جب عملی زندگی کی ابتدا کرتی تھی تو ذہنی سطح پر بہت زیادہ الجھی ہوئی نہیں ہوتی تھی۔ تھوڑی بہت الجھنیں دامن گیر ضرور ہوا کرتی تھیں مگر بدحواس نہیں کرتی تھیں۔ معاشرہ مجموعی طور پر ایسی رہگزر کے مانند تھا جس میں بہت زیادہ کانٹے بچھے ہوئے نہیں تھے اور نشیب و فراز کے مراحل بھی کم ہی آتے تھے۔ تب کی تعلیم و تربیت کچھ اور تھی اور ایسا ہونا ہی چاہیے تھا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے لیے الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک مصیبت تو یہ ہے کہ کالج کی سطح پر تعلیم مکمل ہونے تک نوجوانوں کو عموماً کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جب وہ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ کرنے نکلیں گے تو انہیں کس نوعیت کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں ان کا بھی قصور ہوا کرتا تھا مگر اُن سے زیادہ تو اُن کے بڑے قصور وار ہوا کرتے تھے جو انہیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔
جب سادہ زمانوں میں نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرنا تھوڑا بہت پریشان کن مرحلہ تھا تو اندازہ لگائیے کہ اب کیا عالم ہوگا۔ آج کی نئی نسل کو عملی زندگی کی ابتدا میں جن پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُنہیں بہتر طور پر سمجھنے کے لیے لازم ہوچکا ہے کہ نوجوانوں کو بہت پہلے سے بہت کچھ بتایا جائے۔ ترقی یافتہ دنیا میں اور بہت سے ترقی پذیر ممالک میں اس حوالے سے تیاری پر توجہ دی جاتی ہے۔ سکول کی سطح ہی پر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کس بچے کی دلچسپی کس شعبے میں ہے۔ اُس سے گفتگو کے ذریعے بھی بہت کچھ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس چیز میں اُس کی دلچسپی ہو وہی چیز اُس کے لیے اہم قرار پاتی ہے۔ والدین بھی اساتذہ کے مشورے سے بچوں کے بہتر مستقبل کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ تیاری کیریئر کے حوالے سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اب کیریئر کونسلنگ کا شعبہ غیر معمولی حد تک پنپ چکا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین موزوں ترین کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس عمل کے مثبت نتائج سب کے سامنے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے لازم ہوچکا ہے کہ نئی نسل کے لیے بہترین رہنمائی کا اہتمام کریں تاکہ اُسے عملی زندگی کے لیے کماحقہٗ تیار کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں نئی نسل کو اچھی خاصی عمر تک کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کیا کرنا ہے، کس شعبے میں جانا ہے۔ عملی زندگی کی مشکلات سے خوف کھانے کے باعث بیشتر نوجوان اس معاملے میں کھل کر کسی سے کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ اپنے خیالات کو اپنی ذات تک رکھتے ہیں اور والدین تک پر اپنا ما فی الضمیر بیان نہیں کرتے۔ والدین کو اس معاملے میں پہلا قدم اٹھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ بچوں کے لیے کون سا شعبہ بہترین رہے گا اور وہ عملی زندگی میں خود کو کس طور ایڈجسٹ کر پائیں گے‘ اس کا اندازہ والدین کو ہونا ہی چاہیے۔ یہ اندازہ خود بخود تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ گفتگو ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کیا چاہتی ہے۔ اور گفتگو کھل کر ہونی چاہیے۔ نئی نسل کے ذہن میں جتنے بھی تحفظات موجود ہیں وہ زبان پر آنے چاہئیں۔ کُرید کُرید کر اُن سے بہت کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی نوجوان کے لیے شاہراہِ حیات یعنی کیریئر کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں‘ اس لیے لازم ہے کہ معیاری طرز کی رہنمائی یقینی بنائی جائے۔ اس کیلئے حکومتی سطح پر بھی ادارے ہونے چاہئیں اور نجی سطح پر بھی معیاری اداروں کا قیام ناگزیر ہے۔ فی زمانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے سے بھی زیادہ مشکل مرحلہ ہے طبیعت سے موزونیت رکھنے والے شعبے کا انتخاب۔ بہت سے نوجوانوں کو دیکھا گیا ہے کہ محض حالات سے متاثر یا جذبات سے مغلوب ہوکر کسی بھی شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں اور کچھ ہی مدت کے بعد انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے غلط شعبہ منتخب کرلیا تھا۔ یوں وہ ایک شعبہ چھوڑ کر دوسرے شعبے کی طرف جاتے ہیں۔ پھر وہاں بھی موزونیت نہیں ہوتی تو تیسرے شعبے کا رخ کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں کا اچھا خاصا عہدِ جوانی اِسی مشق میں گزر جاتا ہے۔ اور جب ہوش آتا ہے تب تک پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔
نئی نسل کے لیے عملی زندگی کا آغاز ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے جیسا معاملہ ہوتا ہے۔ اُن میں ولولہ بھی ہوتا ہے اور سکت بھی۔ اگر صلاحیتوں کو عمدگی سے پروان چڑھایا گیا ہو تو وہ بہت کچھ کر دکھانے کی لگن کے حامل ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کرکے دم لیتے ہیں۔ اگر مناسب راہ نمائی کا اہتمام نہ کیا گیا ہو تو نئی نسل کو عملی زندگی کا بہتر آغاز یقینی بنانے میں اچھی خاصی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین اور اساتذہ دونوں کو یہ بات ہر حال میں یاد رکھنی چاہیے کہ فی زمانہ موزوں ترین کیریئر کا انتخاب ناگزیر مرحلہ ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر نئی نسل کے لیے کچھ کر دکھانا ممکن ہو پاتا ہے۔ عہدِ جوانی میں ہر شعبہ اچھا دکھائی دیتا ہے۔ دل میں لگن بھی ہوتی ہے اور خوف بھی۔ دوسروں کی کارکردگی دیکھ کر کچھ کرنے کا جذبہ جاگتا ہے اور کسی کسی کے انجام سے ڈر بھی لگتا ہے۔ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد کو نئی نسل کی راہ نمائی کے لیے آگے آنا چاہیے۔ وہ انٹرویوز کے ذریعے عملی زندگی کی بہت سی پیچیدگیوں کو اچھی طرح بیان کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ نئی نسل کو کچھ کرنے کی تحریک دے سکتے ہیں۔ کیریئر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ نئی نسل کو یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی ہے کیونکہ غلط انتخاب سے وقت، توانائی اور مالی وسائل‘ تینوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ یہ زندگی کا بڑا زیاں ہے جس کی راہ مسدود کی جانی چاہیے۔ زمانے کی پیچیدگیاں دیکھتے ہوئے نئی نسل کو موزوں ترین کیریئر کے انتخاب تک پہنچانا ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ کام ریاستی سطح پر بھی کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کا بھلا ہو۔ نئی نسل بہتر عملی زندگی کی طرف جائے گی تو قوم کے لیے اثاثہ ثابت ہوگی۔