تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     19-06-2021

بجٹ کا موسم

ہماری خوش نصیبی ہے کہ قدرت نے ہمیں چار موسموں سے نواز رکھا ہے اور ہم سال بھر گرمی، سردی، بہار اور خزاں کے منفرد رنگوں سے بھرپور استفادہ کرتے اور اپنی زندگی میں رنگ بھرتے ہیں۔ اس یگانہ نعمتِ خداوندی کے ساتھ ساتھ ہمیں پانچویں موسم سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور وہ ہے بجٹ کا موسم‘ جو کم و بیش چار ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا آغاز مئی کے آخری عشرے سے ہو جاتا ہے۔اس کے اثرات اور مضمرات سال بھر ہماری معاشی زندگی میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس موسم کے ابتدائی ایام میں بجٹ کی تیاری پورے زور شور سے اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے۔ رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے حکومتی وزرا، مشیران، ترجمان اور منتخب ارکان آئے روز عوام دوست بجٹ کی خوشخبریاں پیش کرتے ہیں اور اسے ایک تاریخی بجٹ قرار دینے پر زور دیتے ہیں۔ اگلے عشرے میں جیسے ہی اس کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں‘ سالانہ اکنامک سروے رپورٹ تیار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے اور رواں مالی سال میں حاصل کی گئی کامیابیاں قابلِ فخر انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔ پھر بالآخر وہ گھڑی آ پہنچتی ہے جس کا سال بھر انتظار کیا جاتا ہے اور جس کے ساتھ ملک کی اسی فیصد آبادی کے ارمانوں، خوابوں اور امیدوں کے چراغ جلتے ہیں۔آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرِ خزانہ پیش کرتے ہیں، آخری مرحلے میں اس پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور پھر اسے منظور کر کے قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں ہر سال بجٹ کے موسم میں ایک جیسا ماحول، ایک ہی طرح کے بیانات اور تقریباً ملتے جلتے رویے ہی دیکھنے کو ملتے رہے۔مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی حکومتی ارکان اور وزرا قوم کو خوشحالی کے ایک نئے دور کی خوشخبری دینا شروع کر دیتے ہیں اور نئے بجٹ میں مضمر سنہرے دور کی نوید سنانا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ ہرشام مختلف چینلز پر بجٹ میں کیے گئے نمایاں اقدامات اور ان کے فوائد و ثمرات کو جہاں حکومتی ارکان داد و تحسین پیش کرتے نہیں تھکتے وہاں اپوزیشن اس بجٹ کو عام آدمی کیلئے زہر قاتل اور ملکی معیشت کیلئے انتہائی مضر ثابت کرنے پر تل جاتی ہے، اور ساتھ ہی اس بات کا اعادہ کرتی نظر آتی ہے کہ وہ کسی صورت بھی حکومت کے پیش کیے گئے بجٹ کو منظور نہیں ہونے دے گی اور نہ ہی عوام کے حقوق پر ڈاکا زنی کی اجازت دے گی اور اس کا عملی مظاہرہ بجٹ اجلاس میں کی گئی وفاقی وزیر ِ خزانہ کی تقریر کے دوران بدرجہ اتم کیا جاتا ہے۔ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اچھال دی جاتی ہیں، سپیکر کا گھیرائو کیا جاتا ہے اور اجلاس کی کارروائی رکوانے کی حتی المقدور کوششیں کی جاتی ہیں۔ حسبِ روایت سال 2021-22ء کا وفاقی بجٹ 11جون کو جب قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ہمیشہ کی طرح حکومت اور اپوزیشن ایوان میں باہم دست و گریبان نظر آئے مگر 14جون کا دن پاکستانی جمہوریت اور پارلیمان کیلئے ایک سیاہ دن کے طور پر طلوع ہوا کیونکہ یہ بجٹ پر بحث کا دن تھا اور قومی اسمبلی میں جس قدر نازیبا الفاظ اور قابلِ اعتراض حرکات کا مظاہرہ ہوا اور بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کے منہ پر ماری گئیں‘ وہ سارا منظر منتخب نمائندگان کی شخصیت کی حقیقی عکاسی کر رہا تھا۔ سارا دن سوشل میڈیا پر اس شرمناک کارروائی کی وڈیوز وائرل رہیں جن میں اسمبلی کے سارجنٹ بے بس دکھائی دیے اور سپیکر قومی اسمبلی کی بار بار کی وارننگ بے سود ثابت ہوئی۔ یقینا اس سے پارلیمان کے وقار کو شدید دھچکا لگا اور دنیا بھر میں پاکستان کی جمہوری اقدار کا مذاق اڑایا گیا۔
حسبِ دستور موجودہ بجٹ کو حکومت اور حکومتی اتحادی ملک و قوم کیلئے ایک نئے دور کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ اسے پاکستانی معیشت کی مضبوطی اور غریب طبقے کی خوشحالی کا ضامن ثابت کرنے پر تلے ہیں جبکہ اپوزیشن اسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا اور محض اک دھوکا قرار دے رہی ہے۔ دونوں فریق اپنے اپنے انداز میں اپنی سیاسی حکمتِ عملی اور طرزِ سیاست کو فروغ دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہرینِ معیشت کی اکثریت اس بجٹ کو قدرے متوازن بجٹ قرار دے رہی ہے اوراس کے کچھ منفرد پہلوایسے ہیں جو یقینا ملکی معیشت کی مضبوطی اور پاکستان کے نچلے طبقے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ سب سے قابلِ تحسین عمل وفاقی وزیرِ خزانہ کی طرف سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہے جس میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں نہ بڑھانے کا اصولی موقف اپنایا اور تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس نہ لگانے کی نہ صرف بات کی بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔مزیدبرآں تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصداضافہ کیا گیا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے لیٹنے کے بجائے ملکی مفاد اور غریب عوام کے حقوق کو مقدم رکھا گیا اور بجٹ میں نہ اضافی ٹیکس لگائے گئے اور نہ ہی غریب کی زندگی مزید اجیرن بنائی گئی۔ اس کے علاوہ موجودہ بجٹ کے تین کلیدی پہلو ہیں جو ملکی معیشت پر دوررس اثرات ڈالنے کی پوری سکت رکھتے ہیں اور جن سے وطنِ عزیز میں معاشی سرگرمیاں تیز ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلے ملک میں کاروباری وسعت اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے کیے گئے اقدامات ہیں جن کیلئے لگ بھگ ایک ٹریلین رقم مختص کی گئی ہے۔ اس پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ملک میں نہ صرف روزگار بڑھے گا اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ شرحِ نمو میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔یہی وجہ ہے کہ اگلے مالی سال میں مجموعی مطلوبہ شرح نمو 4.8 فیصدرکھی گئی ہے۔ دوسرا بڑا اقدام پاکستان کے نچلے طبقے کو معاشی طور پر خود مختار بنانا ہے جس کیلئے دیہی آبادی میں کسان کو مضبوط بنانے کیلئے کھاد، بیج اور ادویات کیلئے تاریخ میں پہلی بار ڈیڑھ لاکھ کی مالیت کے بلا سود قرضے دیے جائیں گے جبکہ زرعی آلات کیلئے الگ سے ڈیڑھ لاکھ تک کی رقم بلا سود فراہم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کسان کی فصل کی پوری قیمت اور بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے گا اور اسے آڑھتی اور مڈل مین کے چنگل سے آزاد کرایا جائے گا۔ اس طرح شہری آبادی میں نوجوانوں کو اپنے کاروبار کیلئے پانچ لاکھ تک کے قرضے بلا سود فراہم کئے جائیں گے اور مزید بیس لاکھ تک کی رقم کم ترین شرحِ سود پر جاری کی جائے گی تاکہ وہ نہ صرف خود معاشی طور پر مضبوط ہوں بلکہ دوسروں کیلئے بھی روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ اسی طرح تیسرا نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو پاکستان کی جغرافیائی اکائیوں میں یکساں تعمیر و ترقی کیلئے بجٹ میں خطیررقوم کا مختص ہونا ہے۔ پہلی مرتبہ پسماندہ اضلاع کیلئے الگ رقم مختص کی گئی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقے، گلگت بلتستان اور کشمیر کیلئے بجٹ میں گراں قدر اضافہ کیا گیا ہے تاکہ پاکستان بھرمیں معاشی ترقی اور استحکام یکساں طور پر نظر آئے اور بلا امتیاز اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں مگر حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس بجٹ کو عملی جامہ پہنانا ہے اور اس کیلئے انتظامی مشینری اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مسلسل اور مؤثر رابطے کے ساتھ ساتھ اِن کی کڑی نگرانی بھی درکار ہوگی تاکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مجوزہ ترقیاتی سکیمیں اور منصوبہ جات ایک شفاف اور مضبوط نظام کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں۔اس کیلئے کک بیکس اور کمیشن مافیا کو لگام دینا ہوگی،معیار کو یقینی بنانا ہو گا، گراںفروشی اور ذخیرہ اندوزی پہ قابو پانا ہوگا۔اس کے علاوہ ملک میں امنِ عامہ بہتر بنانا ہوگا تاکہ نہ صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہمیں تواتر کے ساتھ رقوم بھیجتے رہیں بلکہ غیرملکی سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کریں۔اس کے علاوہ کاروبار میں آسانی اور شفافیت لانے کیلئے کرپشن کے ناسور سے آہنی ہاتھوں نمٹنا ہوگا تاکہ معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ لازم ہے کہ بجٹ کے اس موسم میں پاکستانی عوام کے باغِ تمنا میں امیدوآرزو کے ایسے پھول کھِل سکیں جو ہمیشہ کھِلے رہیں اور جنہیں کوئی اندیشۂ زوال نہ ہو۔احمد ندیم قاسمی کے دعائیہ اشعار یاد آگئے ؎
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved