تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-06-2021

سرخیاں، متن اور افضال نوید

امریکاکو اڈے ہرگز نہیں دیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''امریکا کو اڈے ہرگز نہیں دیں گے‘‘ اور یہ بات میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں، اصولی طور پر یہ بات ایک بار ہی کہہ دینا کافی ہے؛ تاہم جتنی بار میں نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او نہیں دوں گا، یہ بیان بھی اب اسی لہجے میں آ رہا ہے اور این آر او والا بیان چونکہ اب کافی پرانا ہو چکا ہے اس لیے اس بیان کی جگہ اب اس بیان نے لے لی ہے۔ آپ اگلے روز ایک امریکی ٹی وی کے پروگرام میں شریک تھے۔
اے پی سی بلانے کی تجویز بروقت
اور مناسب ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اے پی سی بلانے کی تجویز بروقت اور مناسب ہے‘‘ اور یہ بروقت اس لیے ہے کہ ہمارے پاس کرنے کو اور کچھ رہ ہی نہیں گیا، حتیٰ کہ لانگ مارچ بھی بیکار ہی نظر آ رہا ہے اس لیے اے پی سی بلانے سے قوم کو یہ تو معلوم ہو گا کہ ہم کچھ کر رہے ہیں جبکہ حکومت گرانے کا سارا کام اب خدا کے سپرد کر دیا گیا ہے کیونکہ ہم نے اس کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور اب ہم انتخابات کی شفافیت کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دو جماعتوں نے ملک کے ساتھ جو کیا
وہ سب کے سامنے ہے: شفقت محمود
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ ''دو جماعتوں نے ملک کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے‘‘ اور ملک کے ساتھ جو کچھ ہماری جماعت کر رہی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر جماعت اقتدار میں آ کر اپنی بساط کے مطابق ملک کے ساتھ یہی کچھ کیا کرتی ہے کیونکہ ملک کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں ہوتا اس لیے اس کے ساتھ جو بھی کیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ ہمارا امتیاز یہ ہے کہ ہماری حکومت کے دوران ہی جو کچھ ہم نے ملک کے ساتھ کیا ہے‘ کھل کر سامنے آ گیا ہے جبکہ دوسری جماعتوں کے کارہائے نمایاں ان کی رخصتی کے کہیں بعد سامنے آئے تھے کیونکہ ہماری کارگزاری شروع سے ہی شفاف چلی آ رہی ہے بلکہ جو کچھ ہم سے نہیں ہو سکا‘ وہ بھی نظر آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
عوام کا حکومت اور اداروں پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا : سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام کا حکومت اور اداروں پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے‘‘ اور یہ بات بے حد تشویش انگیز ہے اس لیے حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ جلد از جلد عوام میں اپنا اعتماد بحال کریں جس کے لیے خاکسار کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں کیونکہ اگر میں اور کچھ نہیں کر سکا تو کم از کم اتنا تو کر ہی سکتا ہوں اور اس میں مجھے کوئی مشکل بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ جب میں جماعت پر عوام کا اعتماد بحال کر رہا ہوں تو ساتھ ہی حکومت پر بھی کرتا رہوں گا یعنی ایک پنتھ دو کاج، اور اگر ایک ہی وقت میں دو کام کر دیے جائیں تو اس سے کافی وقت بچ رہتا ہے، خاص طور پر ہمارا، کیونکہ ہم وقت کی قدر و قیمت دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ اگلے روز فیصل آباد بار سے خطاب کر رہے تھے۔
آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے: عمر ایوب
وفاقی وزیر برائے معاشی امور عمر ایوب نے کہا ہے کہ ''آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے‘‘ کیونکہ جو کچھ آئی ایم ایف ہمارے ملک کے ساتھ کرنا چاہتی ہے، ہم بھی وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں اور دونوں مل کر ہی ملک کے ساتھ کچھ کر سکتے تھے اور یہ ایک اجتماعی کوشش ہو گی، کیونکہ اتنے بڑے ملک کے ساتھ اکیلے نہ وہ کچھ کر سکتی ہے نہ ہم، اور اتفاق میں برکت بھی ہوتی ہے جبکہ برکت کا بہت سا دارومدار حرکت پر بھی ہے اس لیے ہم بھی اس حرکت پر مجبور ہیں جبکہ سابقہ حکومتیں بھی یہی کچھ کرتی چلی آئی ہیں۔ نیز آئی ایم ایف کے عزائم دنیا بھر پر واضح ہیں کہ معاشی طور پر کمزور ملکوں کے ساتھ وہ کیا کچھ کیا کرتی ہے۔ آپ اگلے روز برطانوی خبر رساں ایجنسی سے بات کر رہے تھے۔
بدعنوان ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''بدعنوان عناصر ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں‘‘ لیکن ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کرتے رہیں گے کیونکہ اگر ہمیں اقتدار مل گیا ہے تو ہم ان کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے کیونکہ انہیں اقتدار میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا تھا کہ وہ بدعنوانی شروع کر دیں؛ چنانچہ ہم نے انہیں صاف کہہ دیا ہے کہ اس طرح وہ ہماری بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس لیے میں انہیں آخری وارننگ دے رہا ہوں کہ اپنے طور اطوار درست کر لیں ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہوگا، اور یہ بات پوری سنجیدگی سے کہی گئی ہے۔ آپ اگلے روز نون لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی شاعری:
نجوم و ماہ کا کر کے حصار نکلا ہوا
ہر ایک سمت سے تھا انتظار نکلا ہوا
اک اختیار میں بھی اختیار اور تھا کچھ
اک انتشار سے بھی انتشار نکلا ہوا
نہ جانے کون سے بن میں پڑائو تھا اس کا
تھا ساتھ لے کے پرندوں کی ڈار نکلا ہوا
حصارِ شب کی جہاں منجمد فصیلیں تھیں
وہیں کہیں تھا دلِ بے قرار نکلا ہوا
لپٹ رہے تھے مرے دل سے آبشار نویدؔ
میں دیکھتا رہا دریا کے پار نکلا ہوا
٭......٭......٭
مکانِ خواب میں جنگل کی باس رہنے لگی
کوئی نہ آیا تو زینوں پہ گھاس رہنے لگی
ترے وجود کا جب سے لباس رہنے لگی
لیے دیے ہوئے مجھ سے کپاس رہنے لگی
یہ اور بات انوکھی سی پیاس رہنے لگی
مری زبان پہ اس کی مٹھاس رہنے لگی
جھلک تھی یا کوئی خوشبوئے خدوخال تھی وہ
چلا گیا تو مرے آس پاس رہنے لگی
بگاڑ جس سے ہو پیدا کوئی بگاڑ نہیں
سو معجزے کی مرے دل کو آس رہنے لگی
مغائرت سے بھری تیرگی کے بیچ نویدؔ
اک اندرونی رمق روشناس رہنے لگی
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں‘ ظفرؔ
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved