تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     11-07-2013

عوام کا احساس صرف رمضان المبار ک میں ہی کیوں ؟

پرانے وقتوں میں گلیوں میں آوازیں لگاتے ہوئے قلعی گر دکھائی دیتے تھے۔ بھانڈے قلعی کرالو۔ باورچی خانوں میں ، جتی عورتیں، آوازسنتے ہی، کالے، بھدے رنگ کے کانسی اور پیتل کے برتن اٹھائے قلعی گر کو آواز دیتیں ،بھائی !ذرا ان برتنوں کو قلعی کردو۔ قلعی گر اپنا سائیکل روکتا۔ اور وہیں گلی کے ایک کونے پر بیٹھ کر برتنوں کو چمکانے کا کاروبار شروع کردیتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بدرنگ برتن ایسے چمک اٹھتے جیسے ابھی ابھی اجلی چاندی ان میں انڈیلی گئی ہو۔ اب قلعی گر نظر نہیں آتے ۔ جہاں بہت سارے پیشے متروک ہوگئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد جب ہوتی ہے تو پتہ نہیں کیوں مجھے ایک ایسا قلعی گر یاد آجاتا ہے جس کی آواز بچپن میں میں نے بھی سنی تھی ۔ لگتا ہے یہ ماہ مبارک بھی ایک قلعی گر کی طرح آوازیں لگاتا گلیوں، گلیوں گھومتا ہے ۔ کہ روح کے برتن قلعی کرالو۔ احساس ، سوچ اور روح کے پیالوں پر جوزنگ لگا ہے اسے صاف کرالو۔ رمضان المبارک دراصل ، روح کا زنگ اتارنے کا مہینہ ہے۔ ایک تربیت ایک کڑی پریکٹس تاکہ اس تربیت کو لے کر اگلے سارے موسم گزارے جائیں ۔ جو اس مہینے کا سبق ہے۔ اسے دہراتے رہنا چاہیے۔ ہرسال یہ تربیتی مہینہ آتا ہے ، اور صرف ایک ماہ کے لیے، ہم سب اپنی روٹین بدل لیتے ہیں۔ نماز پڑھنے میں زیادہ باقاعدگی آجاتی ہے۔ جو لوگ پہلے نماز پڑھنے میں کوتاہی کرتے تھے وہ بھی مسجدوں کی طرف جانے لگتے ہیں۔ صدقہ وخیرات میں بھی لوگ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران سستے بازار لگائے جاتے ہیں تاکہ عوام اپنی جیب کے مطابق خریداری کرسکیں ، سستے آٹے کے ٹرک رمضان بازاروں میں کھڑے نظرآتے ہیں،سنگدل سے سنگدل حکومت کو بھی رمضان المبارک میں خیال آتا ہے کہ غریبوں کو بھی پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کھانا ہوتی ہے، زندگی گزارنے کے لیے ان کی بھی ضروریات ہیں۔ سورمضان کا مہینہ آتے ہی غریب شہر کی بھی قسمت کھل جاتی ہے۔ ملک بھر میں سستے رمضان بازار لگائے جائیں گے صرف پنجاب میں ساڑھے تین سو بازار سستی ضروریات زندگی مہیا کریں گے، آٹے پر 14ارب کی سبسڈی دی گئی ہے۔ اخبارات میں لاکھوں روپوں کے اشتہارات صرف یہ بتانے کے لیے لگائے جارہے ہیں کہ حکومت نے دریا دلی کا مظاہرہ کرکے بازار کی نسبت اشیاء پر کتنے فیصد رعایت دی ہے۔ اور تو اور وزیرخزانہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ سحری اور افطاری کے دوران لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، بستیاں روشن رہیں گی۔ یعنی ہرطرف سے عوام کو آرام ہی آرام، سہولت ہی سہولت میسر آئے گی۔ غریب کو سستا آٹا ملے گا۔ رمضان بازار سے وہ بھی سستا پھل خرید کر کھائے گا۔ مگر اس خواب جیسی زندگی کا دورانیہ صرف ایک ماہ ہوگا۔ رمضان المبارک کے گزرتے ہی قیمتیں اپنی پرانی بلندی کو چھونے لگیں گی ۔ پھلوں کے نرخ غریب شہر کو قریب نہیں بھٹکنے دیں گے۔ آٹے دال جیسی بنیادی ضروریات زندگی بھی غریب کی جیب پر بھاری ہوگی۔ حکومت صرف ایک ماہ کے لیے غریبوں کا احساس کرکے پھر اپنی اہم ترین مصروفیات اور دوسرے اہم ایشوز ، میں مصروف ہوجائے گی۔ اور غریب شہر پھر ایک جہد مسلسل کی سی زندگی گزارے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا غریبوں کو بھوک پیاس صرف رمضان کے مہینے میں ہی لگتی ہے باقی کے گیارہ مہینے انہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارنے ہیں۔ یا باقی ماندہ مہینوں میں ان کی ضروریات زندگی سوئی رہتی ہیں۔ غریب کے لیے سستا آٹا، سستی روٹی، سستے پھل ، اور گوشت صرف سال کے ایک مہینے میں کیوں۔؟ حکمرانوں کا یہ اولین فرض ہے کہ ملک کے ہرشہری کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرے۔ اگر رمضان المبارک میں پرائس مجسٹریٹ کو الرٹ کردیا جاتا ہے کہ وہ قیمتوں پر نظر رکھیں۔ سستے بازاروں میں موجود رہ کر عوام کی شکایات کا ازالہ کریں تو باقی کے گیارہ مہینے کیا ان کو اپنے فرائض فراموش کردینے چاہئیں۔ یا رمضان کے علاوہ ان پر جائز ہے کہ وہ دکان داروں کے ساتھ مک مکا کرکے، انہیں اپنی مرضی کے نرخوں پر اشیاء فروخت کرنے کی کھلی چھٹی دے دیں۔ عوام کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے حکومت رمضان المبارک کے آتے ہی ہلکان ہونے لگتی ہے، اپنے تمام تروسائل سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بنانے پر لگاتی ہے۔ یا پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور افسران کو جگاکر چوکنا کرتی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو سہولت دینے کا جوبنیادی نظام ہے اس میں کس قدر خامیاں موجود ہیں۔ اشیا کی خریدوفروخت کے سسٹم پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ دکاندار اپنے من مانے نرخ وصول کرتے ہیں۔ مصنوعی مہنگائی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں سفید پوش، اورغریب طبقہ بازار جاکر صرف پریشانیاں اور ذہنی دبائو خرید سکتا ہے۔ پھل گوشت، دودھ، اس کی قوت خرید سے باہر ہوتا ہے ،حکومت کو چاہیے کہ مہنگی زندگی کے اس دور میں غریب عوام کو بھی جینے کا حق دیں۔ بنیادی ضروریات زندگی پر سبسڈی صرف رمضان المبارک تک ہی محدود نہ رکھیں سال کے باقی مہینوں میں یہ سہولت غریبوں سے نہیں چھیننی چاہیے۔ مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کا مضبوط اور مربوط نظام بنایا جائے۔ پرائس کنٹرول کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو اپنے فرائض کی دیانتدارانہ بجا آوری پر انعامات دیئے جائیں اور رشوت لینے کی صورت میں سزا کا نظام موجود ہو۔ گزارش ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اہل اقتدار کے دل میں غریب شہر کے لیے جو احساس جاگتا ہے، وہ تمام سال بیدار رہنا چاہیے۔ اگر یوٹیلیٹی سٹورز پر حکومت نے اشیا پر سبسڈی دی ہے تو، یوٹیلیٹی سٹورز کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ لوگ قطاروں میں دھکے نہ کھائیں، ان کی عزت نفس محفوظ رہے۔ اس کے ساتھ اشیاء کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ ہماری انفرادی دیانت، سخاوت، ایثار وقربانی صرف ایک مہینے تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے، یہ ماہ مبارک ہماری تربیت کرنے کے لیے آیا ہے۔ ایک قلعی گرکی طرح ہماری روح، ہمارے احساس اور سوچ کے کالے زنگ آلود برتنوں کو قلعی کر کے انہیں چمکاتا ہے۔ مگر ہم اس ماہ مبارک کے رخصت ہوتے ہی، پھر سے اپنی سوچ ، اپنی روح اور احساس کے برتنوں کو خودغرضی اور مفاد پرستی سے زنگ آلود کردیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved