تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     22-06-2021

انتخابی اصلاحات

چھ ہزار میل کے فاصلے سے وطنِ عزیز کی جو خبریں کالم نگار تک پہنچتی ہیںوہ سُن کر سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہنسنے کا مقام ہے یا رونے کا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے قانونی ڈھانچے میں غیر مناسب ترامیم کر دی گئی ہیں جن کا بڑا مقصد کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری کو ملازمت کے خاتمے سے دو سال پہلے برطرف کرنا تھا۔ بھلا ہو سید بابر علی صاحب کا کہ انہوں نے اس اقدام کے خلاف وزیراعظم کو خط لکھا۔ بابر علی صاحب کی عرضداشت پر سول سوسائٹی کے ڈیڑھ سو ممتاز افرادنے تائیدی دستخط کیے اور اب ہزاروں لوگ اس کی حمایت کرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں‘ جن میں برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے پاکستانی بیرسٹر بھی شامل ہیں۔ کالم نگار دم سادھے منتظر ہے کہ دیکھیں ایوانِ وزیراعظم کی طرف سے کیا جواب آتا ہے؟
وقفۂ انتظار کے دوران جو برُی خبر ملی وہ ستم بالائے ستم کے زمرے میں آتی ہے۔ ہم نے کئی سالوں سے اپنی قومی سٹیل مل بند کر رکھی ہے اور سالانہ اربوں روپوں کانقصان برداشت کر رہے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) سیمسن سائمن مشرف ہمارے محسن ہیں اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے فریاد کی کہ حکومت کروڑوں اربوں روپے صرف کر کے آکسیجن درآمد کرنے کی بجائے اس سٹیل مل کے ایک یونٹ کو بحال کر کے آکسیجن بنانا شروع کر دے اور اسے برآمد کرے۔ کالم نگار نے یہ تجویز ڈاکٹر عابد سلہری کے ذریعے اسد عمر صاحب تک پہنچاکر اپنا اخلاقی فرض ادا کر دیا۔ ہر روز جاگتا ہوں تو اس توقع پر کہ آج اسلام آباد سے یہ خوش خبری آئے گی کہ ایک بے حد مفید تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا گیا۔ہمہ تن گوش ہوں مگر بدقسمتی ہے کہ جان نہیں چھوڑتی۔ بقول شاعر واقعہ سخت ہے او رجان عزیز۔
ایک اور خبر سارے پہاڑوں اور سمندروں کو عبور کرتے ولایت پہنچی کہ اربوں روپوں کی جو مائع گیس (LPG) درآمد کی گئی وہ نہ صرف عالمی مارکیٹ میں طے شدہ نرخ سے زیادہ مہنگی تھی بلکہ گھٹیا درجہ کی بھی تھی۔ میں بڑی توجہ سے ساری خبروں پر نظر رکھتا ہوں مگر کئی ہفتے گزر جانے کے بعد مجھے ابھی تک کوئی سرکاری ردعمل پڑھنے یا سننے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ دل پریشان ہوتا ہے تو میں اُسے فارسی زبان (جو مجھے ٹوٹی پھوٹی آتی ہے) میں سرزنش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ؎
رموزِ مصلحت ملک خسروان دانند
گدای گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
نہ تم تین میں نہ تیرہ میں‘ تمہارا اربابِ اقتدار سے کیا واسطہ؟ تم اُن کے قریبی تو کیا دُور کے رشتہ دار بھی نہیں۔ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اُن لوگوں کو (جو عقلِ کُل کے دعویدار ہیں) اپنے مفت مشوروں سے نوازتے رہو۔ دل بے چارہ اس لاٹھی چارج کے بعد چوں کی ہلکی سی بھی آواز نکالے تو کیونکر؟ مگر آج ملنے والی ایک خبر نے دل میں سوئے ہوئے تفکرات‘ خدشات اور اعتراضات (حکومت وقت کے نزدیک خرافات) کو پھر جگا دیا اور اب وہ کالم نگار سے متقاضی ہیں کہ انتخابی اصلاحات کے موضوع پر اپنی معروضات قلم بند کروں اور اپنے قارئین کی خدمت میں گزارش کروں کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد صاحب کی اس موضوع پر ماہرانہ رائے کو پڑھ کر اپنی آواز بلند کریں اور مطالبہ کریں کہ حکومت ووٹ ڈالنے کے لیے اربوں روپوں کی مشینری خریدنے اور ایک پیچیدہ اور متنازع فیہ اور ناقابلِ عمل طریقہ انتخاب اپنانے کا ارادہ ترک کر دے۔
انتخابی اصلاحات کے جو مقاصد ہونے چاہئیں وہ یہ ہیں:وہ شفاف ہوں‘ Free اور Fair ہوں۔ ہر ممکنہ دھاندلی کے سدباب کے لیے Fool Proof(یعنی سو فیصدقابلِ اعتبار اور قابل بھروسا) طریقِ کار وضع کیا جائے۔ Returning Officer کو کون کون سی ذمہ داری سونپی جائے گی؟ وہ اپنے فرائض کس طرح سرانجام دیں گے؟ گنتی کس طرح کی جائے کہ اُس میں کسی گڑ بڑ (ڈالے گئے ووٹوں میں کمی یا بیشی ) ممکن نہ رہے؟ یہ تو تھا طریق کار (جسے لاطینی زبان میں Modus operandiکہتے ہیں) مگر زیادہ اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی اصلاحات کی جائیں جن کی بدولت کوئی بھی شخص دولت یا برادری کی بدولت الیکشن نہ جیت سکے۔ موجودہConstituency Based طریقِ انتخاب ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔جو مقابلہ شروع میں لکھ پتی افراد کے درمیان ہوتا تھا وہ ترقی کرتے کرتے کروڑ پتیوں اور اب (جب ہم ترقی کی معراج تک پہنچ چکے ہیں) ارب پتیوں تک پہنچ چکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں Electables کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں۔ وہ وقت گیا جب اُمیدواروں کو ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی تھی جو عوام میں مقبول ہو۔ اب سیاسی جماعتوں کو ایسے امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے جو دولت‘ برادری یا سماجی رشتوں (Network) کے بل بوتے پر الیکشن جیت سکیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مجوزہ انتخابی اصلاحات میں اُن اصلاحات کا ذکر تک نہیں جو ہمارے سیاسی نظام کو جمہوریت کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے میں ممدومعاون ہو سکتی ہیں۔ صدرِ مملکت پیشہ کے اعتبار سے Dentist ہیں‘ اُن کو یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ اگر کسی ڈینٹسٹ کے پاس ایک ایسا مریض آئے جس کے خراب دانت کو نکالنا ضروری ہو تو کیا وہ اُسے Tooth Pasteکی بجائے مسواک کے استعمال کا مشورہ دے گا؟ ہر گز نہیں؟ گلے سڑے نظام کے بدبور دار منہ میں سارے دانت اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اُنہیں جڑ سے اُکھاڑنا ضروری ہے۔ جمہوری نظام کا مطلب ہے جمہور کی نمائندگی۔ آبادی کے سارے طبقات (خصوصاً محنت کشوں‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ کم آمدنی والوں اور متوسط طبقے کی نمائندگی سے محروم موجودہ ہر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سلطانی جمہور کی توہین ہے۔ ایسا قانون بنایا جائے کہ جب تک مقامی حکومتیں (گائوں‘ تحصیل‘ ضلع اور ہر بڑے شہر کی سطح پر نمائندوں کی بااختیار حکومتیں) قائم نہ ہوں صوبائی یا قومی انتخابات نہیں ہو سکتے۔ گورنر سراسر سفید ہاتھی ہیں اور نو آبادیاتی دور کی یادگار۔ انہیں عجائب گھر کی زینت بنائیں۔ حلقہ بندیاں ختم کر کے متناسب نمائندگی کا نظام اپنائیں۔ اگر امریکہ کی طرح انتخابات ہر دو سال کے بعد نہیں ہو سکتے تو تین سال کے اندر ضرور ہوں۔اصلاحات کا مطلب تکنیکی (Technical) نہیں‘ ہر گز نہیں۔ ضرورت جراحی کی ہے اور ہم مریض کو جڑی بوٹیوں کی پڑیاں کھلا کر اس کے صحت یاب ہو جانے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ وائے تمنائے خامِ وائے تمنائے خام۔ حاصل کلام علامہ اقبال کے یہ شعر ہیں جو غالباً نمائشی‘ کھوکھلی اور سطحی اصلاحات کرنے والوں کو ذہن میں رکھ کر لکھے گئے تھے۔
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ توُ بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved