تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     19-06-2021

زبان وبیان…(حصہ سوم)

شَرحِ نُمُوُّ: اس کے معنی ہیں: ''افزائش کی شرح‘‘، اسے انگریزی میں کسی چیز کا ''Growth Rate‘‘ کہتے ہیں۔ لفظِ ''نُمُوّ‘‘ نون اور میم کی پیش اور وائو پر تشدید اور پیش کے ساتھ ہے، ایک ماہرِ معیشت ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے اس لفظ کو ''نَمُوْ‘‘ بول رہے تھے جو درست نہیں ہے۔
عَدُوُّ: لفظِ ''عَدُوُّ‘‘ وائو کی تشدید اور پیش کے ساتھ ہے، اسے اردو میں عام طور پر وائو کے جزم کے ساتھ ''عَدُوْ‘‘ بولتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ فارسی کا مقولہ ہے: ''عدُوّ شرے بر انگیزد کہ خی رمادراں باشد‘‘، یعنی دشمن اپنی طرف سے شر برپا کرتا ہے، لیکن اللہ کے فضل سے اُس میں ہمارے لیے خیر کی صورت نکل آتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''إِنَّ الشَّیْْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْن‘‘، ترجمہ: ''بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘ (یوسف: 5)۔
مَدْعُوّ: یہ عربی کا لفظ ہے اور مفعول کا صیغہ ہے، اس کے معنی ہیں: ''بلایا گیا‘‘ یعنی جسے کسی تقریب یا دعوت میں بلایا گیا ہو، جیسے ''اس تقریب میں صدرِ پاکستان بھی مَدْعُوّ ہیں‘‘، اس سے تقریب کی شان دوبالا کرنی مقصود ہوتی ہے، ہمارے ہاں اُردو میں اسے وائو کے جزم کے ساتھ ''مَدعُوْ‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔
مُدَّعَا: اس کے معنی ہیں: ''مقصود، مقصد، غرض، مطلب، مراد، منشا، خواہش‘‘۔ غالباً اسے ہندی والوں نے عربی سے ''مُھَنَّد‘‘ کر دیا، یعنی ہندی لفظ بنا لیا اور اب ہمارے ہاں کئی لوگ حتیٰ کہ میڈیا والے بھی اسے ''مُدَّا‘‘ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
زبان زدِ خاص وعام: زَد کے معنی ہیں: ''چوٹ، مار، مارا ہوا، (فرہنگ عامرہ)‘‘۔ ''صدمہ، ضرب، (قائد اللغات)‘‘۔ ''زَبان زَد‘‘مرکّب لفظ ہے، ایسے کلمات کو عربی میں ''بتاویلِ مفرد‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی یہ مفرد معنوں میں بولا جاتا ہے اور دال کے نیچے زیر خاص و عام کی طرف اضافت کی علامت ہے، اس کے معنی ہیں: ''ہر ایک کی زبان پر ہونا، مشہور و معروف ہونا، پھیلنا‘‘۔ پس ''زبان زدِ خاص و عام‘‘ کے معنی ہیں: ''وہ بات جو ہر خاص و عام کی زبان پر ہو، یعنی مشہور و معروف ہو‘‘۔ ایک صاحب ''زبان‘‘ کے نون کے نیچے اضافت کی زیر لگا کر ''زبانِ زدِ خاص وعام‘‘ بول رہے تھے، جو درست نہیں ہے۔
سکول، کالج، یونیورسٹی، کیس، چیلنج کو موَرَّد کر لیا گیا ہے، یعنی ان الفاظ کو اردو میں قبول کر لیا گیا ہے، بعض چینلوں پر ٹِکر چل رہے تھے: ''پنجاب میں سکولز اور کالجزکل سے کھل جائیں گے‘‘ اور لکھا تھا: ''اپوزیشن کو کیسز کا سامنا ہے‘‘، نیز لکھا جاتا ہے: ''ہمیں جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہو گا‘‘۔ ہماری نظر میں جب ان الفاظ کو اردو میں قبول کر لیا گیا ہے، تو اردوکی طرز پر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، کیسوں اور چیلنجوں لکھنا اور بولنا چاہیے۔ اطہر ہاشمی صاحب نے یہی لکھا تھا، مجھے اس سے اتفاق ہے۔ لفظِ چیلنج مفرد اور مرکب دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے، مثلاً: ''آج کل نئے نئے چیلنج سامنے آ رہے ہیں‘‘، یعنی اس کی صفت مفرد ہو تو مفرد معنوں میں آئے گا اور صفت جمع ہو تو جمع کے معنی میں آئے گا‘‘۔
اَجمل، اَکمل، اَحسن، اَہم، اعلیٰ، اکبر وغیرہ عربی میں تفضیلِ کُل کے صیغے ہیں، ان کے معنی بالترتیب ''حسین ترین، کامل ترین، حسین ترین، نہایت ضروری، بہت مشکل، بلند ترین اور سب سے بڑا‘‘ ہیں۔ الغرض ان کلمات میں تفضیلِ کُل یعنی Superlative Degree کے معنی موجود ہیں، ہمارے ہاں ان کے ساتھ جو ''ترین‘‘ کی صفت لگائی جاتی ہے، یہ زائد ہے؛ البتہ اسے تاکید کے طور پر لیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ رائج ہوگیا ہے۔
مُتَجَنِّسْ: ٹی وی پر Transgender کے لیے ''مُتَجَنِّس‘‘کا لفظ پہلی بار سننے اور پڑھنے کو ملا، Gender کے معنی تذکیر و تانیث اور نر اور مادہ کے ہیں۔ عربی میں اس کے لیے ''صِنْف‘‘ بھی آتا ہے،''اَلْمُنْجِدْ‘‘ کے انگلش عربک ایڈیشن میں Gender کے معنی ''جنس‘‘ بھی لکھے ہیں، اردو میں بھی جنس استعمال ہوتا ہے۔ اس کی رُو سے ''مُتَجَنِّس‘‘ کے معنی ہوں گے: ''کسی خاص جنس کو اختیار کرنے والا‘‘، کیونکہ Transgender act میں خواجہ سرائوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو جس جنس میں چاہیں شامل کر لیں، یعنی یہ نہیں ہے کہ قدرت نے انہیں کس ساخت پر پیدا کیا ہے، بلکہ یہ اُن کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ہم جولائی2019ء میں ''خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بِل اور مُضمَر خطرات‘‘ کے عنوان سے دو کالم لکھ چکے ہیں؛ تاہم معنوی اعتبار سے ''مُتَجَنِّس‘‘ کی اصطلاح اچھی ہے۔ دراصل یہ بابِ ''تَفَعُّل‘‘ کا صیغہ ہے، اس کی خصوصیت''تکلف کے ساتھ کسی چیز کو اختیار کرنا‘‘ ہے، تکلّف، تصنُّع اور تصوُّف اسی سے آتا ہے۔
مُتَشَاعر: شعر کہنے والے کو ''شاعر‘‘ کہتے ہیں، شعرکی ساخت یا قافیہ بندی اور وزن کی رعایت اُس کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اوزان، بحور اور مضامین میں تنوُّع کے اعتبار سے شاعری کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں، اشعار میں بعض اوقات غُلوّ اور مبالغہ آرائی بھی بہت ہوتی ہے، بعض شعرا کا کلام جنس زدہ ہوتا ہے، بعض کی فکر میں الحاد ہوتا ہے، اسی لیے قرآنِ کریم میں فرمایا: ''شعرا کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘‘ (الشعراء: 224)۔ بعض شعرا کا کلام حکمت و دانش سے مزیّن ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بعض شعروں میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں‘‘ (بخاری: 6145)۔ لیکن متشاعر اُسے کہتے ہیں جو تکلّف کے ساتھ شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے۔
ہِدایت: یہ لفظ ''ہ‘‘ کی زیر کے ساتھ ہے، اس کے معنی ہیں: ''رہنمائی‘‘، اس کی جمع ''ہِدایات‘‘ ہے، کئی حضرات اسے ''ہ‘‘ کی زبر کے ساتھ ''ہَدایات‘‘ پڑھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
مُطِیْعُ اللّٰہ: لفظِ ''مُطِیع‘‘ میم کی پیش کے ساتھ ہے، اس کے معنی ہیں: ''اطاعت کرنے والا‘‘، ''مُطِیْعُ اللّٰہ‘‘ کے معنی ہیں: ''اللہ کی اطاعت کرنے والا‘‘، یہ اچھا بامعنیٰ نام ہے، لیکن نہ جانے کیوں اسے میم کے زبر کے ساتھ ''مَطیع اللہ‘‘ پڑھا اور بولا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
اِدارہ: یہ لفظ الف کی زیر کے ساتھ ہے، اس سے مراد وہ نظم ہے جس کے گرد کسی معاملے کے امور گھومتے ہیں، اسے انگریزی ڈائریکٹریٹ، ایڈمنسٹریشن، مینجمنٹ اور ایگزیکٹیو کہتے ہیں، نظام چلانے والے کو مُدیر کہتے ہیں۔ اتھارٹی کے معنی تسلُّط، حجّت اور کنٹرول کے ہیں۔ ہمارے ہاں اتھارٹی کا ترجمہ بھی ''اِدارہ‘‘ سے کیے جاتے ہیں، جیسے: ادارۂ ترقیات کراچی/ لاہور/ اسلام آباد وغیرہ۔ ہمارے ہاں بعض لوگ لفظِ اِدارہ کو الف کی زبر کے ساتھ تلفظ ''اَدارہ‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔
''ل‘‘ کے سکون کے ساتھ لفظ ''مُلْک‘‘ ہے اور ''ق‘‘ کے سکون کے ساتھ لفظ ''وَقْت‘‘ ہے، پنجاب میں عام طور پر ''ل‘‘ کے زبر کے ساتھ ''مُلَک‘‘ اور''وَقَتْ‘‘ بولا جاتا ہے، جو درست نہیں ہے اور اس کی اصلاح بھی کوئی مشکل نہیں ہے، بس توجہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ''ن‘‘ کے زبر کے ساتھ لفظ ''اَنَس‘‘ ہے، مگر اسے بھی بعض لوگ ن کے سکون کے ساتھ ''اَنْس‘‘ بولتے ہیں۔
مُضْمَرَات: دوسرے میم کے زبر کے ساتھ ''مُضْمَر‘‘ کے ایک معنی ہیں: ''پوشیدہ‘‘ اور اس کی جمع ''مُضْمَرَات‘‘ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اس گفتگو یا اس کلام میں یہ معنی پوشیدہ ہے یا اس کے مابعد اثرات یہ ہیں، ایک اینکر پرسن ''مُضَمِّرَات‘‘ بول رہے تھے، جو غلط ہے۔ اسی مادّے سے ''ضمیر‘‘ آتا ہے، اس کے معنی ہیں: ''دل، راز، پوشیدہ، اندیشۂ خیال وغیرہ‘‘، انگریزی میں اسے ''Conscience‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں اسے ''نفسِ لوّامہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی ''انسانی ضمیر کا وہ احساس جو اُسے برائی پر ملامت کرتا ہے، روکتا اور ٹوکتا ہے‘‘۔
تقاضا: تقاضا عربی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ''درخواست، مانگ، خواہش، مطالبہ‘‘ وغیرہ۔ بعض حضرات اسے ہائے مدوَّر کے ساتھ ''تقاضہ‘‘ لکھتے ہیں، جو درست نہیں ہے، اس کے مزید مشتقات کی بحث طولانی ہے اور ثقیل ہو جائے گی، اس لیے ہم اس سے احتراز کر رہے ہیں۔
لیک: '' Leak‘‘ انگریزی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ''سوراخ، دَرز، رسائو اور ٹپکنا‘‘ وغیرہ، یعنی کسی چیز کا رِس کر باہر آنا۔ آج کل اسے ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کسی خاص پوشیدہ خبر یا معلومات یا رپورٹ کو دانستہ اِفشا کرنا تاکہ اسے کسی کے خلاف استعمال کیا جا سکے، جیسے پاناما لیکس، ڈان لیکس، وکی لیکس‘‘، ''میموگیٹ اور واٹر گیٹ‘‘ کے ساتھ اگرچہ سکینڈل کا لاحقہ لگایا گیا تھا، لیکن یہ بھی ایک طرح کی لیکس ہی تھیں۔
ڈیپ سٹیٹ: Deep State سے مراد کسی تنظیم یا کسی حکومت یا فوج کے بااثر عہدیداران یا ارکان‘ جو ادارے یا ریاست کے رازداری کے معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں یا اُس میں کسی پالیسی یا حکمت عملی کے تحت ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ نصرت جاوید صاحب کا کہنا ہے: ''سلطنتِ عثمانیہ میں اس کے لیے ''دریں دولت‘‘ کی اصطلاح رائج کی گئی تھی، اس کے معنی ہوں گے: ''Inner State‘‘، یعنی ریاست کے اندر ریاست یا حقیقی با اختیار افراد یا گروہ یا ادارہ وغیرہ۔ فارسی لغت میں اسے ''دولتِ پنہاں‘‘ یعنی Secret State کہا جاتا ہے۔
تزویراتی گہرائی: اسے انگریزی میں ''Strategic depth‘‘ کہتے ہیں، آج کل اس سے مراد یہ ہے کہ دشمن کے خطرے کو اپنی سرحدوں سے دور رکھا جائے اور جہاں سے خطرہ جنم لیتا ہے یا جہاں ملک کے خلاف سازشوں کا گڑھ ہے، انہیں وہیں کچل دیا جائے یا بے اثر کرنے کی تدبیر کی جائے۔ فوجی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: ''صنعتی مراکز، وفاقی وصوبائی دارالحکومتوں، بڑے بڑے شہروں اور حساس مقامات سے دشمن کی افواج کو دور رکھنا‘‘۔ چونکہ امریکا کے وسائل بے پناہ ہیں، اس کی طاقت کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے ملک کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اپنے اہداف کا تعین کر کے انہیں نشانہ بناتا ہے، اسی نظریے کے تحت اُس نے افغانستان اور عراق و شام وغیرہ پر حملے کرکے تباہ و برباد کیا۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر تو اس کا کھلا دشمن بھارت موجود ہے، البتہ پاکستان چاہتا ہے کہ اُس کی شمال مغربی سرحد پر اس کے لیے خطرات نہ رہیں، اس لیے اُسے افغان امور اور کسی حد تک ایران کے معاملات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ اب امریکا کے انخلا کے بعد ایک بار پھر افغانستان کا مسئلہ ہمارے لیے حساس ہو گیا ہے، بھارت ہمیشہ افغانستان کو اپنے زیرِ اثر رکھنے کا خواہاں رہا ہے تاکہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ ان نئے ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر پوری قوم کی دعائوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے اربابِ حلّ وعقد کوایسی فراست، جرأت اور قوتِ ایمانی نصیب فرمائے کہ ہمارا ملک بیرونی سازشوں کا ہدف بننے سے محفوظ ہو جائے۔
تزوِیر: تزویر کے لغوی معنی ہیں: ''جھوٹ کو آراستہ کرنا، (المنجد، لسان العرب)، مکر و فریب کرنا، (فرہنگ عامرہ)، مقاصدِ خیر یا شر کے لیے کسی چیز کی اصلاح کرنا، (لسان العرب)‘‘۔ ظاہر ہے دو متحارب قوتیں جب حکمتِ عملی بناتی ہیں تو ایک کے نزدیک جو خیر ہے، وہ دوسرے کے نزدیک شر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا ترجمہ ''حکمتِ عملی‘‘ سے کیا جاتا ہے، اس میں سیاسی، اقتصادی اور سفارتی حکمتِ عملی سب آتے ہیں، اس کو ہم ''تدبیرِ معاملات‘‘ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved