جلی حروف سے لکھا کلمہ طیبہ پارلیمان کی عمارت کی شان اور اس بات کی علامت ہے کہ یہ ایک مسلم ملک کی اسمبلی ہے جہاں عوام کے نمائندے عوام کیلئے قانون سازی کرتے ہیں؛ تاہم ممبران اکثرمعاشرتی و سماجی حدود کو پھلانگتے ہوئے وہ کچھ کرجاتے ہیں کہ تہذیب شرما جائے۔ گالی گلوچ‘ لڑائی جھگڑا کرتے‘ ایک دوسرے کو الزامات‘ طعنے‘ دیتے اور باہم دست و گربیاں ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ لائیو میڈیا اور سوشل میڈیا پر نشر ہورہا ہوتا ہے۔ کیا کبھی انہوں نے سوچا ہے کہ ہماری نئی نسل کا اس پر کیا اثر پڑے گا؟ وہ ایک دوسرے کو مارتے ہیں‘ ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں‘ آوازے کستے ہیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو چیزیں اٹھا کر مارتے ہیں اور باہر آ کر میڈیا ٹاک میں بھی ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالتے ہیں۔ پہلے یہ سلسلہ پارلیمان تک محدود رہتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ ٹی وی اور سوشل میڈیا تک پہنچ چکا ہے۔ جو جھگڑا پارلیمان میں ہوتا ہے‘ فالورز اور کارکنان سے ہوتا ہوا گلی محلوں تک پہنچ جاتا ہے جس سے لڑائی تھمنے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسمبلی میں ایک یا دو لوگ لڑتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر یہ لڑائی ہزاروں لوگوں پر مشتمل ہو جاتی ہے اور اگر یہ مسئلہ آمنے سامنے ہوجائے تو پھر نوبت تھانہ کچہری تک پہنچ جاتی ہے۔
میں بہت چھوٹی تھی جب ایوان میں صدر غلام اسحاق خان کے خلاف ''گو بابا گو‘‘ کے نعروں کی گونج سنی۔ اس وقت یہ سب کچھ ٹی وی پر تو نشر نہیں ہوتا تھا لیکن اخبارات میں ضرور شائع ہوتا تھا۔ مجھے اس وقت اخبار پڑھنا نہیں آتا تھا لیکن ابو اکثر اونچی آواز میں خبریں پڑھا کرتے تھے، یوں اپنا ہوم ورک کرتے ہوئے کچھ چیزیں میری یادداشت پر نقش ہو گئیں۔ اس کے بعد تہمینہ دولتانہ کو احتجاج کرتے ہوئے ٹی وی پر دیکھا‘ اس وقت ٹی وی میڈیا تھوڑا سا آزاد ہوچکا تھا۔ انہوں نے جب چوڑیاں صدر فاروق لغاری کی طرف اچھالی تھیں تو یہ منظر ٹی وی پر بار ہا دکھایا گیا۔ اس کے بعد کچھ اجلاسوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی آپس میں گتھم گتھا ہوئے۔ اسی طرح شہباز شریف کی ایک لڑائی کا منظر آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ اس کے بعد لڑائی جھگڑے کے ایسے مناظر ہم نے پرویز مشرف کے دور میں بھی دیکھے کہ کس طرح ذرا سی بات پر ارکانِ اسمبلی ایک دوسرے سے بھڑنا شروع ہوجاتے تھے اور بات گالی گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی تھی۔
جب میں نے 2008ء میں دورانِ رپورٹنگ پارلیمنٹ کور کرنا شروع کی تو یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا؛ بے ہنگم پروٹوکول، لاتعداد گارڈز، سیاست دانوں کی لڑائیاں، نازیبا زبان اور مارکٹائی۔ جب کسی مشترکہ اجلاس میں کوئی باہر کے ملک کی شخصیت آئی ہوتی تھی تو ہمیں اطمینان ہوتا تھا کہ آج سب خیریت رہے گی۔ ایک بار اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے گیٹ نمبر ون سے آنا تھا‘ ان کے پروٹوکول گارڈز نے صحافیوں کو گالیاں اور دھکے دیے‘ خواتین صحافیوں کو بھی دھکے لگے۔ جس وقت وزیراعظم آئے تو ہم سب نے احتجاج کیا کہ اگر پارلیمان میں بھی آپ کو سکیورٹی کی ضرورت ہے اور آپ کا سکیورٹی سٹاف صحافیوں سے بدتمیزی کررہا ہے تو آپ عوام کی کیا حفاطت کریں گے۔ ایک بار نواز شریف صاحب تشریف لائے تو اچانک کچھ ایسی صورتحال ہوئی کہ تنائو پیدا ہو گیا۔ اس روز بھی سیاسی لڑائی میں ہم رپورٹرز کو خاصے دھکے دیے گئے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یوں جاہ وجلال کے ساتھ آنے والوں کے آگے مائیک نہیں کریں گے‘ جس نے میڈیا سے بات کرنا ہو گی‘ وہ خود ڈائس پر آ کر بات کرے گا تاکہ رپورٹرز ان کے گارڈز اور کارکنان کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔ آف دی فلور جھگڑوں کے علاوہ کئی آن دی فلور جھگڑے بھی دیکھنے کو ملے۔ چند مواقع پر ارکان کو ایک دوسرے کو پیٹتے بھی دیکھا، کچھ ایسی گالیاں دیتے بھی سنا جو میں نے پہلی بار سنی تھیں۔
یہ سب کچھ صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوتا‘ بھارت، بولیویا،یوگنڈا، یوکرائن، جارجیا، جنوبی افریقہ،تائیوان اور نیپال سمیت کئی ممالک کی پارلیمان میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ ارکان آپس میں لڑ پڑے‘ ایک دوسرے کو مارا پیٹا لیکن ہمارے ہاں غصہ اور نفرت بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ تھوڑا پیچھے جائیں تو خواجہ آصف نے شیریں مزاری کے حوالے سے غلط باتیں کی تھیں‘ قادر پٹیل نے مراد سعید کی کردار کشی کی تھی۔ 2019ء میں بھی پارلیمان میں شدید لڑائی ہوئی تھی، مرحوم مشاہداللہ نے فواد چودھری کے بارے میں قابلِ اعتراض جملے کہے تھے جس کے بعد ایوان کشتی کا اکھاڑہ بن گیا تھا۔ اب بھی ہر روز لڑائی کا کوئی نیا ایشو تیارہوتا ہے۔ عدم برداشت‘ غصہ اور نفرت بڑھتے جارہے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی کسی سے ٹی وی ٹاک شو، پارلیمنٹ کے باہر یا سوشل میڈیا پر الجھ پڑتا ہے۔ کچھ جھگڑتے ہیں‘ کچھ تماشائی بن کر دیکھتے ہیں اور کچھ تو لڑائی میں کود جاتے ہیں۔ جو کچھ اسمبلی میں دورانِ بجٹ سیشن ہوا‘ وہ بہت افسوسناک ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی‘ اتنا شور تھا کہ مجھے بجٹ کے پوائنٹس لینے میں مشکل ہورہی تھی۔ نعرے‘ چیخیں‘ سیٹیاں اور مسلسل ڈیسک بجا کر معزز ایوان کو مچھلی منڈی بنا رکھا تھا۔ اس کے بعد حزبِ اختلاف کے رہنما شہباز شریف کی تقریر کے دوران بھی یہی کچھ ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جیسا معاشرہ ہوگا‘ جیسے لیڈران ہوں گے‘ عوام بھی ویسے ہی ہوں گے۔ بجٹ کی تقریر کے دوران اپوزیشن شور کرتی رہی اور حکومتی ارکان ان سے لڑتے رہے۔ عدم برداشت کا مزید مظاہرہ اس وقت دیکھا جب مسلم لیگ ن کے روحیل اصغر اور تحریک انصاف کے علی نواز اعوان کے درمیان ہونے والی لڑائی نے پوری اسمبلی کو اکھاڑے میں تبدیل کردیا۔ ہر طرف لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ کے مناظر تھے۔
پہلے ایک دوسرے کو نازیبا کلمات کہے گئے‘ پھر دست درازی شروع ہوگئی۔ علی گوہر بلوچ نے ایسے نعرے لگائے جو تمام پارلیمانی اقدار کو پسِ پشت ڈال گئے۔ بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کو ماری گئیں اور شوروغل جاری رہا۔ اس دوران تحریک انصاف کی رکن ملیکہ بخاری کو آنکھ پر چوٹ لگی اور وہ تکلیف سے نڈھال ہو گئیں۔ یہ بہت افسوسناک رویہ ہے جو تین دن تک اسمبلی میں اپنایا گیا۔ اس کا فوری سدباب کرنا ہوگا۔ارکان خود اس مسئلے کا حل نکالیں۔ میرے نزدیک جو رکن کسی دوسرے کو فلور پر گالی دے‘ اس کو ایک ماہ کیلئے تنخواہ و مراعات سے محروم کرتے ہوئے اس کی اسمبلی کی رکنیت معطل کردینی چاہیے۔ جو مار پیٹ کرے‘ اس کو تین ماہ کیلئے معطل کردینا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس طرح کے سیاست دانوں کے ٹاک شوز میں آنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے‘ اس سے امید ہے کہ بہت جلدی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
جب یہ سب ہورہا تھا تو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام نظر آئے۔ بدھ کے روز اجلاس میں اکرم چیمہ آنکھ پر بوتل لگنے سے زخمی ہوگئے تھے۔ ملیکہ بخاری آنکھ پر پٹی کے ساتھ اجلاس میں آئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ پارلیمان میں ہوا وہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ہم دلائل سے پارلیمان میں بات کریں گے انہوں نے مسلم لیگ نواز کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ یہی سب کچھ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی کرچکی ہے۔ دوسری طرف مریم اورنگزیب نے سارا ملبہ حکومت پر گرا دیا اور کہا کہ یہ اپوزیشن پر نہیں‘ پارلیمان پر حملہ ہے۔
جو بھی ہو اس مسئلے کا حل خود سیاست دانوں نے نکالنا ہے۔ لاکھوں ووٹ لے کر آنے والے نمائندگان کو تمیز‘ تہذیب اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بدتمیزی کرنے والے اراکین کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا نہ ہو سکے۔شیخ روحیل اصغر نے گالی کو پنجاب کا کلچر قرار دے دیا‘ اس پر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ یہ آپ کا کلچر ہوسکتا ہے لیکن پورے پنجاب کو بدنام مت کریں۔ بدھ کے روز سات ارکان کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تھی جسے جمعرات کے روز ختم کر دیا گیا۔ دوسری طرف اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کے بعد اب سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لارہی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں واضح ہو گا کہ حالات کس رخ کروٹ لیتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ سیاسی جھمیلوں میں ہمارے رہنما شاید یہ بھول گئے ہیں کہ کورونا میں مبتلا قوم شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔