تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     18-06-2021

They are Us

جی ہاں! اس کرۂ ارض پر آج ایسے بھی حکمران ہیں جو نہ تو ریاست مدینہ کے نام لیوا ہیں اور نہ ہی وہ دولتِ ایمان سے مالا مال ہیں مگر انسانیت کے لیے اُن کی ہمدردی، دردمندی اور غمگساری ہمارے دلوں میں ریاست مدینہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ یہ وہ حکمران ہیں جو اپنے ملک میں بسنے والے ہر شہری اور رہائشی کے لیے یکساں جذبۂ خدمت و محبت رکھتے ہیں۔ اگر اُن کی سرزمین میں کسی غیرملکی پر کوئی افتاد آپڑتی ہے تو وہ بے حد بے چین و بے قرار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کینیڈا کے صوبے انتاریو کے شہر لندن میں ایک ٹرک ڈرائیور نے ایک فٹ پاتھ پر اپنا تیزرفتار ٹرک چڑھاکر ایک پاکستانی نژاد مسلم فیملی کو کچل کر لقمۂ اجل بنا ڈالا تو اس پر وہاں کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ہائوس آف کامنز میں اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ حادثہ نہیں، بدترین دہشتگردی ہے۔ اس ملزم کے خلاف قتل اور اقدامِ قتل کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ جمعۃ المبارک کو جب ان شہدا کی نمازِ جنازہ لندن انتاریو میں ادا کی گئی تو اس میں مسلمانوں کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے دہشت گردی کے مقام سے لے کر مسجد تک سات کلومیٹر طویل مارچ کیا۔ اس ماتمی مارچ میں ہر مذہب اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے، جو گلدستوں اور پلے کارڈز کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے۔ ایک کارڈ پر جلی الفاظ میں لکھا تھا ''نفرت کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں‘‘۔ ایک اور پلے کارڈ پر درج تھا ''ہمیں نفرت نہیں محبت چاہئے‘‘۔
دہشت گردی کے اس واقعے نے مارچ 2019ء میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر آٹومیٹک ہتھیاروں سے حملے کے سانحے کے اذیت ناک لمحات کو ہمارے دلوں میں ایک بار پھر تازہ کردیا۔ اس واقعے میں ایک دہشت گرد نے 51 نمازیوں کو شہید اور درجنوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ مساجد پر حملہ کرنے والے آسٹریلوی باشندے برینٹن ٹیرنیٹ کے خلاف الزامات ثابت ہونے پر عدالت نے اُسے بغیر پیرول کے عمر قید سنائی جو وہاں کے قانون کے مطابق شدید ترین سزا سمجھی جاتی ہے۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ کی 37 سالہ خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے جس انداز میں مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یکجہتی کیا اس کی ساری دنیا میں بے حد تعریف کی گئی۔ مساجد پر دہشتگردی کے سانحے کی اطلاع ملتے ہی جیسنڈا نے انتہائی افسردگی کے عالم میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پہلا جملہ یہ کہا تھا: They are Us۔ وہ ہم ہی ہیں۔ سانحے سے اگلے روز 16 مارچ کو جیسنڈا آرڈرن نے سیاہ لباس پہن کر اور سر پر اسلامی حجاب اوڑھ کر جس طرح سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے صدقِ دل کے ساتھ اظہارِ تعزیت و ہمدردی کیا اس سے ساری دنیا میں جیسنڈا ایک مقبول رہنما کے طور پر متعارف ہو گئیں۔ مسلم دنیا میں تو بطورِ خاص اُن کی بہت پذیرائی ہوئی۔
گزشتہ تین روز سے اپنی پارلیمنٹ میں ہم لڑائی مارکٹائی سے بھرپور مناظر دیکھ رہے ہیں۔ یقینا یہ مناظر دیکھ کر ہر پاکستانی کا دل میری طرح آزردہ ہوگا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اُن پارلیمانوں کے مناظر بھی دکھائے جائیں جہاں کے حکمران اور سیاستدان ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کے بجائے باہمی یگانگت و مؤدت کی فضا میں اپنی اپنی پارلیمنٹ کی کارروائی چلاتے اور قانون سازی کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہالی ووڈ کے ایک رپورٹر کے حوالے سے یہ خبر ساری دنیا میں سنی گئی کہ جیسنڈا کا سانحۂ کرائسٹ چرچ کے موقع پر کہا ہوا یہ تاریخی جملہ کہ They are Us اس فلم کا ٹائٹل ہوگا‘ جس کی منصوبہ بندی نیوزی لینڈ میں کی جا رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے ایک شہری اینڈریو نکول فلم کا سکرپٹ لکھیں گے اور وہی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیں گے۔
اب آئیے اس اصل بات کی طرف جس کے لیے مجھے یہ طویل پس منظر بیان کرنا پڑا۔ اس مجوزہ فلم کے بارے میں جب یہ سننے میں آیا کہ اس کا فوکس جیسنڈا کی شخصیت اور سانحہ کرائسٹ چرچ کے حوالے سے اُس کا قابل تعریف طرزعمل ہو گا تو اس پر سب سے پہلا ردعمل جیسنڈا کا آیا۔ اس نے واضح طور پر کہا کہ اس فلم میں مرکزی حیثیت دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مسلم کمیونٹی کی ہونی چاہئے۔ جیسنڈا کے دفتر نے سرکاری طور پر وضاحت بھی جاری کی ہے کہ وزیراعظم یا اُن کے دفتر کا اس مجوزہ فلم سے براہِ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں۔ نا صرف وزیراعظم بلکہ نیوزی لینڈ کے شہریوں نے بھی اس فلم کے آئیڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم جیسنڈا نے ہم سب کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا فرضِ منصبی نیک نیتی اور خوش اسلوبی سے نبھایا ہے اس لیے اگر کوئی فلم بنے تو اس فلم کا مرکزومحور مسلمان ہونے چاہئیں۔ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور اُن کی انسان دوستی کا فلم میں تذکرہ ہونا چاہئے۔ نیوزی لینڈ کی مسلم کمیونٹی نے بھی وزیراعظم اور نیوزی لینڈ کے شہریوں کے اس جذبے کو سراہا ہے۔ ایک طرف نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا پبلسٹی سے انکار دیکھئے اور دوسری طرف یہاں حکمرانوں کے رویے دیکھئے کہ وہ اگر حاجت مند کو آٹے کا ایک تھیلا بھی دیتے ہیں یا احساس پروگرام کے تحت چند روپوں کا چیک بھی دیتے ہیں تو اُس کی لائیو پبلسٹی کر کے غربت اور غریب کا مذاق اڑاتے ہیں۔
14 برس نیوزی لینڈ میں ایک طبیب کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایک نوجوان ڈاکٹر احسن ارشد سے صرف دو روز قبل ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے وہاں کی وزیراعظم اور عوام کے بارے میں کئی سوالات کیے۔ نوجوان ڈاکٹر نے کہاکہ فی الواقع نیوزی لینڈ کے لوگ اور وہاں کی وزیراعظم یک جان سو قالب ہیں۔ ڈاکٹر احسن نے بتایا کہ 2019ء میں سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد غم کی اس گھڑی میں نیوزی لینڈ کی ساری قوم نے اپنی وزیراعظم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ساتھ سچا اظہارِ یکجہتی و ہمدردی کیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کینیڈا کے صوبے انتاریو میں دہشت گردی کے انتہائی افسوس ناک واقعے کے حوالے سے اسلاموفوبیا کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں نفرت کے جذبات کے خلاف ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائیں گے۔
جناب عمران خان نے جنوری 2021ء کے پہلے ہفتے میں ہزارہ کمیونٹی کے کان کنوں کے بہیمانہ قتل کے بعد مقتولین کے لواحقین کے ساتھ اُس وقت تک کوئٹہ جاکر اظہارِ ہمدردی سے انکار کردیا جب تک وہ اپنی میتوں کو دفنا نہیں لیتے کہ مرنے والوں کی جلد تدفین کا حکم ہے۔ کئی روز تک ہزارہ کمیونٹی وزیر اعظم کی راہ تکتی رہی مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ دنیا ہمارے قول و فعل کے تضاد کو اچھی طرح نظر میں رکھتی ہے اسی لیے ہماری آواز میں اثر نہیں ہوتا۔ میں نے نیوزی لینڈ سے واپس وطن آنے والے ڈاکٹر ارشد سے پوچھاکہ اس قوم کا نمایاں ترین وصف کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے صرف ایک لفظ کہا Ownership۔ اس قوم کا کوئی فرد چاہے چرواہا ہو یا زمیندار ہو، صنعتکار ہو یا مزدور ہو، وہ حکومت کا عام اہلکار ہو یا وزیراعظم ہو، سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اُن کا اپنا ہے۔ اِس ملک کی اقدار، روایات اور املاک کا تحفظ ہر شہری اپنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہے۔جیسنڈا نے جب یہ کہا تھا کہ They are Us تب یہ الفاظ اس کی زبان اور روح دونوں سے بیک وقت ادا ہوئے تھے۔ اس ٹائٹل کے ساتھ یہ فلم ضرور بننی چاہئے۔ بلاشبہ اس فلم کا مرکز و محور تو مسلم کمیونٹی ہی ہونی چاہئے مگر دکھ کی گھڑی میں جیسنڈا نے جس صدقِ دل سے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا تھا اس کو بھی بہت اجاگر کیا جانا چاہئے تاکہ اس کی مثال سے مغربی دنیا کے حکمران بالعموم اور مسلم حکمران بالخصوص کوئی سبق سیکھ سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved