قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی تقریر کے دوران جو کچھ ہوا، اُس پر پاکستانی جمہوریت برسوں شرمسار رہے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسے پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن قراردیا ہے کہ جب بلندوبالا ایوان میں گندی گالیوں کی بوچھاڑ ہوئی، اور ارکان اسمبلی ایک دوسرے پر جانوروں کی طرح جھپٹے۔ شہباز شریف کی تقریر مسلسل تین روز تک ایوان کی کارروائی میں خلل کا باعث بنی رہی، وہ کوئی اشتعال انگیز الفاظ ادا نہیں کررہے تھے، لیکن برسراقتدار جماعت نے یہ تہیہ کررکھا تھاکہ انہیں بولنے نہیں دینا۔ سپیکر باربار اجلاس ملتوی کرتے رہے، لیکن ایوان کا ماحول بدلنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ایک دن ایسا آیاکہ ہرحد پار کرلی گئی، وہ الفاظ جن کا روزمرہ زندگی میں استعمال بھی گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے، بعض ارکان کی زبانوں پر رواں ہوئے اور کیمروں میں محفوظ ہو گئے۔ منتخب ایوانوں کیلئے شور شرابہ یا احتجاجی نعرے اور اشارے اجنبی نہیںہیں۔ بعض اوقات جذبات ابل پڑتے، اورارکان ایک دوسرے پرچڑھ دوڑتے ہیں، لیکن اسکی ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی پارلیمانی ہنگاموں سے بھری پڑی ہے۔ 1958ء کے مارشل لا سے کچھ ہی عرصہ پہلے مشرقی بنگال اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی کواس طرح نشانہ بنایا گیاکہ وہ جانبر نہیں ہوسکے تھے۔ ان کی موت نے گھات میں بیٹھے ہوئے جنرل ایوب خان کو ''کمک‘‘ فراہم کردی تھی۔ 1970ء کے الیکشن کے بعد وجود میں آنے والے ''نئے پاکستان‘‘ کی قومی اسمبلی میں بھی ہنگامہ برپا رہتا تھا، لیکن اس کی انتہا اپوزیشن کا واک آئوٹ ہوتا تھا۔ اس اسمبلی میں پیپلزپارٹی کو دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، اپوزیشن، ارکان کی تعداد کے اعتبار سے نہیں ان کی ''مقدار‘‘ کے اعتبار سے لیکن بھاری تھی۔ عبدالولی خان، چودھری ظہور الٰہی، سردار شوکت حیات، غوث بخش بزنجو، مولانا مفتی محمود، شاہ احمد نورانی، پروفیسر عبدالغفور، ظفر احمد انصاری اور شیرباز مزاری جیسے لوگ ایوان کی رونق تھے۔ برسراقتدار جماعت کی منہ زور اکثریت کے خلاف ایک دن اپوزیشن ارکان دھرنا دے کر بیٹھ گئے توانہیں بصد مشکل ایوان سے نکالا گیا، یہ شاید اُس اسمبلی کا انتہائی مکروہ دن تھا۔ 1985ء کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلیوں میں البتہ بدتمیزی کے مظاہرے عام ہوگئے۔ضیاالحق نے اہتمام کیا تھاکہ صدر کی تقریرہر پارلیمانی سال کے آغاز پر ہو،اور اس پربحث بھی کی جائے۔ اس ''ایجاد‘‘ کے وقت خیال شاید یہ تھاکہ صدرِمملکت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی، اورانکے فرمودات پر بحث کرنے کے بعد گویا ارکان اسمبلی انہیں حرز جاں بنا لیںگے۔
صدرکے اختیارات میں اضافہ کرکے اسے بھاری بھرکم بنا دیا گیا تھا۔ مسلح افواج کے سربراہوں، صوبائی گورنروں اورکئی دوسرے ریاستی منصب داروں کے تقرر کا اختیار اسے حاصل ہوگیا تھا۔ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے حق نے توگویا کایا ہی پلٹ دی تھی۔ یہ سب کچھ بالآخر وزیراعظم نے واپس لے لیا، لیکن نئے پارلیمانی سال کے آغاز پرخطاب کا حق جوں کا توں ہے۔ صدر غلام اسحاق خان کے خطاب کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن نے وہ ہنگامہ اٹھایا کہ الحفیظ والامان۔ خان صاحب کی ترکی تمام ہوگئی، اس کے بعد توہر صدر کے ساتھ بدسلوکی کو اپوزیشن نے اپنا استحقاق سمجھ لیا۔ صدر فاروق لغاری کی درگت ان کی اپوزیشن کے ہاتھوں بنی۔ یہاں تک کہ صدر جنرل پرویز مشرف ایک عرصہ تک اس آئینی ذمہ داری سے فرار حاصل کرتے پائے گئے۔ وہ اپنی داڑھی (یا مونچھ) اپوزیشن کے حوالے کرنے پرتیار نہیں تھے، اِس لیے خطاب ملتوی ہوتا چلاگیا۔ وزیرخزانہ کی درگت بنانا بھی اپوزیشن اپنا حق سمجھ بیٹھی ہے۔ بجٹ تقریرکے دوران شوروغوغا کو بھی روایت بنا لیا گیا ہے۔ شوکت ترین کو بھی اسی یلغار کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ چوکڑی بھول گئے۔
یہ ایک مسلمہ پارلیمانی روایت ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزبِ اقتدار کی تقریرکے درمیان کوئی مداخلت نہیںکی جاتی‘لیکن وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اپنا پہلا خطاب تک نہ کر پائے، انہیں اس طرح زچ کیا گیاکہ ان کا دِل (شاید) ایوان ہی سے کھٹا ہوگیا۔ پہلے بار بار کہا جاتا تھا کہ وزیراعظم باقاعدگی سے ایوان میں آیا، اور ہفتے میں ایک روز سوالوں کے جوابات بھی دیا کریں گے، لیکن اپوزیشن کے تیور دیکھ کر اس محاذ سے ''پسپا‘‘ ہوگئے۔ اس کا بدلہ یوں چکایا گیاکہ اپوزیشن لیڈر کی تقریرکے دوران ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اجلاس کو باربار ملتوی کرنا پڑا، ایسا شاید تاریخ میں پہلی بار ہواکہ برسراقتدار جماعت نے بھی اپوزیشن کا روپ دھار لیا، معاملہ ایک حد میں رہتا تواس پربھی خون کا گھونٹ پی لیا جاتا، لیکن حدودوقیود کو پھلانگنے والے مناظر رسوائی کا ایسا سامان کرگئے جسے سمیٹنا آسان نہیں ہوگا، جب بھی یہ یادآئیں گے ہماری جمہوریت کے ماتھے پر پسینہ ضرورآئے گا۔
جوکچھ ہوا، اُس کا سہرا کسی ایک جماعت کے سرنہیں باندھا جا سکتا۔ سرکاری اور اپوزیشن بنچ برابرکے شریک سمجھے جائیں گے۔ اس شر میں سے خیر یہ برآمد ہوئی کہ وزیراعظم کو حالات سنبھالنے کی فکر ہوئی، اپوزیشن کوبھی جان کے لالے پڑے، اور بالآخرسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سب کوساتھ بٹھانے اورضابطہ نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ قائد حزبِ اختلاف کو تقریر مکمل کرنے کا موقع دے دیا گیا، ایوان کے ماحول میں تبدیلی آئی، اور ایک دوسرے کی مان لینے کی مشق کا آغاز ہوگیا۔ امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم بھی امن و سکون سے اپنی بات کہنے کے قابل ہو سکیںگے، اور یوں ایوان کی خوبصورتی کی بحالی شروع ہوجائے گی۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن نے احتجاج کا یہ ڈھنگ نکالاکہ اسمبلی کے احاطے میں دھرنا دے کردروازوں کو تالے لگا دیے۔ اعلان یہ تھاکہ سرکاری ارکان کوایوان میں جانے دیں گے نہ بجٹ پیش کرنے دیںگے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا راستہ بھی روکا گیا، لیکن پولیس نے بکتر بندگاڑی کے استعمال سے دروازہ توڑ کرراستہ نکالا۔ یہ اپنی طرزکا انوکھا احتجاج تھا، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہماری پارلیمانی روایات کتنے خطرے میں ہیں۔ اپوزیشن کی منہ زوری یقینا یکطرفہ نہیں، حکومت کی منہ زوری اس کا سبب بنتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان ووٹ لیکر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، چند نشستوں کی اونچ نیچ سے انکے کردار کا تعین ہوتا ہے، اگر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے، یکطرفہ قوانین بنانے، اور مخالفوں کودیوار سے لگانے کا رویہ اپنایا جائے گا، توپھر ہنگامے ہوںگے، آگ بھڑکے گی، اس آگ میں بہت کچھ بھسم بھی ہو گا۔ سب کچھ حاصل کرنے کا شوق سب کچھ ضائع کر سکتا ہے:
بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے/ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جنرل ضیاالحق کے بھائی
سابق صدر جنرل محمد ضیاالحق مرحوم کے چھوٹے بھائی محمد اظہارالحق 83 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جنرل ضیا جب صدر تھے تو وہ باٹا کمپنی میں ملازم تھے۔ خاموشی سے ملازمت جاری رکھی۔ جنرل ضیاالحق نے ان کے معاملات میں مداخلت کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ انکے پسماندگان میں بیوی کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹے بیرون ملک ہیں۔ اے پی پی کے سابق ڈائریکٹر نیوز جناب وقار احمد کوبھی انکی دامادی کا شرف حاصل تھا۔ آج جبکہ ہماری سیاست خاندانی بن کررہ گئی ہے، کسی ایک شخص کا اختیار پورا خاندان استعمال کرتا، اور وی وی آئی پی بن کر لوگوںکی ناک میں دم کیے رکھتا ہے، جنرل ضیاالحق اور انکے خاندان کے افراد اِس لحاظ سے یاد رکھے جائیں گے کہ کسی نے حدود سے تجاوزنہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے کہ وہ اپنے دائرے میں انکساری اور عاجزی کی مثال تھے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)