ہم سب نے بہت سن رکھا ہے کہ جب کسی سے کچھ نہیں بن پاتا‘ مایوسی اسے اپنے سایے میں لے لیتی ہے یا ضروری معاملات تیزی سے نہیں نمٹائے جا سکتے تو صاحب لوگ ہوں یا کوئی اور معذرت خواہانہ انداز میں کہتا ہے کہ ''کیا میرے پاس جادو کی چھڑی ہے؟‘‘ یعنی اگر جادو کی چھڑی ہمیں کہیں سے دستیاب ہو جائے تو نا جانے ہم کتنے انقلاب اپنی اور لوگوں کی زندگیوں میں لے آئیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جادو کی چھڑی بس قصہ ہی ہے‘ ایک محاورہ‘ ایک مثال‘ اور بہانہ بھی کہ ہمارے پلے کچھ نہیں ہے۔ بیکار لوگ جادو کی چھڑی ڈھونڈتے ہیں‘ کچھ کرنیوالے‘ بامقصد زندگی گزارنے والے اور قوموں کی تقدیر بدلنے والے وژن‘ عملِ پیہم اور مسلسل جدوجہد سے حالات بدل ڈالتے ہیں۔ تاریخ میں ذرا جھانکیں کہ مخلص‘ روشن خیال اور باہمت رہنمائوں نے معاشرے‘ ریاست اور لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ امریکہ میں مختلف اوقات میں کئی سال قیام کیا تو فراغت میں کھانا پکانے کے پروگرام بڑے شوق سے دیکھتا کہ کھانا خود تیار کرتا تھا۔ ایک چینی نژاد امریکی خانساماں اپنے شو کے آخر میں یہ فقرہ ہر مرتبہ دہراتا ''اگر جانگ وانگ یہ کر سکتا ہے تو آپ بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ میں نے اس مختصر بیان میں عاجزی کا عنصر دیکھا ہے اور ناظرین اور سامعین کو حوصلہ دینے کی کوشش بھی۔ حقیقی زندگی میں اگر کوئی جادو کی چھڑی ہے تو وہ راستہ ہے جو دوسروں نے جہدِ مسلسل سے ہموار کیا۔ اس راستے پر چلنے کیلئے ارادہ‘ قدموں میں سکت اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے کیلئے نشانِ منزل سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ علم‘ حکمت‘ ترقی اور کمالِ ہنر اور مہارت سب عالمِ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ عقل کی روشنی میسر ہو تو دوسروں کے تجربے اور حصولِ حیات‘ فردی ہو یا قومی‘ سے اپنی جھولی بھر لینا جادو کی چھڑی سے کم نہیں۔
ایک مخصوص جادو کی چھڑی میرے ذہن میں ہے‘ اور وہ ایسی نہیں کہ ہماری دسترس میں نہ آ سکے۔ اگر ہم بحیثیت قوم ان خوش قسمت ملکوں کی صف میں آ جائیں‘ جنہوں نے اس چھڑی کے سہارے آسمان کو چھوتی ترقی کی ہے تو ہمارے سب غم‘ سب پریشانیاں اور سب مسائل بتدریج حل ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بھی کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سماجی‘ سیاسی اور معاشی انقلاب کے صدیوں سے مقفل دروازے پگھل کر زمین بوس ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تعلیم‘ سب بچوں کی معیاری‘ سرکاری تعلیم ہی وہ چھڑی ہے جس سے پُرانی بوسیدہ دنیائیں نئے زمانوں میں ہماری زندگیوں میں‘ ہمارے سامنے تبدیل ہوئیں۔ ہمارا چند گھروں پر مشتمل گائوں جنگل کے وسط میں تھا۔ ایک دن تقریباً تین میل دور کے سکول سے دو اساتذہ‘ استاد کرم دین اور سید کاظم حسین شاہ تشریف لائے اور یہ حکم دے کر چلے گئے کہ کل سے گائوں کے بچے سکول جایا کریں گے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد بچوں کی تعلیم لازمی تھی۔ قانون تھاکہ والد کے خلاف مقدمہ بن سکتا ہے کہ اس نے بچے کو سکول میں داخل نہیں کرایا۔اساتذہ میں بھی جذبہ تھا۔ سوچتا ہوں‘ وہ دن کیسے میری زندگی میں انقلاب لے آئے۔ میرا تو اس جادو کی چھڑی پر پکا یقین ہے۔ اگر ذرا اپنی زندگیوں پر غور کریں تو آپ کا سفر میرے سفر سے مختلف نہیں ہوگا۔ حیرت ہے کہ یہ راستہ تو سب کو معلوم ہے‘ تو پھر وطنِ عزیز کے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں؟ ان کے خاندانوں کی غربت کیسے ختم ہو گی؟ ہم نے عوامی اور غیر عوامی حکومتیں دیکھیں‘ نعرے لگائے‘ حکمرانوں کے ٹولے آتے جاتے دیکھے‘ اور اب بھی سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتاکہ حکومتی جماعت‘ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور ہم سب مل کر فیصلہ کریں کہ سب بچوں کو سکول میں داخل کرانا ہے۔ معیاری سرکاری تعلیم کیلئے وسائل مہیا کرنے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے اس کو جو ہمارے سامنے ہے‘ بے حسی؟ سیاست کی فریب کاریاں؟ بے سمتی یا ترجیحات میں جادو کی چھڑی کا آخری نمبر؟
چین کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ بار بار اپنے اس عظیم پڑوسی اور دوست کی مثال دیتے ہیں کہ اس نے صدیوں کا سفر چند دہائیوں میں طے کیا ہے۔ صنعت کاری تو دور کی بات ہے‘ آپ معاشرے میں ترتیب و تنظیم اور تہذیب پیدا نہیں کر سکتے‘ جب تک آپ تعلیم کو عام‘ معیاری اور آسان نہ بنا دیں۔ مائوزے تنگ کا دور ختم ہوا تو تنگ سیائو پنگ قید خانے سے نکال کر مسندِ اقتدار پر لائے گئے۔ غالباً یہ انیس سو ستتر کی بات ہے۔ ان کا وژن چار تجدیدیں تھیں: تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور صنعتکاری۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہیں کھل چکی تھیں۔ تب امریکہ کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ چین کو ترقی دی جائے‘ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ سوویت یونین کے غلبے میں چلا جائے گا۔ امریکہ نے جب سخی بادشاہ کی طرح دل کھول کر کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو‘ تو معلوم ہے چینی قیادت نے کس بات کا سوال کیا تھا؟ اس بات کا کہ ہمارے دس ہزار طالب علموں کی پہلی کھیپ کو امریکی جامعات میں ترجیحی بنیادوں پر داخلہ دیا جائے۔ چینی حکومت سب اخراجات ادا کر رہی تھی۔ یونیورسٹی آف کیلے فورنیا میں‘ جہاں میں خود طالب علم تھا‘ کئی سو چینی طالب علموں کو دیکھا۔ انہیں علیحدہ رکھا گیا تھا‘ اور شروع میں انہیں انگریزی کی تعلیم دی گئی تھی۔ زبان کی استعداد بڑھی تو سائنسی شعبوں میں ان کو داخل کر دیا گیا۔ بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد میں چینی طلبا امریکی جامعات میں آنا شروع ہو گئے۔ اندازہ ہے کہ اب بھی ہر سال ایک لاکھ کے لگ بھگ چینی طلبا امریکہ جاتے ہیں۔ وسائل بڑھے تو چین نے اپنے تعلیمی شعبے کو بھی جدید بنا لیا۔ سائنسی تعلیم بڑھی تو باہر کی سرمایہ کار کمپنیوں کو باہنر‘ مستعد‘ قابل اور منظم کارکن کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔
اب تو امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کی کئی جامعات نے چین کے مختلف صوبوں میں اپنے کیمپس تعمیر کر لیے ہیں۔ اساتذہ وہ اپنے ملکوں سے لے جاتے ہیں‘ اور دیگر ملکوں سے بھی کہ تقرریاں بین الاقوامی مقابلے کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین کی اپنی جامعات کا معیار بلند ہونے لگا۔ ہمارے ملک میں نہ کچھ امریکہ کے بارے میں معلوم ہے‘ نہ چین کے بارے میں۔ سب نے مفروضے گھڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ دنیا کے طاقتور ملک کے طور پر صرف معاشی ترقی اور فوجی استعداد کے سہارے نہیں ابھرا‘ اس کی تہہ میں معیاری‘ سرکاری تعلیمی نظام ہے۔ ہائی سکول تک تعلیم مقامی اداروں کے سپرد ہے اور مفت۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ تعینات کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ریاستی اور نجی جامعات ہیں۔ زیادہ تر بلکہ غالب اکثریت ریاستی جامعات کی ہے‘ اور جو نجی ہیں‘جیسے کولمبیا‘ ہارورڈ یا پرنسٹن‘ وہ وقف ادارے ہیں۔ کوئی ان سے کمائی نہیں کرتا‘ بلکہ ان کے فارغ التحصیل عملی زندگی میں کامیاب ہو جائیں تو اپنی دولت کا کثیر حصہ ان جامعات کے حوالے کر دیتے ہیں کہ جس چراغ نے انہیں روشنی بخشی‘ وہ جلتا رہے‘ دائم روشن رہے‘ اور وہ اپنے حصے کا روغن اس میں ڈال کر گزر جائیں۔
سوچتا ہوں کہ وقت کے دھارے نے ہمارے اوپر کیسے لوگوں کو حکمرانوں بنایا ہے؟ جتنا ان کے بارے میں جانکاری کرتا ہوں‘ اتنا ہی خوف آتا ہے اور ترس بھی۔ خوف اس بات کا کہ مزید تباہی لا سکتے ہیں‘ اور ترس اس بات پر کہ رازِ زندگی کا سراغ کبھی نہ پا سکیں گے۔ دیکھتے نہیں کہ انکے بچے کن سکولوں میں پڑھتے اور کن غیرملکی جامعات میں تعلیم حاصل کرتے‘ اور ہمارے اوپر حکومت کرتے ہیں۔ غریبوں کے بھی خواب ہیں‘ ترقی کے‘ آسودگی کے‘ مہذب اور خوشحال زندگی کے۔ ریاستیں‘ مملکتیں اور حکومتیں سب کیلئے بنتی ہیں‘ صرف خواص کیلئے نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ تعلیم کو لازمی‘ معیاری اور سب کیلئے عام کیا جائے۔ اس سے بڑی سرمایہ کاری‘ تجارت اور ترقی کا راستہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ جادو کی چھڑی ہاتھ لگ جائے تو تقدیریں بدلنے میں کیا دیر ہو گی؟