بہت عجیب وقت چل رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بھی چھوٹی سی بات ایک بڑے بحران میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر تادیر سمجھ میں نہیں آتا کہ ہوا کیا ہے۔ بہت سی ایسی ذہنی پیچیدگیاں آج کے انسان کا مقدر ہوکر رہ گئی ہیں جن کے حوالے سے وہ کسی بھی طور ذمہ دار نہیں۔ معاملات ہی ایسے ہیں کہ کوئی اگر کچھ نہ کرے تب بھی بعض معاملات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بہت تلاش کرنے پر بھی ایسے معاملات کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ آج دنیا عجیب موڑ پر آچکی ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی حد تک الجھا ہوا ہے، پریشان ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں زیادہ جدوجہد کرنے کے قائل نہیں اور خاصے عجلت آمیز انداز سے حالات کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فی زمانہ ڈھنگ سے جینے کے لیے جس نوعیت کی تعلیم و تربیت درکار ہے اُس کا اہتمام ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ جنہیں ڈھنگ سے جینے کا ہنر نہ سکھایا گیا ہو وہ کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
آج کی دنیا اِتنی الجھی ہوئی ہے کہ انہماک زیادہ دیر متاثر رہے تو کوئی بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہت پیچھے پاتا ہے۔ ایک طرف تو مسابقت بہت زیادہ ہے اور دوسری طرف دستیاب وسائل بھی زیادہ ہیں۔ عام آدمی زندگی کو آسان بنانے کے حوالے سے جس قدر لیاقت اور سکت رکھتا ہے اُس سے کہیں زیادہ سہولتیں اور آسائشیں بازار میں دستیاب ہیں۔ محض اشارہ کرنے پر اب کوئی بھی چیز گھر کی دہلیز تک پہنچادی جاتی ہے۔ اگر آپ کے پاس مال ہے تو کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے وہ آسانی جس نے انسان کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اصغرؔ گونڈوی نے درست کہا تھا ع
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہو جائے
آج ہر انسان چاہتا ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے۔ بس یہی وہ خواہش ہے جو زندگی کو انتہائی پیچیدہ بنانے پر تُلی رہتی ہے۔ زندگی نہ تو بالکل آسان اچھی رہتی ہے اور نہ بالکل الجھی ہوئی ہی کچھ کشش رکھتی ہے۔ یہ توازن کا معاملہ ہے۔ قدرت نے ہمارے لیے ایک نظام طے کیا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کے نام پر آزمائشوں سے دور کرنے کی سعی انسان کو زیادہ پریشان کر رہی ہے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے جس کے تحت وہ ہمیں مختلف معاملات میں تھوڑی بہت آزمائش سے دوچار رکھتا ہے تاکہ ہم میں کچھ کرنے کا حوصلہ جوان رہے، کچھ کر گزرنے کی لگن دم نہ توڑے۔ کبھی آپ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہے جن کے پاس اپنی محنت سے یا پھر نصیب سے (یعنی ترکے میں یا انعام کے طور پر) بہت سا مال آجائے اور کمانے کی فکر سے چھٹکارا مل جائے؟ یقین کیجیے ایسے لوگوں کی زندگی بہت تیزی سے پھیکی ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب تک انسان کو اپنی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتے رہنا پڑتا ہے تب تک زندگی کی دلکشی برقرار رکھتی ہے۔ یہ جدوجہد ہی تو ہے جو زندگی کے خاکے میں معنویت اور مقصدیت کا رنگ بھرتی رہتی ہے۔
انسان کی ذہنی حالت بہت عجیب ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم دن رات ایسے لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو مال کی کثرت کے ہاتھوں زندگی کی دلکشی سے محروم ہو بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ زندگی کی ساری دلکشی صرف اس بات میں ہے کہ ہم زندگی کو زیادہ سے زیادہ دل کش بنانے کے لیے کیا کرنے پر مجبور ہیں۔ جب تک کچھ کرنا پڑتا ہے تب تک زندگی کا سفر ڈھنگ سے گزرتا ہے۔ جب انسان امید ہار بیٹھتا ہے یا تمام ضرورتیں بہت آسانی سے پوری کرنے والی مالی حیثیت ممکن ہو جاتی ہے تب زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ اس حقیقت کا کم و بیش یومیہ بنیاد پر مشاہدہ کرنے کی صورت میں بھی ہم کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کرنا پڑے، سب کچھ آسانی سے مل جایا کرے۔ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا شاید اِسی کو کہتے ہیں۔
ہر دور کے اہلِ دانش نے انسان کو یہ سکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو کچھ نہ کچھ منفرد اور زیادہ کرتے رہیے۔ جو کچھ دوسرے کر رہے ہیں ویسا اور اُتنا کرنا آپ کو کچھ بھی نہ دے پائے گا۔ اگر زندگی کا حقیقی لطف درکار ہے تو اپنی لیاقت کا دائرہ وسیع کیجیے اور کام کرنے کی لگن بھی بڑھاتے رہیے۔ آج کے انسان کی سوچ میں ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ بہت کچھ پانا چاہتا ہے مگر اِس کے لیے جو کچھ کرنا ہوتا ہے اُس کے لیے طبیعت کو راضی کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یوں معاملات میں خلاء سا رہ جاتا ہے۔
ذرا سی بات پر بدحواس بلکہ بے حواس ہو اُٹھنا آج کے انسان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ خواہش یہ ہے کہ سب کچھ آسانی سے، بیٹھے بٹھائے مل جائے، ہاتھ پیر ہلانے کی زحمت بھی گوارا نہ کرنا پڑے۔ ایسا کبھی ہوا ہے جو اب ہوگا؟ ہر دور کے انسان کو بھرپور انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑا ہے۔ آج بھی یہی کرنا پڑے گا۔ انسان کا معاملہ تو یہ ہوگیا ہے کہ بہت کچھ پانے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ کرنا پڑے تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے، اپنے آپ میں الجھنے لگتا ہے۔ یہ اندر ہی اندر کی الجھن کیوں؟ یہ بدحواسی کیوں؟
آج کے انسان کو نفسی امور میں غیر معمولی تربیت کی ضرورت ہے۔ مختلف ٹیکنالوجیز میں پیش رفت نے انسان کو ایسا بہت کچھ خاصی آسانی سے دے دیا ہے جو پہلے اچھی خاصی تگ و دَو کے ذریعے حاصل ہو پاتا تھا۔ اس آسانی نے یہ مشکل پیدا کردی ہے کہ اب ذرا سی پیچیدگی اور پریشانی انسان کو شدید بدحواسی میں مبتلا کردیتی ہے۔ حبابؔ ترمذی کہتے ہیں ؎
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفَس کیا!
زندگی کا ہر معاملہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے لیے یا اُس کی وجہ سے بدحواس ہوا جائے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی الجھنیں ہمیں مہمیز دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ اِنہیں اِسی حیثیت میں قبول کرنا چاہیے۔ اپنے وجود پر اعتماد لازم ہے۔ اس کے بغیر دال گلتی نہیں۔ بات بات پر بدحواس ہو جانا اِس بات کی دلیل ہے کہ اپنے وجود پر اعتماد کا گراف گرتا جارہا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بہت سی تبدیلیوں کو ہم نے واقع ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سی تبدیلیوں کا ہم خود بھی حصہ رہے ہیں۔ جب سبھی کچھ دیکھا بھالا ہے تو اِس قدر گھبرانے اور بدحواس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہر دور کے انسان کو عصری تقاضوں کا سامنا رہا ہے۔ ان تقاضوں کو نبھائے بغیر ڈھنگ سے جینا کسی کے لیے ممکن نہیں ہو پایا۔ ہم بھی انوکھے تو نہیں کہ اس اصول کی گرفت سے بچ جائیں۔ جینا ہے تو چھوٹی موٹی الجھنوں کا سامنا تو کرتے رہنا پڑے گا۔ اکیسویں صدی کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے وجود پر اعتماد کا گراف بلند کرتے رہیے۔ زیادہ سے زیادہ سیکھنا ہے اور سیکھے ہوئے کو بروئے کار بھی لانا ہے تاکہ زندگی کا رنگ ڈھنگ محض تبدیل نہ ہو بلکہ بہتر بھی ہوتا جائے۔ یہ سب کچھ شعوری سطح پر کوششوں کا متقاضی ہے۔ آج کی زندگی مکمل ہوش و حواس کی طالب ہے۔ کوئی چھوٹی سی چُوک بھی زندگی کو کسی بڑے بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔ برسوں کی محنت محض چند لمحات کی جذباتیت سے خاک میں ملنے لگتی ہے۔ ذرا سی بدحواسی انسان کو کسی ایسے حادثے سے دوچار کردیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور پھر نقصان کا ازالہ کرنے میں ایک عمر صرف ہو جاتی ہے۔
موجِ نَفَس ہمیں ڈبونے پر تُلی رہتی ہے۔ ہماری برسوں کی محنت کا چند لمحات میں تیا پانچا ہوسکتا ہے اگر ہم اپنے حواس پر قابو نہ رکھیں اور بات بات پر پریشانی کے ہاتھوں حواس کھو بیٹھیں۔ یاد رکھیے! ہر پریشانی اس قابل نہیں ہوتی کہ اُس کے لیے ہم حواس کھو بیٹھیں۔ ناگزیر ہے کہ زندگی کی قدر و قیمت کا اندازہ و احساس کرتے ہوئے حواس کو مختل ہونے سے بچانے پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی رہے۔