تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     20-06-2021

غیر پارلیمانی زبان سے گالی تک

پاکستان کی پارلیمان میں جو کچھ ہوا بہت افسوسناک ہے۔ کچھ ''عزت مآب‘‘ اراکین کی دوسرے ''عزت مآب‘‘ اراکین کی یوں عزت افزائی کا عمل عام لوگوں نے حیرت و افسوس سے دیکھا۔ کئی رائے دہندگان کو اپنے فیصلے اور انتخاب پر پشیمانی اور ندامت ہوئی۔
دنیا بھر میں پارلیمان اور قانون ساز اسمبلیاں اپنے اندر بحث مباحثے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط طے کرتی ہیں۔ یہ قواعد و ضوابط تب سے بنتے آ رہے ہیں، جب سے یہ ادارے معرض وجود میں آئے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں کچھ روایات بھی بن چکی ہیں، جن کو قانون کی طرح احترام دیا جاتا ہے‘ چنانچہ پارلیمانی روایات بھی اتنی ہی اہم ہیں، جتنے قواعد وضوابط اور متعلقہ قوانین ہوتے ہیں۔ یہ وہ قواعد ضوابط اور روایات ہیں، جن کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ پارلیمان یا اسمبلی کے فلور پر بولا جانے والا کون سا لفظ یا فقرہ پارلیمانی ہے، اور کون سا غیر پارلیمانی۔ اس طرح ایک طویل پارلیمانی عمل میں کچھ الفاظ کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے، جن کے استعمال کو غیر پارلیمانی زبان کہا جاتا ہے۔
ان قواعد و ضوابط اور روایات کے باوجود بہت ساری جمہوریتوں میں بہت کچھ سپیکر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔ سپیکر کے ذمہ ایک اہم اور بنیادی کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی کے اندر مباحثے کے اصولوں کا نفاذ کریں اور ان کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی ممبر غیر پارلیمانی یا غیر اخلاقی زبان استعمال نہیں کر رہا ہے کیونکہ اس بات کا تعلق براہ راست پارلیمان یا اسمبلی کی وقار سے ہوتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی کی تعظیم کو یقینی بنائے۔
دنیا بھر میں الگ الگ جمہوری نظام ہیں، جن کے قواعد و ضوابط اور روایات میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ دولت مشترکہ کے جمہوری ممالک اکثر و بیشتر برطانوی پارلیمانی نظام کی تقلید ہی کرتے ہیں، جسے عام طور پر''ویسٹ منسٹر سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ویسٹ منسٹر سسٹم کے طرز پر چلنے والی بیشتر جمہوریتوں میں کچھ الفاظ اور فقروں پر اتفاق موجود ہے، جن کو غیر پارلیمانی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف ممالک کے پاس باقاعدہ فہرست ہوتی ہے، جس میں وہ الفاظ یا فقرے درج ہیں، جن کو غیر پارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے، اور ممبران سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کے استعمال سے اجتناب کریں۔ مثال کے طور پر دنیا کی بیشتر اچھی اور کامیاب جمہوریتوں میں کسی ممبر کو جھوٹا کہنا غیرپارلیمانی لفظ قرار دیا جا چکا ہے۔ کینیڈین پارلیمان نے تو بہت پہلے انیس سو انسٹھ میں ہی اس لفظ کو غیر پارلیمانی قرار دے دیا تھا۔ اٹھارہ سو پچھتر سے لے کر آج تک کینیڈیں پارلیمنٹ نے جتنے الفاظ اور فقروں کو غیر پارلیمانی قرار دیا ہے، ان کی فہرست ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس فہرست میں ایک سو سولہ آئٹم ہیں۔ بھارت میں پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں دو ہزار بارہ میں ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کتاب میں ان الفاظ اور فقروں کی فہرست ہے، جن کو غیرپارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے۔ ان میں علی بابا اور چالیس چور، گھٹیا آدمی، برا آدمی، بدمعاش، اندھا، بہرا، بے وقوف، کنفیوزڈ آدمی، ڈاکو، غنڈا، سست اور جھوٹا سمیت کئی الفاظ اور فقرے شامل ہیں۔ اسی طرح آئرلیند کی پارلیمنٹ میں عام الفاظ کے علاوہ فاشسٹ اور کمیونسٹ کے الفاظ بھی جب گالی کے معنوں میں استعمال کیے جائیں تو ان کو غیر پارلیمانی الفاظ قرار دیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پارلیمانوں کی ویب سائٹس پر ایسے الفاظ اور فقروں کی فہرست موجود ہے، جو غیر پارلیمانی تصور کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ کے ہائوس آف کامنز کی اس سلسلے میں دنیا بھر میں اور خصوصاً کامن ویلتھ میں نقالی کی جاتی ہے۔ اس پارلیمان نے لمبی تاریخ کے دوران کئی الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا ہے۔ ان میں جھوٹا، منافق، بے وقوف اور غدار جیسے الفاظ بھی شامل ہیں۔ کچھ پارلیمان ایسے بھی ہیں، جن میں غیر پارلیمانی الفاظ کی کوئی فہرست نہِیں ہے، لیکن ممبران بہرحال شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں، اور اخلاق کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ ان ممالک میں ہے، جہاں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر پارلیمان کے ممبران پر کسی قسم کی پابندی کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بلجیم میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک جمہوری ریاست کے اندر آزادی سے بولنا ایک ممبر کا آئینی حق ہے۔ یہاں اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر ایک ممبر کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے ممبران کو گالیاں دے یا ناشائستہ زبان استعمال کرے۔
دنیا کی بیشتر پارلیمان کے ممبران کے ساتھ ''آنریبل‘‘ یعنی عزت مآب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ممبر کی طرف سے دوسرے عزت مآب ممبر کو چور، ڈاکو یا لچا لفنگا کہنا کافی عجیب لگتا ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمان اور اسمبلیوں کے اندر ممبران کو ناشائستہ، غیراخلاقی یا غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے روکنے کا باقاعدہ میکنزم اور طریقہ کار موجود ہے۔ بہت ہی نرم سطح پر سپیکر ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کو اپنے الفاظ واپس لینے کا کہہ سکتا ہے۔ ان الفاظ کو اسمبلی کی کارروائی سے حذف کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ کچھ پارلیمان میں اگر ممبر ایسا کرنے سے انکار کر دے تو سپیکر اس کو معطل کرنے اور باہر نکلنے کا حکم جاری کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر اسمبلی کے اپنے قوانین و روایات ہیں۔
ساری روایات اور قواعد و ضوابط کے باوجود بسا اوقات جس طرح کی زبان پاکستان کی پارلیمان میں بولی جاتی ہے، یا جو حرکات و سکنات، اور اچھل کود کی جاتی ہیں، اس کی مثال دنیا کی کسی باعزت اسمبلی میں موجود نہیں ہے۔ اگر اس طرز عمل پر سوال اٹھایا جائے تو کسی غیر جمہوری یا نیم جمہوری ملک کی مثال پیش کرکے اپنے اس غیراخلاقی عمل کو جوا زیت مہیا کی جاتی ہے حالانکہ مثال ہمیشہ اپنے سے بہتر کی ہی بنتی ہے، اور نقل تو لازمی طور پر بہتر کی ہی جائے تو تبھی سود مند رہتی ہے۔ یہ تو پارلیمانی اور غیر پارلیمانی الفاظ کی بات ہے، لیکن جس اسمبلی میں عزت مآب ممبر آف پارلیمنٹ دوسرے عزت مآب ممبر کو ننگی گالیاں دے اور گالی کو دوسرے کو بے عزت کرکے چپ کرانے کے لیے باقاعدہ بطور ہتھیار استعمال کرے وہاں پارلیمانی یا غیر پارلیمانی زبان کی کیا بات کی جائے۔ یہ زوال، اخلاقی گراوٹ، اور پستیوں میں گرنے کی آخری حد ہے، جس کا الفاظ میں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ماضی کی پارلیمان میں کبھی غیر شائستہ زبان استعمال نہیں ہوئی یا مار دھاڑ اور دھکم پیل نہیں ہوئی۔ یقیناً اس کی مثالیں موجود ہیں، اور قابل مذمت ہیں۔ ان کی کوئی جوا زیت موجود نہیں ہے‘ لیکن گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں جس سکیل پر یہ واقعات ہو رہے ہیں، ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ادارے کو شعوری طور پر بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ چور، ڈاکو، منافق اور جھوٹے جیسے الفاظ کو دنیا بھر کی پارلیمان نے غیرپارلیمانی قرار دیا ہے، لیکن ہمارے ہاں ان الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہو رہا ہے۔ اس طرز عمل کو اگر پارلیمان کی مجموعی کارکردگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو مایوس کن تصویر ابھرتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جس زبان کو با قاعدہ غیر پارلیمانی، ناشائستہ اور غیراخلاقی قرار دیا جا چکا ہے، ہمارے ہاں اس سے اجتناب تو ایک طرف یہاں نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ گندی گالیوں کے تبادلے کا مقابلہ ہوتا ہے، جو پارلیمان اور عوام کے منہ پر طمانچہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved