امریکہ یکم مئی کو افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے آخری مرحلے کا آغاز کرچکا ہے۔ یہ انخلا 4 جولائی کو یعنی امریکہ کے یومِ آزادی تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔ اس یکطرفہ انخلا‘ جس میں اس امر پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی کہ انخلا کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا‘ نے افغانستان اور پڑوسی ریاستوں میں خاصی تشویش پیدا کر دی ہے‘ لیکن صدر اشرف غنی کی حکومت پُراعتماد ہے کہ وہ افغانستان پر اپنی حکمرانی جاری رکھے گی اور یہ کہ اس کے پاس افغانستان کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے خاصی فوجی اور تنظیمی صلاحیت موجود ہے۔ جاری معاملات پر نظر رکھنے والے زیادہ تر افغانوں کی سوچ اتنی رجائیت والی نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان شدید داخلی تنازعات کا شکار ہو جائے گا۔ کابل حکومت اور افغان طالبان‘ انخلا کے بعد کے دور میں‘ سیاست اور اقتدار میں اشتراک کا متفقہ فریم ورک تیار نہیں کرسکے ہیں۔ کابل حکومت چاہتی ہے کہ طالبان صدر اشرف غنی کے زیر صدارت اقتدار کے موجودہ ڈھانچے کو قبول کرلیں اور اقتدار کے حصول کیلئے انتخابات میں حصہ لیں۔ طالبان اشرف غنی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ کابل میں اسلامی دستور کے تحت باہمی طور پر قابل قبول حکومت چاہتے ہیں۔ افغانستان میں پچھلے دو صدارتی انتخابات میں تنازعات پیدا ہوئے تھے اور ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ مل کر کام کرنے پر محض اس لئے متفق ہوئے کہ امریکیوں نے ان کے اختلافات دور کرنے میں مدد کی۔ اب، طالبان اور افغان حکومت کے مابین باہمی عدم اعتماد کے باعث کوئی درمیانی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔
پاکستان، روس اور چین نے کابل حکومت اور افغان طالبان‘ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ترکی بھی اسی سوچ کا حامی ہے۔ ترکی نے افغانستان کے بارے میں ایک کانفرنس کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن طالبان نے اس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ وہ کانفرنس ملتوی کرنا پڑی‘ البتہ ترکی، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں داخلی امن معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
افغانستان میں داخلی سطح پر پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد ان واقعات کی شدت بڑھ جائے گی۔ افغانستان میں داخلی انتشار کے خوف کے پیشِ نظر امریکہ نے وہاں کی صورتحال کو کور دینے کیلئے ایک ایئربیس کی تلاش شروع کر دی ہے تاکہ افغانستان پر نظر رکھنے کیلئے وہاں سی آئی اے کا مانیٹرنگ سٹیشن قائم کیا جا سکے۔ امریکہ کا اپنے ڈرون طیارے بھی اس ایئربیس میں رکھنے کا ارادہ ہے۔ امریکہ اس معاملے پر پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والی دوسری ریاستوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
افغانستان سے متعلق ان پیشرفتوں نے پاکستان کیلئے مشکل سفارتی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ماضی میں افغانستان کی داخلی صورتحال میں براہ راست مداخلت کے اپنے تلخ تجربے کے پیش نظر پاکستان اب افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین تصادم میں براہ راست مداخلت سے گریز کا خواہاں ہے۔ وہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ سیاسی تصفیے کی راہ اپنانے کے مشورے دیتا رہا ہے۔ ان کوششوں کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں کیونکہ کابل حکومت ابھی تک افغانستان میں مستقبل کے داخلی سیاسی انتظامات کے بارے میں اپنے مطالبات اور طالبان کے مطالبات کے مابین کوئی درمیانی راہ تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک طرف کابل حکومت طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کیلئے پاکستان کے تعاون کی خواہاں ہے۔ دوسری طرف وہ الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان طالبان کی مدد کررہا ہے اور یہ کہ پاکستان میں طالبان کے تربیتی اڈے ہیں۔ کابل حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان افغانستان میں مستقبل کے سیاسی انتظامات کیلئے اس کی شرائط پر افغان طالبان کو اس کے حوالے کردے۔ یہ پاکستان کی استعداد سے بالاتر ہے‘ چنانچہ اندیشہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعدغنی حکومت پاکستان کیخلاف ایک نیا پروپیگنڈا شروع کردے گی۔ امریکہ کابل حکومت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا سے روک نہیں رہا ہے‘ تاہم، امریکہ آج کل پاکستان پر براہ راست تنقید سے گریز ضرور کررہا ہے کیونکہ اسے پاکستان میں کمیونی کیشن کی سہولت درکار ہے۔ لیکن اگر اسے پاکستان میں یہ سہولت نہیں ملتی تو پھر ممکن ہے وہ بھی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کے دنوں کی بات کریں تو پاکستان کو افغانستان میں براہ راست مداخلت کا تلخ تجربہ ہے۔ اگرچہ ضیاالحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں نے کچھ فوری سیاسی اور مالی فوائد اٹھائے، لیکن پاکستان کو داخلی اور خارجہ تناظر میں اسکی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ 1979-89 کے عرصے میں اور ستمبر 2001 کے بعد‘ یعنی جب افغانستان میں ابتدائی امریکی مقاصد پورے ہو گئے تو پاکستان کو امریکہ کی جانب سے نہ صرف نظرانداز کیا گیا بلکہ شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس سے پاکستان میں شدت پسندوں کو تقویت ملی اور سکیورٹی فورسز کو دہشتگرد گروپوں پر قابو پانے کیلئے 2014 تا 2018 قبائلی علاقوں میں ایک بڑی جنگ لڑنا پڑی۔ پاکستان میں کچھ سکیورٹی آپریشن کیے گئے۔
اس وقت پاکستان کی فکرمندی یہ ہے کہ اگر افغانستان میں داخلی تنازعات بڑھتے ہیں تو وہ مختلف نوعیت کے انتہاپسند گروہوں یعنی افغان طالبان‘ داعش (دولت اسلامیہ) اور القاعدہ کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادی پہلے ہی افغانستان میں مقیم ہیں۔ یہ گروہ پاکستان کو نشانہ بنانے کیلئے زیادہ سرگرم ہو سکتے ہیں۔ شمالی وزیرستان اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں دہشتگردی کی سرگرمیاں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔ اگر افغانستان کی داخلی صورتحال خراب ہوتی ہے تو یہ مسئلہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان کو دو طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ پہلا، اگر افغان طالبان کو افغانستان میں بالادستی یا غلبہ حاصل ہوگیا تو پاکستان میں موجود ان کے ہمدرد متحرک ہو جائیں گے اور وہ پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کی افغان طالبان کی کوششوں میں ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیں گے۔ اس سے پاکستان کیلئے شدید سکیورٹی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ دوسرا، اگر افغانستان کی داخلی صورتحال خراب ہوئی تو پاکستان میں مزید افغان مہاجرین داخل ہوں گے جبکہ پاکستان میں پہلے ہی کم و بیش بیس لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان باشندے مقیم ہیں۔ اگر امریکہ کو پاکستان میں کچھ فوجی اور انٹیلی جنس سہولت برقرار رکھنے کی اجازت مل گئی تو لاحق خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، جو ایسے فیصلے سے بے چین ہوگا۔ چین کیلئے ممکن نہ ہوگا کہ وہ پاکستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو ایشیا پیسیفک کے خطے میں چین کا راستہ روکنے کی امریکی کوششوں سے الگ کوئی انتظام سمجھے۔ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو روس، چین اور ترکی کے تعاون سے افغانستان میں سیاسی تصفیے کے امکانات بڑھانے میں مدد کرنی چاہئے تاہم، اسے از خود یا کسی بڑی طاقت کی طرف سے افغانستان کی داخلی صورتحال میں براہ راست مداخلت کی پرانی پالیسی پر واپس نہیں آنا چاہئے۔ پاکستان کی مشکل داخلی‘ معاشی اور سیاسی صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں داخلی تنازعات سے جتنا بھی دور رہ سکتا ہے‘ رہے۔ اسے سرحدوں کے دونوں اطراف سے لوگوں اور سامان کی غیر مجاز نقل و حرکت کو محدود کرنے کیلئے پاک افغان سرحد پر نئی لگائی گئی باڑ کا استعمال کرنا چاہئے۔ سکیورٹی فورسز کو افغانستان کی صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے کام کرنا چاہئے۔