ہم گھر سے نکلتے تو لوگ سمجھتے کہ یہ تو کوئی نواب ہیں، نوابزادے ہیں۔ ضرور ان کے ابا جی کے ہاتھ کوئی خفیہ خزانہ لگ گیا تھا۔ ان کے والد نے پاکستان بننے کے بعد ریلیف کمیٹی کے انچارج کی حیثیت سے لمبا پیسہ مارا ہے۔ خود میرے کلاس فیلوز کئی بار اس بارے میں مجھ سے استفسار کیا کرتے تھے۔
ایک بڑا سا احاطہ، سرسبز احاطہ جس میں آم، امرود، جامن کے پیڑ، گلاب، چنبیلی اور رویل کے پھولدار پودے، زیتون اور انجیر کے گھیرے دار، شیشم اور بکان کے گہری چھائوں والے پیڑوں نے ایک بہار قائم کر رکھی ہو، گائوں کے بڑے بوڑھے دوا اور دعا کے لیے، مسافر ٹھنڈے پانی اور خنک چھائوں کے لیے وہاں آ جا رہے ہوں، چار بیٹے اور ایک بیٹی ملک کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو ایسا گمان جائز بنتا ہے۔ اس پر مستزاد ابا جی پڑھے لکھے اخبار سامنے رکھے شیروانی اور کلہ دار پگڑی باندھے ٹھسے سے گائوتکیہ لگا کر بیٹھے ہوں۔ سامنے فرشی حقہ اور ایک ملازم آگے پیچھے، علاقے میں شہرت ایک عالم، مقرر، مذہبی لیڈر اور شاعر کی ہو اس پر قائد اعظم کی بنائی ہوئی ریلیف کمیٹی کے سربراہ بھی ہوں تو بات سچی لگنی ہی تھی۔ مرنجاں مرنج اور وسیع المشرب ایسے کہ ان سے ملنے والوں میں سکھ اور چوالیس چک والے عیسائی مذہب کے ماننے والے بھی ہوں۔ مریدین کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہو تو کس نے یقین کرنا تھا کہ میرے ابا جی صرف ایک سفید پوش آدمی ہیں۔ محض سفید پوش صرف بھرم بھائو والے آدمی۔ مجھے ان کو دیکھ کر یہ سبق حاصل ہوا کہ عزت روکھے سوکھے سے بھی مل سکتی ہے صرف روپیہ پیسہ ہونا شرط نہیں۔
جونہی ہم سب بہن بھائی گھر میں داخل ہوتے تو وہ سارا بھرم‘ جو باہر پیڑوں اور پھولوں والے احاطے کے اندر قائم ہوتا‘ چھناکے سے ٹوٹ جاتا۔ باہر سفید پوش کا بھرم اندرونِ خانہ صبر اور قربانی کا پیکر۔ ماں گھر کے کام کاج میں مصروف‘ صبح ''وڈی سرگی‘‘ اٹھتیں اور عشا تک بچوں اور والد کی خدمت میں ہمہ تن مصروف۔ یہی ان کی کل کائنات تھی؛ بچوں کی زندگی اور ان کی پڑھائی۔ ابا جی جو تھوڑا بہت کماتے‘ عین مین والدہ کے سپرد کر دیتے۔ اب مجال ہے ان روپوں پیسوں کی کسی کو خبر لگے کہ وہ کس پاتال میں اتر گئے یا کون سا آسمان کھا گیا۔ ہم ضد کرتے تھک جاتے مگر آدھ روپیہ تک عنایت نہ ہوتا۔ منہ بسور کر بیٹھو‘ کھانا پینا چھوڑ دو مگر پیسہ نہیں ملنا۔ میں تو بہت جاسوسی کرتا‘ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتا مگر وہ خزانہ تو نہ ملنا تھا نہ ملتا۔ گھر میں ایک بڑا سا لکڑی کا صندوق تھا جس کی ایک جانب دہرا تالا نصب تھا۔ اس کی چابیاں بھی دو ہوتیں، اچانک ایک دو ماہ کے بعد چابیاں کہیں سے برآمد ہوتیں۔ تالا کھلتا‘ اندر سے ایک سنہری ڈبہ نکلتا جس میں سو سو اور پچاس پچاس کے الگ نوٹ ترتیب سے پڑے ہوتے۔ ادھر ہم بھائیوں کی فیسوں کا وقت‘ ہاسٹلوں کے بلوں کا وقت آتا‘ وہ فیسیں اور بل ادا ہوتے اور سنہری ڈبہ بالکل خالی ہو جاتا۔
ابا جی شاعر تھے؛ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی زبانوں کے عالم تھے۔ عربی اور فارسی ادب سے گہری شناسائی تھی۔ خود ان کی تصانیف کی تعداد اٹھائیس کے قریب ہے۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو گھر میں دیوانِ حضرت علیؓ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا کلام، فصوص الحکم، من و یزداں، نسخہ دیوانِ غالب فقیر سہا والا، کشف المحجوب، اردو کے تمام اساتذہ کے دواوین، حالی کا مقدمۂ شعر و شاعری، شیخ سعدی کی کتب گلستان اور بوستان، گیارہویں والی سرکار کی فتوح الغیب اور قصیدہ غوثیہ کو دیکھا اور سنا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر سعادت علی ثاقب کی نگرانی میں ان پر تھیسس بھی ہو چکا ہے۔ ان کی لوک داستانوں پر پروفیسر اکبر علی غازی پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں۔ نومبر 97ء میں ان کا انتقال ہوا تو مقصود ثاقب نے ماں بولی کا سراج قادری نمبر شائع کیا تھا۔ اس شمارے میں ان کی لوک داستان سوہنی مہینوال سے منتخب کلام شائع کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے تقسیم کار اردو بازار کے ایک معروف پبلشر تھے۔ انہوں نے اس کتاب کی ساری آمدنی ڈکار لی اور اب بھی ایسے ملتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اب بھی اپنی تھڑے نما دکان پر پنجابی لوک داستانیں شائع بھی کرتے ہیں اور بیچتے بھی ہیں۔ مجھے ان سے ملتے ہوے جھجک محسوس ہوتی ہے‘ انہیں ذرہ بھر احساس نہیں کہ انہوں نے کیا بددیانتی کی ہے۔ وہ پنجابی مذہبی شاعری کے مشہور ناشر ہیں۔ دھڑلے سے کاروبار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کاروبار میں سب کچھ جائز ہے۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی سب کچھ جائز نہیں ہوتا۔ یاد رکھیے‘ جو جائز نہیں ہوتا وہ ناجائز ہوتا ہے جو حلال نہیں ہوتا وہ حرام ہوتا ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ سیدھا سادہ سچ ہے۔
ابا جی سارے گائوں کے ابا جی سمجھے جاتے تھے۔ بچے بچیاں سب انہیں ابا جی کہتے۔ عید یا کسی میلے کا دن ہوتا تو سارے بچوں کو ضرور عیدی دیتے۔ لڑکے لڑکیوں کا وہ شور ہوتا کہ کچھ نہ پوچھئے۔ ابا جی ہر ایک کو اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ عنایت کرتے اور خوش ہوتے‘ زیرِ لب مسکراتے جاتے۔ ان کا احاطہ‘ جو حویلی کے نام سے معروف تھا‘ سب بچوں کے لیے ایک مفت درسگاہ تھی۔ دن کو سکول سے چھٹی کے بعد بہت سارے بچے ان کے پاس آتے اور شام تک اپنا ہوم ورک کرتے۔ ہم سارے اس حویلی کو علم و ہدایت کی درسگاہ ہی سمجھتے تھے۔ سکول کے بچوں کے علاوہ گائوں کے بڑے بوڑھے ہمہ وقت ان کے پاس موجود ہوتے۔ یہ عرفانِ الٰہی کے متلاشی لوگ تھے۔ عاشق لوگ‘ شاعری کے عاشق، مذہب کے دقیق نکتوں پر فریفتہ، عالمِ اسلام کی عظیم شخصیتوں اور شاعروں کے والا و شیدا۔ ان کے بوڑھے شاگرد بھی پند نامہ عطار اور قصیدہ غوثیہ لے کر بیٹھ جاتے۔ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھاتے ان کے ہم عمر حاجی عبدالباقی بھی ان کے شاگرد تھے۔ علم کی اہمیت اپنی جگہ مگر ابا جی کا اصل کارنامہ نادار اور غریب بچوں کے کام آنا تھا۔ لوگوں کو مفت دوا دینا‘ دقیانوسی رسوم کے خلاف جہاد اور بچوں کو لازماً سکول میں داخل کروانا تھا۔ آج وہی بچے اور ان کی اولادیں امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، انگلینڈ، نیویارک، کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دوران جب سکول بند ہوئے تب بھی سارے بچوں کیلئے یہ درسگاہ کھلی تھی۔
بچہ کلاں اور بھابھڑہ جو ضلع سرگودھا کی حدود میں ہیں مگر تہذیبی طور پر ہمارے ساتھ جڑا ہے اور آس پاس کی بیلٹ میں‘ قبلہ کے بہت معتقدین تھے۔ وہیں سے ایک آدمی ہمہ وقت ان کے پاس موجود ہوتا۔ گھر کے کام کے علاوہ اس کا مقصد ِ حیات عرفان گیان کی باتیں سننا تھا۔ اس کو قبلہ والد کا بہت سارا کلام ازبر تھا۔ وہ بلاناغہ رات کے وقت ان کے ہاتھ پائوں دباتا، مٹھی چاپی کرتا اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا وہ کلام‘ جو والد صاحب نے پنجابی زبان میں ترجمہ کیا تھا‘ پڑھتا جاتا۔ جہاں سے اسے بھولتا آپ اسے یاد بھی کروا دیتے۔ ایک گیارہویں والے کی مدح‘ جو حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھی گئی تھی‘ سناتا اور قصیدہ غوثیہ کا منظوم ترجمہ سناتا۔ دونوں میں ایسی عشق کی للک اور جذب و مستی کا عالم تھا کہ اس پڑھت کے دوران ہم یا مجلس کے دیگر لوگ ہمہ تن گوش ہوتے۔ بالکل شکوہ‘ جواب شکوہ کے اس گُل کی طرح جس کے بارے اقبالؒ نے فرمایاع
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
مگر ہم نے تو اپنے ہمنوائوں کے ساتھ خاموش ہی رہنا تھا۔ گل کی طرح خاموش رہتے‘ چپ چاپ وہ کلام معجز نظام سنتے اور صمٌ بکمٌ ہو جاتے۔ اسی کلام کا اثر تھا کہ جوانی میں ہی پھول کی طرح حیرت سے پھٹ کر پتی پتی ہو گئے۔ اب کبھی غزل کہہ کر‘ کبھی کالم لکھ کر‘ کبھی نظم اور دیو مالا ایسی طویل نظم لکھ کر‘ کبھی باپ کو اپنے تئیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ''پیو دی وار‘‘ لکھ کر ‘دو حرف جوڑ کر وہی پتی پتی جوڑنے کے جتن میں ہیں۔ خود ہماری ٹوٹی پھوٹی شاعری میں باپ ایک بنیادی موضوع ہے۔ باپ کے لیے اردو نظم کے ایک بڑے شاعر فرخ یار نے ایک طویل نظم ''کاریز‘‘لکھی ہے جو خصوصی مطالعہ کی متقاضی ہے۔
ابا جی نے پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے اور شہروں سے دور اپنی کٹیا سے جو شمعِ علم فروزاں کی تھی اب سارے علاقے میں اس کی جوت پھیل چکی ہے۔ میری ادب سے محبت ابا جی کا دیا ہوا قرضِ حسنہ ہے جس کی ادائی میرے لیے ناممکن ہے۔ کیا میں یہ قرض کبھی ادا بھی کر سکوں گا؟ نہیں‘ کبھی نہیں!