تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     19-06-2021

پٹواری زمین سے کرسی پر

گریڈ کے اعتبار سے تو پٹواری کا عہدہ معمولی سا ہے لیکن بڑے بڑے طرم خان بھی پٹواریوں کا پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی پٹوار خانے میں چلے جائیں تو ایک جیسا ہی ماحول ملے گا۔ وہی ایک مختصر سے کمرے میں رکھے ہوئے بڑے بڑے رجسٹر جن میں دوسروں کی قسمت لکھی ہوتی ہے۔ وہی لال کتاب جس میں جو لکھا گیا‘ وہ پتھر پر لکیر ہوگیا۔ وہی دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے گاؤ تکیے اور زمین پر بچھی ہوئی دریاں۔ دریوں پر اُترے ہوئے چہروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے سائلین جو اُمید بھری نظروں سے پٹواری صاحب کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دل اتھل پتھل ہورہا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں پٹواری صاحب کی زبان سے اُن کے لیے خیر کے کلمات نکلیں گے یا منفی جواب ملے گا۔ طویل عرصے سے زیرِ مشاہدہ اِن حالات میں اگر پٹوار خانوں میں انگریزی بولتے اور کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے پٹواری دیکھنے کو ملیں تو حیرت کا جھٹکا تو لگے گا۔ حیرانی تو ہوگی جب پٹواری زمین کے بجائے کرسی پر براجمان دکھائی دیں۔ مزید حیرت اُس وقت ہو گی جب کام بھی بیس منٹ میں ہو جائے ۔معلوم پڑا کہ یہ سب کچھ اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت پنجاب میں پٹوار کلچر میں بہتری لائے جانے کی سعی جاری ہے۔ اللہ کرے کہ کسی طرح سے حقیقی معنوں میں سائلین کی روایتی پٹوار کلچر سے جان چھوٹ جائے‘ ورنہ تو دہائیوں سے بس سنتے ہی آرہے ہیں۔
سنتے ہیں کہ برصغیر میں پہلے پہل شیرشاہ سوری نے زمینوں کا ریکارڈ رکھنے کا ایک نظام قائم کیا تھا۔ مغلوں نے بھی اِس میں اپنا حصہ ڈالا جس کے بعد انگریزوں نے بھی اِس کے لیے قانون سازی کی۔ تھوڑی بہت ترمیم و تنسیخ کے ساتھ ہمارے ملک میں آج بھی انگریز کا نظامِ پٹوار ہی چل رہا ہے۔ غالباً اس میں مثبت تبدیلیاں نہ لائے جانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پٹوار کے روایتی نظام میں طاقتوروں کے لیے کھل کھیلنے کے بہت سے مواقع موجود رہتے ہیں۔ پٹواری سے مل ملا کے ایک آدھ لائن ہی تو اِدھرسے اُدھر کرنا ہوتی ہے۔ بس یہ معمولی سی تبدیلی ہی حق داروں کو سالوں تک ذلیل کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اُس قصے کی بازگشت تو آج بھی سنائی دے جاتی ہے جب ایک پٹواری نے صدرایوب خان کو للکارا تھا۔ للکارا بھی تب جب صدر ایوب کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ 1963ء میں پیش آنے والے اِس واقعے کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔ اِس سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ آخر پٹواری حضرات کے بارے میں اتنے زیادہ منفی خیالات کوکیوں فروغ ملا۔ ہوا کچھ یوں کہ صدر ایوب خان کوچکوال کے نواحی قصبے خان پور کی ایک شکار گاہ بہت پسند تھی۔ یہ واقعہ پیش آنے سے پہلے وہ یہاں کئی مرتبہ آچکے تھے۔ جب بھی یہ اعلان ہوتا کہ صدر صاحب شکار گاہ میں قدم رنجہ فرمائیں گے تو ہرطرف ہاہاکار سی مچ جاتی۔ تمام انتظامات مکمل کیے جاتے جن میں اعلیٰ انتظامی حکام تو پیش پیش دکھائی دیتے تھے لیکن اِس کا حتمی بوجھ بہرحال پٹواری حضرات کو ہی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایسے میں جب بھی صدر صاحب کی آمد کا اعلان ہوتا تو پٹواری حضرات سب سے زیادہ پریشانی کا شکار دکھائی دیتے تھے۔ حکمرانوں کو اِس بات سے کیا غرض کہ دورے پر اُٹھنے والے اخراجات کی رقم کہاں سے آئے گی اور اِس کا بوجھ کس کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اُنہیں تو بس حکم دینا ہوتا ہے باقی اِس پر عمل درآمد کرانا ماتحتوں کا دردِ سر ٹھہرتا ہے۔ یہ بوجھ درجہ بدرجہ نیچے تک منتقل ہوتا ہے جس کا آخری درجہ پٹواری ہوتا ہے۔ اب ظاہری بات ہے کہ پٹواری نے اِس رقم کا انتظام سائلین سے ہی کرنا ہوتا ہے۔ بیشتر صورتوں میں حکمرانوں اور حکام کی یہی روش تھی یا اب بھی ہے جس نے پٹواری کے بارے میں منفی خیالات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے پٹواری کو کچھ اِس طرح سے کھل کھیلنے کی اجازت دے دی گئی کہ پٹواری کے قلم کا ایک نقطہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دیتا۔ پٹواری کی لال کتاب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اِس میں پوری دنیا سما جائے تو بھی اِس کا پیٹ نہ بھرے۔ اِس کے علاوہ بھی کم و بیش 15 دوسرے رجسٹر بھی پٹواری کے زیراستعمال رہتے ہیں۔ صدر ایوب خان کے دور میں خان پور کا تنومند پٹواری چوہدری شاہ نواز بھی ایسے ہی فرائض انجام دیا کرتا تھا۔ اِسی دوران صدر صاحب کو ملک سے کرپشن ختم کرنے کا شوق چرایا اور ان کی معائنہ ٹیم کی اُن دنوں بہت دھوم تھی۔ یہ ٹیم جس مرضی دفتر میں گھس جاتی اور میزپر چھڑیاں مار مار کر اور افسران کی تحقیر کرکے کرپشن ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا ہے کہ اِس معائنہ ٹیم نے موضع خان پور میں کھلی کچہری کے انعقاد کا اعلان کیا۔ غلام رسول نامی ایک شخص نے کھلی کچہری میں زمینوں کے ہیرپھر کی شکایت کی جس پر ٹیم کے اراکین نے پٹواری کے خوب لتے لیے۔ پٹواری نے کچھ دیر تک تو سب خاموشی سے برداشت کیا مگر پھر وہ تنگ آکر کھڑا ہوگیا۔ اُس نے کہا کہ وہ بھی بدعنوانی کی ایک شکایت درج کرانا چاہتا ہے۔ کس کے خلاف؟جب اِس بات کا جواب ملا تو پوری کچہری کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ اُس کی شکایت صدر ایوب خان کے خلاف تھی۔ تم یہ کیا کہہ رہے ہو کہ صدر ایوب خان بدعنوان ہیں؟پٹواری جواب دیتا ہے:جی ہاں! میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ یہاں شکار کے لیے آتے ہیں اور اخراجات کا بل نہیں دیتے، وہ یہاں بارہ مرتبہ آچکے ہیں، ایک مرتبہ تواُن کے کھانے کا آٹھ ہزار روپے کا بل فلاں شخص نے بھرا تھا جبکہ باقی 11 مرتبہ کے اخراجات کس نے برداشت کیے تھے؟پٹواری اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتاہوں کہ یہ اخراجات ہم بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے۔ پٹواری نے کہا کہ آپ ہمیں کرپٹ، کرپٹ کہتے رہتے ہیں حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ ہم چھوٹے چور ہیں اور بڑے عہدوں پر فائز بڑے چور ہیں۔ اِس پٹواری نے چند جملوں میں پورے معاشرے کو عیاں کرکے رکھ دیا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس کی اِن باتوں سے کس شدت کا زلزلہ بپا ہوا ہوگا لیکن معاملہ کسی نہ کسی طور نمٹ ہی گیا البتہ اِس نے بہت سوں کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔
اب اندازہ لگا لیجئے کہ پٹواری حضرات عام سائلین کی نیندیں کس طرح حرام کرتے ہوں گے۔ اب سنتے ہیں کہ حکومت سائلین کی پریشانی دور کرنے کے لیے خاصی سنجیدہ ہے‘ اس کی ایک جھلک تو ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ دراصل حکومت پنجاب کے آٹھ ہزار پٹوار خانوں کی سطح پر دیہی مراکزِ مال قائم کررہی ہے جن میں سے آٹھ سو سات مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ اِن مراکز کے لیے افرادی قوت بھی بڑھائی جارہی ہے لیکن صرف آئی ٹی کا علم رکھنے والوں کو ہی بھرتی کیا جارہا ہے۔ شاید یہ تجویز بھی زیرغور ہے کہ اِن مراکز مال میں پٹواریوں کے ساتھ نمبردار حضرات بھی تعینات کیے جائیں گے جو پٹوار سرکل میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کی تفصیلات اعلیٰ حکام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ اللہ کرے کہ یہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک طریقے سے انجام پا جائے ورنہ تو ماضی میں اراضی ریکارڈ سنٹرز کا ڈول بھی ڈالا گیا تھا۔ اب اِن سنٹرز کی صورت حال یہ ہے کہ اِن پر خرچ کی جانے والی رقم ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اِس تمام تر تناظر میں پنجاب کے ایک سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے بات ہوئی تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ پہلے یہ منصوبہ مکمل ہوجانے دیں‘ پھر بات کریں گے۔ کچھ اصرار پر اُن کی طرف سے بتایا گیا حکومت اِس سال کے آخر تک صوبے کے آٹھ ہزار پٹوار سرکلز میں دیہی مراکز مال قائم کرنے جارہی ہے جن میں سے 807فعال ہوچکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس مرتبہ پٹواری کلچر کے حوالے سے عوام کو بہت مثبت تبدیلی نظرآئے گی کیونکہ یہ تبدیلی لانے میں حکومت گہری دلچسپی لے رہی ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر دعا کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ احسن طور پر پایہ تکمیل تک پہنچ جائے اور زمین سے اُٹھ کر کرسی پر بیٹھنے والا پٹواری حقیقی معنوں میں سائلین کی خدمت کرنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے آغاز پر سبھی منصوبے اچھے ہوتے ہیں لیکن یہ اچھے کہلاتے تب ہیں جب اِن سے مستفیض ہونے والے بھی اِن کے اچھا ہونے کی گواہی دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved