تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-06-2021

سرخیاں، متن، ’’سخن‘‘ اور تازہ غزل

غریب کی جیب خالی، بجٹ جعلی، اس سے
بہتر تو پرانا پاکستان تھا: شہباز شریف
قائد حزبِ اختلاف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبار شریف نے کہا ہے کہ ''غریب کی جیب خالی، بجٹ جعلی، اس سے بہتر تو پرانا پاکستان تھا‘‘ جہاں کم از کم ہماری جیب تو خالی نہیں تھی اور ہمیں بھی اپنی غریبی دور کرنے کا پورا پورا حق حاصل تھا کیونکہ ہماری طبع بھی غریب تھی جبکہ غریب اور امیر کا نظام قدرت کا پیدا کردہ ہے جس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا اسی لیے امیر ہو کر بھی سوچ کو غریب ہی رکھا گیا؛ چنانچہ اس نظام کو بدلنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی اور نہ یہ ہمارے بس کا روگ ہے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
ترقی کیلئے خواتین کو معیشت میں شامل کرنا ضروری : شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ترقی کے لیے خواتین کو ملک کی معیشت میں شامل کرنا ضروری ہوگا‘‘ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ بچیاں ادھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈگریاں حاصل کرتی ہیں اور اِدھر ان کی شادی کر دی جاتی ہے اور وہ اپنے شوہر اور بچوں ہی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور اس طرح انہیں ملکی معیشت میں شامل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
شہباز نے مگر مچھ کے آنسو بہائے، قوم ہنستی رہی: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف نے مگر مچھ کے آنسو بہائے، قوم ہنستی رہی‘‘ حالانکہ آدمی کو اپنا کام کرنا چاہیے اور جانوروں کو ان کا کام کرنے دینا چاہیے جبکہ یہ مگر مچھ کے ساتھ زیادتی بھی ہے کیونکہ اس کے سارے آنسو تو موصوف نے بہا دیے، اب اگر وہ خود اپنے آنسو بہانا چاہے تو کیا کرے گا جبکہ مگر مچھ نے کبھی انسان کے آنسو نہیں بہائے۔ دوسروں کا حق غصب کرنا ایک نامناسب فعل ہے، چنانچہ اگر اور نہیں تو شہباز شریف کے خلاف اس حوالے سے تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں معمول کا ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
شفقت محمود وزیر تعلیم ہو کر کتابیں مار رہے تھے: ناز بلوچ
پیپلز پارٹی کی رہنما ناز بلوچ نے کہا ہے کہ ''شفقت محمود وزیر تعلیم ہو کر کتابیں مار رہے تھے‘‘ اور جس کا مطلب ہے کہ طلبہ امتحان میں سوالات حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو کتابیں مارتے رہیں جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں ہو گا کیونکہ اگر طلبہ ایک دوسرے کو کتابیں مارتے رہیں گے تو نقل کس وقت کریں گے اور لگتا ہے کہ ہمارا سارا نظامِ تعلیم ہی اس بنیاد پر چل رہا ہے جس سے ممتحن حضرات کے لیے اضافی آمدنی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور جو کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں جو تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ ہر امتحان کے بعد طلبہ کو نئے سرے سے کتابیں خریدنا پڑیں گی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
وزیراعظم تصورِ خودی سے پاکستان کا وقار بحال کر رہے : فیاض
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان اقبال کے تصورِ خودی سے پاکستان کا وقار بحال کر رہے ہیں‘‘ اور معمارِ ملت علامہ اقبالؒ کی تعلیمات ہی پر زور دے رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنے سوا دُور دُور تک کوئی نظر نہیں آتا اور ہم پورے خلوص سے چاہتے ہیں کہ چاروں طرف وہ خود ہی نظر آئیں اور جیسا وہ سوچتے ہیں، دوسرے بھی اسی طرح سوچنے لگ جائیں اور جب وہ کچھ نہ سوچ رہے ہوں تو اس وقت کوئی اور بھی کچھ نہ سوچے؛ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ کمر توڑ مہنگائی اور بیروزگاری کے باوجود نہ صرف خودی پروان چڑھ رہی ہے بلکہ ملکی وقار بھی تیزی سے بحال ہو رہا ہے۔ آپ ایوانِ اقبال کمپلیکس میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سخن
یہ کتابی سلسلہ معروف ادبی دانشور پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین تسکین کی ادارت میں شائع کیا گیا ہے، افسوس کہ پچھلے دنوں جن کا انتقال ہو گیا اور جن کے سوگ میں فیصل آباد کے سارے بازار بند ہو گئے تھے۔ اس میں سب سے پہلے ڈاکٹر انور محمود خالد کا انٹرویو ہے۔ صاحبِ گوشہ حضرات میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، یہ خاکسار، پروفیسر قمر صدیقی، ارشد جاوید، ڈاکٹر سعدیہ بشیر، سعید خان (آسٹریلیا)، اصغر علی بلوچ، کاشف حسین غائر، مبشر سعید، عطا الرحمن قاضی، محمد افضل خاکسار، ثناء اللہ ظہیر شامل ہیں۔ مضمون نگاروں میں سیفی سرونجی، ریاض توحید کشمیری،عکسی مفتی، نسیم شوکت اخگر، ڈاکٹر شاہد صدیقی، ڈاکٹر خرم علیم، تسلیم الٰہی، ڈاکٹر عبدالعزیز ملک، سعود احمد، اسد مصطفی، سید تجمل گیلانی، سید علی محسن، سہیل احمد صدیقی، فیروز مظفر، عمران عاکف خان، مجاہد حسین، حکیم وسیم احمد اعظمی اور محسن نقی شامل ہیں۔ افسانہ نگاروں میں رشید امجد‘ جو حال ہی میں مرحوم ہو گئے‘ اور شاہد جمیل ہیں جبکہ یادِ رفتگاں میں عبیر ابو ذری کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
عشق جو ایک آزار تھا
کافی تیز بخار تھا
دل کے اندر پری تھی
سر پر بھوت سوار تھا
اس کی راہوں پر ابھی
باقی مرا غبار تھا
آخری بار بھی تھا وہی
وہ جو پہلی بار تھا
کھینچ رہا تھا اپنی سمت
کوئی تو دریا پار تھا
باہر آگ سی لگی ہوئی
اندر ٹھنڈا ٹھار تھا
اچھا ہو گیا آپ ہی
جھوٹ موٹ بیمار تھا
جہاں، جدھر بھی گیا وہ
خود سے ہی دو چار تھا
مرنا تھا آساں ظفرؔ
جینا ہی دشوار تھا
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں‘ ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved