وزیر اعظم تو معصوم ہیں۔ مگر کیا سیکرٹری وزارتِ خارجہ کو بھی نہیں معلوم کہ احمد شاہ مسعود کون تھا ؟
احمد شاہ مسعود کے بھائی ولی مسعود نے وزیراعظم عمران خان سے فرمائش کی کہ اسلام آباد کی کسی شاہراہ کو احمد شاہ مسعودکے نام منسوب کر دیجیے۔وزیر اعظم نے ہامی بھر لی۔ چلیے ! اسے رسمی تواضع سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا سیکرٹری وزراتِ خارجہ بھی نہیں جانتے تھے کہ بھارت ‘ احمد شاہ مسعود کو فنڈز اسی ولی مسعود کے ذریعے فراہم کرتا تھا؟ کیا وزارتِ خارجہ کا کام صرف یہ تھا کہ تجویز وزارتِ داخلہ کو بھیج دے ؟ کیا وزارتِ خارجہ محض ڈاکخانہ ہے ؟ ارے بھائی! آپ ایک طویل تجربے کے بعد وزارت ِخارجہ کے مدارالمہام مقرر ہوئے ہیں۔ یہ آپ کا فرضِ منصبی تھا کہ وزیراعظم کی خدمت میں فوراً ایک نوٹ بھیجتے جس میں تفصیل سے بتاتے کہ احمد شاہ مسعود آخر وقت تک بھارت کے ساتھ یک جان دو قالب رہا۔ اور جب بھارت کی حکومت نے تاجکستان میں تعینات بھارتی سفیر موتھو کمارسے پوچھا کہ احمد شاہ مسعود کی مدد کر کے بھارت کو کیا ملے گا ؟ تو موتھو کمار نے جواب دیا تھا کہ''احمد شاہ مسعود اُن سے لڑ رہا ہے جن سے ہمیں لڑنا چاہیے ! جب مسعود طالبان سے لڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان سے لڑتا ہے ‘‘۔
احمد شاہ مسعود اور بھارت کی خفیہ داستانِ محبت کسی پاکستانی ذریعے نے فاش نہیں کی۔یہ کہانی تو خود بھارت ہی کے مشہور و معروف اخبار '' دی ہندو‘‘ نے بتائی اور تفصیل سے بتائی! لگتا ہے کہ وزارتِ خارجہ کے موجودہ براؤن بابو اخبارات میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کس ملک میں سیٹل ہوں گے ؟ نیویارک میں فلیٹ کتنے میں بک رہے ہیں اور یہ کہ ریٹائر منٹ کے بعد وہ کس مغربی شہر میں قیام فرما ہوں گے۔ واہ صاحب واہ ! کیا بے نیازی ہے ! اور کیا تنزل ہے ! کہاں صاحبزادہ یعقوب اور آغا شاہی جیسے نابغے! اور کہاں آج کی وزارتِ خارجہ ! قریب کے زمانے میں بھی شمشاد احمد‘ توحید احمد مرحوم‘ جاوید حفیظ اور کامران نیاز جیسے ماہرین موجود تھے جو اپنی ذمہ داریاں سمجھتے تھے اور نبھاتے تھے۔ مگر آج ؟ آج تو جگر کے بقول ؎
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
اب دل تھام کر سنیے روزنامہ ''دی ہندو ‘‘ کیا بتاتا ہے ! یہ ستمبر1996ء کی بات ہے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا۔ ٹھیک انہی دنوں تاجکستان میں تعینات افغان نمائندے امراللہ صالح نے بھارتی سفیر سے رابطہ کیا کہ احمد شاہ مسعود ملنا چاہتا ہے۔ تاجکستان میں تعینات اس بھارتی سفیر کا نام موتھو کمار تھا۔ موتھو کمار نے فوراً اپنی حکومت سے پوچھا۔ حکومت نے اجازت دے دی۔تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں احمد شاہ مسعود کے تصرف میں ایک مکان تھا جس کی دیکھ بھال صالح ریگستانی کرتا تھا۔ اس مکان میں احمد شاہ مسعود اور بھارتی سفیر کی ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ احمد شاہ مسعود انگریزی میں گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے امر اللہ صالح ہی ترجمانی کا کام کرتا تھا۔ یہی امراللہ صالح بعد میں افغان انٹیلی جنس کا سربراہ بنا۔ پہلی ملاقات میں مسعود نے ڈرامائی طریقے سے اپنی چترالی ٹوپی میز پر رکھی اور کہا کہ جتنی جگہ یہ ٹوپی گھیرتی ہے بس اتنی جگہ مجھے درکار ہے کہ اپنی بیس بناؤں اور لڑوں۔ پھر اس نے واشگاف الفاظ میں بھارتی مدد چاہی اور مطلوبہ ''اشیا‘‘کی فہرست بھی پیش کر دی۔ اسی فہرست کے جواب میں بھارت نے پوچھا کہ بدلے میں بھارت کو کیا ملے گا۔ بھارتی سفیر کا جواب ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ بھارت میں اُس وقت جسونت سنگھ وزیر خارجہ تھا۔ اس نے مسعود کو یقین دہانی کرائی کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں گے؛ چنانچہ شمالی اتحاد کو بھارتی مدد شروع ہو گئی۔ اور یہ وسیع پیمانے پر تھی۔ وردیاں‘ آرڈیننس‘مارٹر‘ کلاشنکوفیں‘ چھوٹے ہتھیار‘ ڈبوں میں بند خوراک‘ کپڑے‘ ادویات‘ سرما کا سامان‘ سب کچھ بھیجا جانے لگا، جہاں تک پیسے کی بات تھی تو پیسہ مسعود کے بھائی ولی مسعود کے ذریعے دیا جاتا تھا جو لندن میں مقیم تھا۔سامان باقاعدگی سے آنے لگا۔ دوشنبہ میں سامان پہنچتا۔ تاجکستان کے کسٹم حکام فوراً کلیئر کرتے اور پھر فرخور پہنچا دیا جاتا۔ فرخور کی فضائی بیس پر عملاً بھارت کا کنٹرول تھا۔ تاجکستان کا یہ شہر افغان سرحد پر واقع ہے۔ مسعود کے دس ہیلی کاپٹر بھی یہیں تھے۔ اس اثنا میں بھارت نے بھی دو جنگی ہیلی کاپٹر مسعود کو دیے۔ شمالی اتحاد کے زخمی فوجی فرخور ہی لائے جاتے۔ جن زخمیوں کو نسبتاً طویل علاج کی ضرورت ہوتی انہیں فوراً سے پیشتر ویزا دے کر بھارت روانہ کر دیا جاتا‘ باقی کیلئے فرخور ہی میں بھارت نے چوبیس بیڈ کا ہسپتال بنا رکھا تھا۔ اس میں دو آپریشن تھیٹر تھے۔ آئی سی یو کیلئے آٹھ بیڈ اس کے علاوہ تھے۔ ہسپتال میںچھ ڈاکٹر اور عملے کے چوبیس افراد تعینات تھے۔اس سارے طبی منصوبے پربھارت پچھتر لاکھ ڈالر خر چ کر رہا تھا۔ تاجکستان کی عینی ایئر بیس بھی بھارت کے پاس ہے۔یہاں بھارتی فضائیہ کا گروپ کیپٹن‘ بیس کا انچارج ہے۔یہ بیس پہلے روسیوں کے پاس تھی۔ ان کے انخلا کے بعد بھارت نے اس کی توسیع کی۔ مسعود پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو اسے فرخور ہی میں لایا گیا۔ موتھو کمار اس وقت تک بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں تعینات ہو چکا تھا۔ ریگستانی نے موتھو کووہیں اطلاع دی۔ اس دن موتھو کی شادی کی سالگرہ تھی اور اس نے ایک ضیافت کا بندوبست کر رکھا تھا۔ مسعود پر حملے کی خبر پہنچی تو موتھو نے ضیافت کینسل کر دی۔اپنی موت سے تین ماہ پہلے مسعود بھارت گیا جہاں وہ چار دن ٹھہرا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب '' اے کال ٹَو آنر ‘‘ میں اس دورے کے بارے میں لکھا کہ بہت سخت احتیاط کی ضرورت تھی کیونکہ افغانستان یا پاکستان سے کوئی بھی دہشت گرد آکر مسعود پر حملہ کر سکتا تھا۔بھارت کے ساتھ قربت کا یہ احوال صرف احمد شاہ مسعودکے حوالے سے ہے ورنہ مجموعی طور پر بھارت نے شمالی اتحاد کی جس قدر مدد کی ‘ وہ اس سے کہیں زیادہ تھی اور یاد رہے کہ یہ مدد بھار ت نے اس لیے نہیں کی کہ شمالی اتحاد اس کی پھپھی کا بیٹا تھا۔ یہ مدد صرف اور صرف پاکستان دشمنی میں کی گئی۔
سیکرٹری خارجہ نے شاہراہ والا معاملہ مبینہ طور پر ‘ وزارتِ داخلہ کو بھیج دیا۔ وزارتِ داخلہ نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو ارسال کر دیا۔ وہ تو بھلا ہو ترقیاتی ادارے کا جس نے یہ قانونی نکتہ سمجھانے کی کوشش کی کہ شاہراہ صرف کسی سربراہ ریاست کے نام ہی منسوب ہو سکتی ہے اور احمد شاہ مسعود کبھی کسی ریاست کا سربراہ نہیں رہا؛ چنانچہ اب اگر ولی مسعود کی ''معصومانہ ‘‘ خواہش کی تکمیل نہ ہو سکی تو اس کا کریڈٹ سی ڈی اے کو جائے گا‘ ورنہ وزارتِ خارجہ نے تو کوشش کی ہے کہ مسعود کا نام یہاں زندہ جاوید ہو کر رہے ! قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے غلام علی تالپور نے بجا طور پر پوچھا کہ را کے ساتھی احمد شاہ مسعود کے نام تو سڑک کررہے ہو ‘ کیا پاکستان کے اتحادی ملا عمر کے نام بھی کوئی شاہراہ کی ہے ؟
ویسے ایک بات اور ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی سڑک کا نام احمد شاہ مسعود کے نام پر رکھا جائے تو موتھو کمار اور جسونت سنگھ کے ناموں پر بھی غور کر لیا جائے کیونکہ پاکستان دشمنی میں یہ دونوں بھی مسعود کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔