تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     19-06-2021

فلپائن کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے استفادہ کیا جائے

پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم کی ہدایت اور خواہش کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی تیاری اور خریداری پر کام جاری ہے اور قومی اسمبلی میں 10 جون کو پارلیمنٹ کی روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 49 شقیں تبدیل کر کے الیکشن کمیشن کا بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت کے مابین بجٹ اجلاس کی شدید ہنگامہ آرائی میں اس بل سے پیدا ہونے والی بد مزگی کا بھی اثر ہے۔ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن کی جانب سے تاحال الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چند ممالک میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے کرائے جاتے ہیں جن پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے‘ ان میں فلپائن، بھارت اور تھائی لینڈ قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تحت ناممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے قانون سازی کا مرحلہ باقی ہے۔ اگر چار ماہ کے اندر یہ مرحلہ طے نہ ہوا تو پھر وقت کی کمی کے پیش نظر یہ پروجیکٹ ناقابلِ عمل ہو جائے گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خرید، تربیت، عوام میں آگاہی، ٹیکنالوجی کے ماہرین اور پولنگ عملہ کی جدید طرز پر تربیت کیلئے الیکشن کمیشن نے ایک کھرب سے زائد کے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہوا ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ صدر مملکت سے مشاورت کرکے فلپائن کے ووٹنگ سسٹم کو بروئے کار لائیں۔ ڈاکٹر علوی نے غالباً 2016ء میں فلپائن کا دورہ کیا تھا اور فلپائن کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ تیار کی تھی۔ صدر مملکت کے مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی میں فلپائن کے سسٹم کو پاکستان میں اپنانے کیلئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ماہرین کا وفد فلپائن بھیجا جائے تاکہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے۔ وفد میں اپوزیشن اور حکومت کے نمائندگان کو بھی شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کے لیے وزیر اعظم کو جو خط لکھا گیا تھا وہ موجودہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہو چکا ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر نے بھی اس میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے سسٹم کے بارے میں جو دستاویزات بھجوائی گئی تھیں وہ بھی عدم توجہی کا شکار ہو گئی ہیں۔ حکومتی وزرا نے بلاوجہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو متنازع بنا دیا اور وزیراعظم پاکستان گزشتہ دو ماہ سے جس انداز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خوبیاں بیان کر رہے ہیں اس سے اپوزیشن الرٹ ہو گئی اور جس طرح جولائی 2018ء میں آرٹی ایس کا سسٹم فلاپ ہو گیا تھا اپوزیشن نے اسی تناظر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں بھی اپنی رائے قائم کر رکھی ہے؛ حالانکہ اگر صدر عارف علوی کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاتا تو فلپائن وفد بھیجا جا سکتا تھا جس کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم بھارت سمیت باقی ملکوں سے بہتر ہیں ۔ جبکہ اس معاملے میں قانون سازی اسی طرز پر کی جائے جیسا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ریمارکس اور فیصلے کی روشنی میں 1990ء میں کروائی تھی۔
ووٹنگ کے عمل میں الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت آگے بڑھنا ہے جس میں شفافیت اور رازداری سب سے اہم ہے۔ بعض وفاقی وزراء الیکشن کمیشن سے بلاوجہ محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو انکے اپنی سیٹوں سے محروم ہونے کا خطرہ ہے اور الیکشن کمیشن کی دفعہ 10 واضح ہے ۔الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ (ترمیمی بل) کی 22کے لگ بھگ شقوں کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دے کر حکومت کے آئینی ماہرین کی قابلیت کا بھرم کھول دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مذکورہ ترامیم پر اسکے موقف کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں زیربحث نہیں لایا گیا۔ الیکشن ایکٹ (ترمیمی بل 2020ء) میں بعض ترامیم کو الیکشن کمیشن آئین سے متصادم تصور کرتا ہے جس میں سرفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظرثانی کے اختیارات ہیں جو آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے فرائض میں شامل ہیں۔ آرٹیکل 222کے تحت ان اختیارات کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں کمی کی جا سکتی ہے‘ جبکہ مذکورہ ترمیمی بل کے ذریعے متعلقہ دفعات کو حذف کر دیا گیا ہے جس سے انتخابی فہرستوں پر نظرثانی الیکشن کمیشن کیلئے ناممکن ہو جائے گی۔ مجوزہ ترمیمی بل 2020ء کے سیکشن 17 کے تحت حلقہ بندیاں آبادی کے بجائے ووٹرز کی بنیاد پر کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کو آبادی کی بنیاد پرطے کیا جاتا ہے۔ مزید برآں الیکشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 122 میں مجوزہ ترمیم میں سینیٹ کے الیکشن میں ووٹنگ کو خفیہ کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کا کہا گیا ہے جو صدارتی ریفرنس میں عدالتی رائے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح انٹرنیٹ ووٹنگ برائے سمندر پار پاکستانیز اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے امور بھی آئین کی روشنی میں دیکھنا ہوں گے۔
انتخابی فہرستوں میں اموات کی متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو بھجوائی جاتی ہیں اور حال ہی میں 200افراد کی فہرست جن کی موت ہو چکی ہے الیکشن کمیشن کو بھجوائی گئی اور جب الیکشن کمیشن نے قانون اور رولز کے مطابق اپنے متعلقہ رجسٹریشن افسران سے تصدیق کروائی تو حیران کن نتائج سامنے آئے۔ دو سو افراد کی اموات کا سرٹیفکیٹ جاری ہو چکا تھا اور جب الیکشن کمیشن کا عملہ انکے گھر تصدیق کرنے گیا تو وہ سب زندہ تھے۔ ان کے ورثا نے موروثی جائیداد حاصل کرنے کیلئے ان کی اموات کی اطلاع نادرا کو بھجوا دی تھی۔میری رائے میں نادرا کے ہاں چونکہ جانچ پڑتال کا نظام نہیں لہٰذا ایسی کارروائی معمول کا حصہ ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کے ہاں فعال سسٹم موجود ہے۔ اب ترمیمی بل میں یہ تمام اختیارات نادرا کو تفویض کر دیے گئے ہیں اور الیکشن ایکٹ 2017ء سے انتخابی فہرستوں کے حوالہ سے تمام شقوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اختیارات نادرا کو منتقل کرنے سے الیکشن کمیشن بے اختیار اور انتخابی فرائض کی انجام دہی میں کمزور ہو جائے گا۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کو انکوائری کمیٹی تشکیل دینی چاہیے کہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن کمیشن کی رائے پر کیوںبحث نہیں کی حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریری طور پر بتایا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کا سیکشن 17، 21، 24، 25، 26، 34، 44، 95، 104 اور 231آئین کی خلاف ورزی ہے۔الیکشن کمیشن کی رائے پر غور کیے بغیر حکومت یہ ترامیم کمیٹی سے کلیئر کرائیں اور اس کے بعد اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت نے ان ترامیم کو قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا۔ حکومت کے ماہرین نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 95 (5) میں بھی ترامیم کیں جن میں کہا گیا ہے کہ کامیاب امیدوار کے نام کا گزٹ کرنے سے قبل الیکشن کمیشن ریٹرننگ آفیسر کو ایک یا ایک سے زائد پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کی دوبارہ گنتی کی ہدایت دے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس ترمیم کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا ہے کیونکہ اس طرح 14 روز کے اندر تمام نشستوں کا گزٹ نوٹیفکیشن کا آئینی عمل رک جائے گا جو آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہوگا۔ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں میں الیکشن کے تین دن بعد ترمیمی فہرست فراہم کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن آئین کے تحت فائنل گزٹ کا اعلان نہیں کر پائے گا اور شکوک ہیں کہ کرپشن کا دروازہ کھل جائے گا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کی ترمیمی فہرست الیکشن کے بعد پیش کرنا آئین کے آرٹیکل 224 کے خلاف ہے۔ بادی النظر میں قانونی ماہرین نے وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کے آئینی و قانونی اعتراضات کے بارے میں بریف نہیں کیا اور آئینی حقائق سے پوشیدہ رکھنے کی پراسرار طریقے سے کارروائی کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved