تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     19-06-2021

یہ کیسی جمہوریت ہے؟

سچ پوچھیں تو ہمارے روایتی سیاستدانوں کو لیڈر کہنا خود عوام کی توہین ہے۔ جنہیں بات کرنے تک کی تمیز نہ ہو، جنہیں اپنی عزت کی پروا ہو نہ ہی دوسروں کا خیال، جو نہ اخلاقیات کو سمجھتے ہوں اور نہ ہی روایات کا بھرم رکھ سکیں، آئین وقانون جن کے لیے کوئی معنی نہ رکھتے ہوں، جنہیں نہ تو اپنے خاندان کی ہتک کا ڈر ہو اور نہ ہی دوسروں کی خواتین کا لحاظ ہو، آئینی دستاویزات جن کیلئے ایک کاغذی پلندے سے زیادہ کچھ نہ ہوں اور گالیاں دینا جن کا کلچر ہو، جو ذاتی مفادات کے تحفظ اور سیاسی عہدے کیلئے اپنی پانچ سالہ ''عارضی‘‘ قیادت کی خوشنودی پانے کیلئے ہر وقت تمام حدیں پار کرنے کو تیار ہوں، جو وطن عزیز کے سب سے اعلیٰ ادارے‘ پارلیمنٹ کے تقدس کو سمجھتے نہ ہوں‘ انہیں رہنما کہنا یا سمجھنا قطعی غیر مناسب ہے۔ ہمارے انہی روایتی سیاستدانوں کا ایک مقولہ مشہورہے کہ ''کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ لیکن یہ بات بھی وہ صرف اپنے مخالفین کو طعنے دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اپنی ذات کی حد تک روایتی سیاستدانوں کی اکثریت شرم و حیا، قانون و ضابطے، آئین و اخلاقیات کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتی۔ مرد تو مرد‘ بعض خواتین سیاستدانوں سے بھی ایسی باتیں اور بیانات منسوب ہیں کہ جنہیں سن کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ایسے بیانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں بلکہ اکثر باتیں ٹی وی پر براہِ راست نشر ہوئی ہیں اور ان کے وڈیو کلپ وائرل ہوکر ہر گلی‘ ہر کوچے میں قوم کو شرمندہ کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں منگل کے روز جب اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بجٹ پر تقریر کر رہے تھے تو حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے مابین بدترین بدکلامی ہوئی، ایک دوسرے کو گالیاں دی گئیں اور بجٹ کاپیوں سے ایک دوسرے پر حملے کیے گئے۔ سارا وقت ایوان میدانِ جنگ بنا رہا۔ سپیکر قومی اسمبلی کو اضافی سکیورٹی طلب کرنا پڑی، ایک خاتون ایم این اے اور ایک اہلکار زخمی ہوئے، ماحول بے قابو ہونے پر اجلاس بار بار ملتوی کر نا پڑا۔ ارکان نے ایوان کا وقار پامال کیا۔ دستیاب تفصیلات کے مطابق حکومتی ارکان کی جانب سے پھینکی گئی بجٹ کی کاپیاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ڈائس کو لگنے سے حالات کشیدہ ہوئے۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے مابین کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب وزیراعظم کے معاونِ خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ روحیل اصغر کو بجٹ کی کاپی دے ماری اور ان کے لیے نامناسب زبان استعمال کی۔ وہ کاپی مسلم لیگ (ن) کے رکن افتخار نذیر کو لگی تو انہوں نے وہ واپس علی نواز کو دے ماری، اس پر علی نواز اعوان اور افتخار نذیر کے درمیان توتکار سے معاملہ شروع ہوا جو گالم گلوچ تک جا پہنچا۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن)‘ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے مخالف نعرے لگائے گئے۔ دونوں جماعتوں کے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں کے بنڈل اچھالے، کئی وزرا معاملے کو سنبھالنے کے بجائے ارکان کو ہنگامہ آرائی کیلئے اکساتے رہے۔ کئی حکومتی ارکان سیٹیاں ساتھ لائے تھے اور تمام وقت ایوان سیٹیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ احتجاج کرنے والے حکومتی اراکین میں سینئر وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، شیریں مزاری، غلام سرور خان، عمر ایوب خان، علی امین گنڈاپور شریک تھے اور مسلسل بجٹ دستاویزات کے ساتھ ڈیسک بجاتے رہے۔ سپیکر کی طرف سے بھاری تعداد میں سکیورٹی عملے کو بھی بلوایا گیا، مرد و خواتین سکیورٹی اہلکار اپوزیشن اور حکومت کی نشستوں کے درمیان لائنیں بنا کر کھڑے ہو گئے، اس دوران ڈاکٹر شیریں مزاری کی سکیورٹی اہلکاروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ سپیکر کی طرف سے وڈیو بنانے میں مصروف ارکان کے موبائل قبضے میں لینے کے لیے سکیو رٹی اہلکاروں کو ہدایت کی گئی لیکن ارکان نے اپنے موبائل فون نہیں دیے، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور لیگی رکن ملک سہیل خان کمڑیال کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی، حکومتی رکن فہیم خان اور نون لیگ کے ناصر بوسال کے درمیان تلخ کلامی بڑھی تو ناصر بوسال نے انہیں باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے للکارا لیکن سکیو رٹی اہلکار درمیان میں موجود رہے۔ اسی دوران حالات کشیدہ ہو گئے اور ہر دو اطراف سے بجٹ کی کاپیاں مخالفین کے ڈیسکوں کی طرف اچھالی گئیں۔ ایک لیڈی سارجنٹ کو بھی بجٹ کاپی ماری گئی۔
سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے ایوان میں نازیبا زبان استعمال کرنے والے 7 ممبران پر بدھ کے روز ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کی جو اگلے روز ختم کر دی گئی۔ اس ہنگامہ آرائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ایم این ایز ملیکہ بخاری اور زرتاج گل نے دیگر افراد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں اخلاق سے گری حرکتیں کرنے والے لوگوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ پارلیمان کیلئے سیاہ دن تھا، میری تضحیک و تذلیل کی گئی پارلیمان میں خاتون ممبران کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اونگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سارا الزام حکومتی جماعت پر دھرتے ہوئے کہا کہ اراکینِ حکومت نے اپوزیشن پر نہیں پارلیمان پر حملہ کیا۔
پارلیمنٹ میں ہوئی دھینگا مشتی کے بعد اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے بجائے اپنی توپوں کا رخ اب سپیکر اسد قیصر کی طرف موڑ لیا ہے اور ان پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ متحدہ اپوزیشن کے قائدین کی بیٹھک میں اہم مشاورت کے بعد کیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کیلئے متحدہ اپوزیشن نے کمیٹی تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ کمیٹی کے ارکان کے ناموں پر ابھی مشاورت جاری ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا تھا کہ منگل کے روز ہونے والا اجلاس جمہوریت کی تاریخ میں سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ سپیکر اپنی آئینی، قانونی، جمہوری اور پارلیمانی ذمہ داریاں انجام دینے میں ناکام رہے۔ سپیکر ایوان کے ہر رکن کا محافظ اور نگہبان ہوتا ہے لیکن اسد قیصر یہ فرض نبھانے کے اہل نہیں ہیں۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات بھی ہوئی جس میں ایوان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد کی صورتحال پر تبادلۂ خیال اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔
پارلیمان میں لڑائی جھگڑے جیسے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں اور بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے ارکانِ پارلیمنٹ بھی بعض اوقات اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ ہماری اسمبلیوں میں بھی ایسے مناظر پہلی بار دیکھنے کو نہیں ملے لیکن ماضی میں ہمارے سیاستدان کچھ نہ کچھ روایات کا بھرم رکھ لیتے تھے اور کشیدگی کے بعد جب اپوزیشن ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کر جاتی تھی تو حکومت کی جانب سے چند معزز ارکان جاتے اور اپوزیشن کو راضی کرکے واپس ایوان میں لے آتے تھے۔ بجٹ جیسی اہم قومی دستاویزات کی اس قدر تضحیک کبھی نہ ہوئی تھی اور اگر کسی رکن کے منہ سے کوئی نازیبا لفظ نکل بھی جاتا تو وہ شرمندہ ہو کر معذرت کر لیتا تھا لیکن اس بار تو ہر حد پار کر دی گئی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو منانے کے بجائے چیلنج کیے جا رہے ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ اپوزیشن لیڈر کیسے تقریر کرتے ہیں جبکہ گالیاں دینے والے بھی اسے اپنا کلچر قرار دے رہے ہیں۔ بجٹ سیشن میں بہت سے لوگوں کا بھرم کھل گیا ہے اور اب یقینا عوام آئندہ انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے پارٹی اور ذات و برادری سے بالاتر ہو کر امیدوار کی اخلاقی روایات اور خاندانی ثقافت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved