تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     20-06-2021

بڑی گالی

جھورے کا تنور ہوٹل آج پھر سیاسی گرما گرمی کی لپیٹ میں تھا۔ محلے کے مرد گرم دن ڈھلنے پر رات کو روٹیاں لینے یہاں آتے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اس بحث میں بھرپور حصہ لیتے اور گویا اپنی روٹیاں تھاپ کر چلے جاتے تھے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن میں بجٹ اپنے مخالفوں پر پھینک مارنا اور فحش کلامی دو دن پرانی بات ہو چکی تھی۔ آج کا مسئلہ یہ تھا کہ شیخ روحیل اصغر صاحب نے اپنے انٹرویوز اور بیانات میں فحش گالیوں کو سندِ جواز بخشا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گالی تو پنجاب کا کلچر ہے۔ ٹی وی اینکر نے کوشش کی کہ وہ کسی بھی طرح کا اظہارِ شرمندگی یا اظہارِِ افسوس کر دیں لیکن شیر کے بچے نے آخر تک اس کی یہ مذموم کوشش پوری نہیں ہونے دی۔ بات اس بات پر ختم ہوئی کہ رکن اسمبلی نے اینکر سے کہا: خدا نہ کرے آپ مجھے کبھی ووٹ دیں‘ اور اینکر نے کہا: خدا نہ کرے میں گالی کو پنجاب کا کلچر کہنے والے کو کبھی ووٹ دوں۔
شیخ جاوید محلے کی قد آور شخصیت ہیں۔ سیاست میں ان جیسی دل چسپی رکھنے والا کوئی اور نہیں۔ نون لیگ کے پکے حامی ہیں۔ میں ظہور کے ہوٹل پر پہنچا توکافی محلے دار اکٹھے تھے اور ہمہ تن گوش انہی کی باتیں سن رہے تھے ''میں تو کہتا ہوں کہ نون لیگ کو چاہیے اس بات پر ایکشن لے۔ یہ تو بڑی 'بیستی‘ کی بات ہے پارٹی کے لیے۔ ہماری پارٹی کا اکثر حصہ اور ووٹ بینک تو ہے ہی پنجاب میں۔ اب ہمارا بندہ ہمارے ہی گھر کا چہرہ خراب کرے تو سزا تو بنتی ہے۔ مان لیا کہ زیادتی پی ٹی آئی والوں نے کی تھی اور نون لیگ والوں نے جوابی کارروائی کی۔ شیخ روحیل اصغر نے بھی جوابی گالیاں دیں لیکن اب اس بات کا دفاع کون کرے جو انہوں نے انٹرویو میں کہہ دی۔ اب بھلا...‘‘
ان کی بات جاری تھی کہ اسلم صاحب نے درمیان میں کاٹ دی ''کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ یہ خواجہ آصف نے کہا تھا نا! اب یہی جملہ ان کی پارٹی کے لیے دہراؤں تو بالکل برمحل ہو گا‘‘۔ اسلم صاحب پیپلز پارٹی کے حامی ہیں‘ سو پی ٹی آئی کے پکے مخالف‘ لیکن وقت آنے پر نون لیگ کو بھی رگیدنے میں ان کا جواب نہیں۔ بولے ''پہلے تو یہ سوچا جا سکتا تھا کہ انہوں نے ایوان میں مشتعل ہو کر جوابی طور پر گالیاں دیں اور بجٹ کی کاپیاں دے ماریں لیکن اب انٹرویو میں کس نے مشتعل کیا انہیں؟ یہاں تو معمولی سی شرمندگی بھی نہیں دکھائی انہوں نے۔ بس اتنی مہربانی کی کہ اینکر کو گالی نہیں دے ڈالیں۔ دے بھی سکتے تھے کہ ان کے مطابق یہ تو پنجاب کے کلچر کا حصہ ہے‘‘۔
گرم تنور کے قریب کھڑے خواجہ عامر مشتعل ہو گئے ''کون کہتا ہے کہ گالی پنجاب کا کلچر ہے‘ میں تو نہیں مانتا۔ میاں محمد بخش، بلھے شاہ، وارث شاہ کی کون سی کتاب میں گالیاں ہیں؟ گالیاں تو ہر زبان میں ہوتی ہیں۔ کون سی زبان ان سے خالی ہے۔ موجودہ انگریزی خاص طور پر امریکن انگریزی میں کون سی روزمرہ گفتگو ہے جو چہار حرفی لفظوں سے بے نیاز ہو۔ فکشن اور ناولز تک میں موجود ہے۔ گھروں میں بھی لڑکیاں لڑکے عام بول رہے ہوتے ہیں‘ لیکن کیا اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گالی برطانوی یا امریکی کلچر کا حصہ ہے؟‘‘
وسیم صاحب بینک کار ہیں اور بات دلیل سے کرتے ہیں۔ کہنے لگے ''بات تعلیم اور تربیت کی ہے۔ بات گھرانے کی ہے۔ بات ماحول کی ہے۔ یہ سب مل کر کلچر کا حصہ بنتے ہیں۔ تعلیم نہ ہو، تربیت نہ ہو، ماحول برا ہو تو پھر گالی ہی کلچر کا حصہ بنے گی۔ بلھے شاہ، وارث شاہ اور میاں محمد بخش تو بننے سے رہے۔ شیخ صاحب بھلے گالی کو اپنے کلچر کا حصہ کہیں لیکن ہمیں براہ کرم بخش دیں کہ ہم فخر سے اپنے آپ کو پنجابی کہتے ہیں اور ہرگز اسے اپنا کلچر نہیں سمجھتے‘‘۔
میاں اعجاز صاحب سب کی خبر لینا اپنا حق سمجھتے ہیں ''بات یہ ہے کہ جب میں نے نواز اعوان اور شیخ روحیل اصغر سمیت بہت سے لوگوں کی گالیاں سنیں تو میں سکتے میں آ گیا۔ یہ تو بجٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ بد تمیزی شروع کس نے کی۔ گوہر بلوچ کے نعروں سے شروع ہوئی یا پہلے وزیر خزانہ کی تقریر کے وقت اپوزیشن نے اس کی بنیاد ڈالی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس کس نے اس میں حصہ لیا۔ یہ چھوڑ دیں کہ پہلے یا بعد میں۔ دوسری بات یہ کہ پھر مخالف سے گلہ کیسا؟ وہ بھی تو اپنے کلچر کا حق ادا کر رہا تھا۔ پھر میں نے کامران خان کے شو میں شفقت محمود صاحب کے جواب سنے۔ بالکل جواب نہیں دے پا رہے تھے۔ بس یہی کہتے رہے کہ معاملہ افسوس ناک ہے لیکن شروع نون لیگ نے کیا اور ہمارے کچھ لوگ اشتعال میں آ گئے‘‘۔ وہ شاید اس بات کا احساس ہی نہیں رکھتے کہ یہ کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک وفاقی وزیر ڈیسک پر چڑھ کر بجٹ کاپیاں پھینکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔
ہوٹل میں چائے پینے والا ایک نا معلوم آدمی توجہ سے باتیں سن رہا تھا۔ وہ بول اٹھا ''اور یہ بھی کوئی سزا ہوئی کہ سات افراد کا ایوان میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے‘ ایسی سزا تو کلاس مانیٹر بھی بچوں کو نہیں دیتا۔ کوئی سخت سزا ہوتی ہے‘ اور وزیروں کے خلاف کارروائی؟ وہ کہاں ہے؟ وہ بالکل معصوم بن کر سزا سے بچ گئے۔ اگر سپیکر صاحب اسمبلی کو سنبھال نہیں سکتے اور غیر جانب دار ہو کر کارروائی نہیں کر سکتے تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ سب تو پھر آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ پھر تو وہ اہل ہی نہیں ہیں اس عہدے کے۔ انصاف وہ ہے جو ہو بھی اور ہوتا نظر بھی آئے‘‘۔
فاروقی صاحب دھیمے مزاج کے آدمی ہیں۔ کہنے لگے ''سپیکر کی غلطی اور کمزوری تو بالکل عیاں ہے۔ تین دن ایسا ہنگامہ ہو اور وہ چپ کر کے تماشا دیکھیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟ سچ اور بالکل سچ تو یہ ہے کہ بد کلامی، ہنگامہ آرائی اور کتابیں پھینکنے کی حرکتیں دونوں طرف سے ہوئیں‘ اور یہ انفرادی بات بھی نہیں تھی۔ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ پالیسی اوپر کی سطح سے نہ دی گئی ہو۔ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے‘‘۔ ہوٹل کا مالک ظہور جھورا سب سن رہا تھا‘ رہ نہ سکا اور بولا ''باؤ جی! میں نے ٹی وی پر سنا ہے کہ کسی شہری نے رٹ بھی کر دی ہے کچھ لوگوں کے خلاف۔ ہو سکتا ہے جو کام سپیکر نہ کر سکے، وہ جج صاحب کر دیں‘‘۔ اس پر کئی لوگ اکٹھے بول اٹھے ''ایسی کتنی ہی رٹیں نظامِ عدل کی الماریوں میں بھری پڑی ہیں۔ کیا ہو گا۔ کچھ دن بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ ایسی کوئی رٹ ہوئی بھی تھی‘‘۔
میں کافی دیر سے کچھ کہنے کے انتظار میں تھا۔ شور کچھ مدھم ہوا تو میں نے کہا ''یہ طے کریں کہ بڑی گالی کون سی تھی؟ ایک رکن اسمبلی نے بجٹ سیشن میں اپنے مخالف کو گالی دی۔ گالی نہیں بلکہ گالیاں‘ الو، جاہل وغیرہ نہیں بلکہ غلیظ گالیاں۔ اس نے پہلے گالیاں دیں یا بعد میں، اس سے بحث نہیں۔ ان گالیوں کا مخاطب ایک آدمی یا ایک پارٹی تھی۔ ان کی زد میں وہی لوگ تھے، پورا ایوان نہیں۔ لیکن پھر ایوان سے باہر آ کر اگلے دن اس نے کہا: یہ میرے کلچر کا حصہ ہے۔ اس بار مخاطب ایک شخص یا ایک پارٹی نہیں تھی۔ پورا ملک‘ پوری قوم اس کے مخاطب تھے۔ پورا پنجاب اس کی زد میں آتا تھا۔ اس نے سب کو گھسیٹ لیا۔ اس نے ایک خوبصورت کلچر کو بد صورتی سے جوڑ دیا‘ اور وہ اس پر ہرگز شرمندہ نہیں۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ دونوں میں بڑی گالی کون سی تھی؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved