اکیسویں صدی نے بہت کچھ بہت تیزی سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ کل تک امریکا ہر معاملے میں یک طرفہ بنیاد پر اقدامات کرتا تھا اور باقی دنیا محض تماشائی بنی دیکھتی رہتی تھی۔ جن پر جو بیتنی ہوتی تھی وہ تقدیر کے لکھے کے طور پر گزر ہی جاتی تھی۔ یورپ کو جغرافیائی قربت کے باعث امریکا کا ساتھ دینا ہی پڑتا تھا۔ دونوں نے مل کر سات عشروں سے زائد مدت تک پوری دنیا کا ناک میں دم کیے رکھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکا ہانپ رہا ہے۔
امریکا کی بھرپور طاقت دیکھتے ہوئے دنیا ایسی مرعوب ہوگئی تھی کہ کسی بھی تبدیلی کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب امریکا یورپ کی چند طاقتوں کے ساتھ تین چار صدیوں تک پوری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا رہے گا۔ یہ سوچ بھی عجیب ہی تھی۔ اسی دنیا نے مسلمانوں سمیت ایسی کئی عالمی قوتیں دیکھی ہیں جنہوں نے صدیوں تک عالمی معاملات پر راج کیا۔ یورپی طاقتوں نے بھی کئی صدیوں تک دنیا کے معاملات چلائے۔ امریکا اور یورپ کا ایک پلیٹ فارم پر آ جانا باقی دنیا کے لیے انتہائی پریشانی اور تشویش کا باعث تھا کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ دونوں مل کر پوری دنیا کو صدیوں تک اپنی مٹھی میں رکھیں گے۔
دنیا اپنی چالیں چلتی ہے اور اللہ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے۔ جب بھی کسی کو باقی دنیا پر حکمرانی کا موقع عطا کیا جاتا ہے تو چند ایک ذمہ داریاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔ جب تک کسی کے حقوق غصب نہیں کیے جاتے تب تک حکمرانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب انصاف داؤ پر لگ جاتا ہے اور محض ذاتی یا گروہی مفادات کا تحفظ ہی زندگی کا بنیادی مقصد ٹھہرتا ہے تب اللہ کی طرف سے ڈوریں ہلائی جاتی ہیں۔ تب ظالموں سے اقتدار چھین کر اُن کے ہاتھوں میں دے دیا جاتا ہے جو جبر سہتے آئے ہوں۔ مسلمانوں کا اقتدار بھی اللہ کے اصولوں پر کاربند رہنے تک ہی برقرار رہ پایا۔ اللہ کے اصول اور سُنّت میں کسی کے لیے کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے نہ رعایت ہی کا پہلو نکل پاتا ہے۔
یورپی طاقتیں کم و بیش چار صدیوں تک دور و نزدیک کے کئی خطوں کو تاراج کرکے اپنی تجوریاں بھرتی رہیں۔ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ پرتگال اور ہالینڈ نے افریقہ سمیت کئی خطوں کو شدید جبر کے ساتھ زیرِ نگیں رکھا اور ان خطوں کے ممالک کو معاشی و معاشرتی اعتبار سے کمزور رکھنے پر پوری توجہ دی۔ جب یورپی طاقتیں کمزور پڑیں اور دو عالمی جنگوں نے انہیں باقی دنیا پر حکومت کرنے کے قابل نہ چھوڑا تو امریکا سینہ تان کر سامنے آگیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بطن سے امریکا سپر پاور بن کر ابھرا۔ یورپ کی بچی کھچی طاقتیں اُس کے ساتھ ہوگئیں۔ امریکا نے سابق سوویت یونین سے سرد جنگ کا پورا دور بھرپور طاقت کے ساتھ گزارا۔ اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تو کوئی اُسے ٹوکنے والا بھی نہ رہا۔
امریکا نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تین عشروں کے دوران جو کچھ کیا ہے اُس نے ویسے تو پوری دنیا میں خرابیاں پیدا کی ہیں مگر مسلم دنیا بالخصوص نشانے پر رہی ہے۔ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا اور شام کو مکمل تباہی سے دوچار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل صومالیہ اور اُس سے جُڑی ہوئی دوسری ریاستوں میں بھی شدید نوعیت کی نراجیت پیدا کی گئی۔ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنے پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ ایک تو بھارت زیادہ نہ ابھر پائے اور دوسری طرف چین بھی پَر پھیلاتے ہوئے کچھ سوچے۔ پاکستان کے لیے یہ سب کچھ سوہانِ روح ہے کیونکہ افغانستان کے کاندھے پر رکھ کر چلائی جانے والی بندوق کے نشانے پر چین کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا بھی تو مغربی پالیسی میکرز کی ترجیحات میں سرِفہرست ہے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے دوسروں کی جنگیں پاکستان پر تھوپی جاتی رہی ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے اندرونی تضادات اور تقسیم در تقسیم سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرنے کی دوڑ میں اب امریکا کا سانس پُھول رہا ہے۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ ہو نہیں پارہا۔ یورپ کے لیے ہر معاملے میں آنکھیں بند کرکے امریکا کا ساتھ دینا اب ممکن نہیں رہا۔ برطانیہ اب بھی امریکا کے ساتھ چلنے کو ترجیح دے رہا ہے مگر فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی اور دیگر یورپی طاقتیں چاہتی ہیں کہ امریکا کی اندھی تقلید سے گریز کیا جائے اور اُس کا اندھا دھند ساتھ دینے کی روش ترک کی جائے۔ اس کے نتیجے میں امریکا اکیلا پڑتا جارہا ہے۔ اس اکیلے پن کو بھانپتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ لگایا اور دنیا بھر میں امریکا کی کمٹمنٹس کا گراف نیچے لانے پر توجہ دی۔ معاملہ یہ تھا کہ امریکا نے مسلم دنیا سمیت دنیا بھر میں کئی عشروں کے دوران بہت سی خرابیاں پیدا کی تھیں۔ کئی ممالک اور معاشرے مکمل تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان تباہ حال ریاستوں اور معاشروں کی تعمیرِ نو کی ذمہ داری بھی امریکا پر عائد ہوتی تھی۔ یہ کام آسان نہ تھا۔ تباہی تو امریکا نے مچادی مگر جب تعمیرِ نو کا مرحلہ آیا تو معاملات سے جان چھڑانے کو ترجیح دی گئی۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے تک فضا سی بن گئی کہ امریکا دنیا بھر میں مداخلت سے باز رہے اور اُتنی ہی طاقت دکھائے جس کے نتائج خود بھی برداشت کرسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے چاہا کہ امریکا کے سر سے کسی بھی ملک یا خطے کے حالات بہتر بنانے کا بوجھ اتر جائے۔ سابق حکومتوں نے بہت سے ممالک کو تباہی سے دوچار کیا مگر ٹرمپ نے چاہا کہ امریکا تعمیرِ نو کا پابند نہ رہے۔ اس کے لیے لازم تھا کہ امریکا کے اندرونی معاملات کو ترجیح دی جائے۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ نعرہ لگایا کہ امریکا کو اندرونی استحکام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور باقی دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر بھی مسلم دنیا میں مزید پُھوٹ ڈالنے کی کوشش سے گریز نہیں کیا گیا۔ بالخصوص مسلم دنیا میں انتشار کا گراف بلند کرنے کی بھرپور سعی کی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے پر جو بائیڈن نے امریکا کا نظم و نسق سنبھالا ہے۔ انہوں نے امریکا کی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت بحال کرنے پر زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا کو اپنی عالمی ذمہ داریوں سے جان نہیں چھڑانی چاہیے۔ جو بائیڈن کا استدلال ہے کہ عالمی اداروں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اور عالمی نظام کو سلامت رکھنے کی خاطر کوئی ایسی طاقت چاہیے جس سے سبھی دب کر رہیں۔ جو بائیڈن اور اُن کے ہم خیال افراد کی نظر میں امریکا اتنی قوت کا حامل ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکا کا دور تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کو چلانے کی کوشش میں امریکا اُسے الجھنوں کے گڑھے میں گرا چکا ہے۔ ہر معاملے میں صرف اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی کوشش کے باعث دنیا امریکا کے ہاتھوں شدید پیچیدگیوں سے اَٹ گئی ہے۔ امریکی پالیسی میکرز یہ حقیقت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے‘ امریکا کی طاقت وہ نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی اور اب میدان میں کئی حریف موجود ہیں۔ چین اُن میں نمایاں ہے۔ یورپی طاقتیں بھی ہر معاملے میں امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کر رہی ہیں۔ ایسے میں امریکا کی واپسی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے؟ جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ عالمی امور میں امریکا کی وہی حیثیت بحال ہو جائے جو کم و بیش سات عشروں تک رہی ہے۔ ایسا اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین ابھر چکا ہے۔ روس بھی عالمی امور میں اپنی بات منوانے کے لیے تگ و دَو کر رہا ہے۔ وہ علاقائی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرچکا ہے۔
اب فیصلہ کن کردار مسلم دنیا کا ہوگا۔ مسلم دنیا کے قائدین اگر جامع مشاورت سے طے کریں کہ عالمی سطح پر اپنے لیے کوئی گنجائش پیدا کرنی ہے تو پھر چین یا مغرب میں کسی ایک کا ساتھ دینے سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا پڑے گا۔ مغرب مسلم دنیا کو تقسیم کرتے رہنے کے درپے ہے۔ اس تقسیم کے ختم ہونے تک معاملات مسلم دنیا کے حق میں نہیں جاسکتے۔ امریکا کی واپسی روکنے کیلئے حقیقت پسندی پر مبنی حکمتِ عملی ترتیب دینا لازم ہے۔