ملک بھر میں مہنگائی اور بیروزگاری کا جن مکمل طور پر بے قابو ہے اور اس نے عام آدمی کو جتنا متاثر کیا ہے‘ اگر صاحبانِ اقتدار و اختیار کو ان زمینی حقائق کی دس فیصد بھی سمجھ بوجھ ہو تو یقین کریں کہ وہ ایک لمحے کیلئے بھی اسمبلیوں میں چین سے نہ بیٹھیں کیونکہ اس مہنگائی و بیروزگاری کی ذمہ داری بہرحال انہی قانون ساز، پالیسی ساز اور برسر اقتدار سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جو ایک طرف تو قوم کو یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ 'ملکی معیشت بڑی مستحکم ہو رہی ہے، معاشی اشاریے اوپر جا رہے ہیں، گروتھ ریٹ بڑھ چکا ہے، خوشحالی کا آغاز ہو چکا ہے، عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو چکا ہے‘ مگر ساتھ ہی یہ گلہ بھی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کو ملک میں ہونے والی ترقی اور خوشحالی نظر نہیں آتی۔ اگر حکومت کی بات من و عن مان لی جائے تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ہماری معیشت بلند ہونے لگی ہے اور عام آدمی کو اس کی سمجھ بوجھ نہیں توکم ازکم انہی ایوانوں میں بیٹھنے والی اپوزیشن کو تو یہ معاشی اشاریے سمجھ آنے چاہئیں، اسمبلیوں کے نصف بنچوں پر بیٹھے اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی کو تو گروتھ ریٹ میں اضافے کا یقین ہونا چاہئے۔ موجودہ کابینہ کے لگ بھگ ستر فیصد ممبران انہی اپوزیشن جماعتوں سے آئے ہیں اور ماضی میں یہ اپوزیشن قیادت کے گن گاتے رہے ہیں، ویسے بھی ان اپوزیشن ارکان کی تنخواہیں، ٹی اے، ڈی اے، ہوائی ٹکٹیں اور دیگر ساری مراعات تقریباً وہی ہیں جو حکومتی ارکان کو مل رہی ہیں تو پھر کم از کم انہیں توخوشحالی نظر آنی چاہیے۔
حکومت بتاتی ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اورعوام کو بہت ریلیف دیا گیا ہے، بجلی مہنگے کرنے کیلئے آئی ایم ایف کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا ہے لیکن ساتھ یہ یہ خبر آ جاتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر فلاں ٹیکس لگا دیا گیا ہے، بجلی کی قیمت میں فی یونٹ اتنا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اب ایک عام آدمی‘ جو ضعیف والدین کی دوائی کیلئے پریشان ہو، جو ہر وقت بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند ہو، جو مکان کا کرایہ ادا کرے تو یوٹیلیٹی بلوں کیلئے پیسے نہ بچیں اور اگر بل ادا ہو جائیں تو پھر آٹا‘ گھی‘ چینی ادھار لینے پڑیں‘ اس کو حکمرانوں کی خوشحالی کہاں اور کیسے نظر آئے گی؟ یہ سمجھ نہیں آتی کہ وزیراعظم کی جانب سے ایک بار پٹرول کی قیمت بڑھانے کی سمری مسترد کی جاتی ہے مگر پھر وہی سمری پندرہ دن بعد منظور ہو جاتی ہے اور تیل مہنگا ہو جاتا ہے۔ حکومت اب تک یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی تو ہر چیز کے ٹرانسپورٹیشن چارجز بڑھ جائیں گے اور تاجر حضرات یہ اخراجات عام صارفین پر ہی منتقل کریں گے۔کوئی خسارے میں تو کاروبار نہیں کرے گا۔ ٹرانسپورٹیشن اخراجات بڑھنے سے ہر چیز کے دام بڑھ جاتے ہیں اور عام آدمی تک اس کے اثرات بالواسطہ اور بلاواسطہ‘ ہر دو طرح سے منتقل ہوتے ہیں۔ اسی طرح عام صارف کے لیے یہ بات بھی سمجھنا مشکل ہے کہ جب حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھانے کیلئے آئی ایم ایف کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے تو پھر آئے روز فی یونٹ قیمت بڑھتی کیوں جا رہی ہے؟ حکومت کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ بجلی مہنگی ہونے سے ہر چیز کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، اب صنعتکار چھوٹا ہو یا بڑا، وہ پیداواری لاگت میں ہونے والا اضافہ کبھی بھی اپنے کھاتے میں نہیں ڈالے گا بلکہ اس کا بوجھ صارفین پر ہی پڑتا ہے اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کسی بھی حکومت نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے گرانی کا عفریت بے قابو ہوتا چلا گیا، موجودہ دور میں تو یہ کچھ زیادہ ہی منہ زور ہو چکا ہے مگر حکومت ہے کہ معاشی ترقی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ شاید حکمرانوں کا زمینی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان کے معاشی و دیگر مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت کبھی بھی فیڈریشن کے طور پر کام نہیں کرتی اور ملک میں یکساں پالیسی رائج نہیں کی جاتی۔ وفاق اپنا راگ الاپتا ہے تو صوبے اپنا اپنا ساز بجاتے ہیں۔ بجٹ کو ہی لے لیں، وفاق نے تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا اور مزدور کی کم ازکم اجرت 20 ہزارروپے مقررکی، پنجاب نے بھی وفاق کی روش پر چلتے ہوئے یہی کچھ کیا جبکہ صوبہ سندھ میں‘ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے تنخواہوں اور پنشن میں بیس فیصد اضافہ کیا اور مزدور کی کم از کم اجرت پچیس ہزار روپے مقرر کی۔ سندھ میں تو اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن خیبر پختونخوا میں تو پاکستان تحریک انصاف ہی برسر اقتدار ہے‘ وہاں بھی صوبائی حکومت نے مرکز کے مقابلے میں مزدور کی کم از کم اجرت ایک ہزار روپے زیادہ کر کے اکیس ہزار روپے مقرر کی جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں 25 اور بیوائوں کی پنشن میں 100فیصد تک اضافے کا اعلان کیا۔ مجھ سمیت کسی کو بھی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے پر ہرگز اعتراض نہیں بلکہ صرف اتنی سی خواہش ہے کہ پورے ملک میں یکساں پالیسی رائج ہونی چاہئے۔ سب کو ایک ہی قانون کے تابع ہونا چاہیے اور عوام کو یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔ نہ حکومتیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں فیڈریشن کی مضبوطی اور اتحاد بارے کچھ سوچتی ہیں کیونکہ اگر کوئی ان خطوط پر سوچتا تو یقینا ملک بھر میں ایک جیسا نظام رائج ہوتا، پھر قوانین پر ایک جیسا عمل بھی ہوتا اور ہرگز ایسا نہ ہوتا کہ ملک کے ایک حصے میں آٹے کا تھیلا 800 روپے میں مل رہا ہو تو دوسرے علاقے میں وہی تھیلا ایک ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہو، اگر دوسرے صوبے میں چلے جائیں تو اتنے ہی وزن والا آٹے کا تھیلا 1300 روپے میں ملے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جن علاقوں میں کوئی چیز مقامی طور پر پیدا ہوتی ہے وہاں ان چیزوں کی قیمت کم ہوتی ہے کہ دور دراز علاقوں تک پہنچتے پہنچتے قیمت میں اضافہ ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے لیکن اتنا بھی فرق نہیں ہونا چاہئے کہ اگر راولپنڈی میں ایک چیز 800 روپے میں مل رہی ہے وہی چیز دو گھنٹے کی مسافت پر واقع پشاور میں 1300 روپے تک میں دستیاب ہو۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطے اور اعتماد کا فقدان ہو۔ اسلام آباد اور کراچی کے مابین اگرچہ رابطے اور اعتماد میں کچھ کمی ہے جس کی وجہ دو حریف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہیں حالانکہ اس کے باوجود رابطہ مضبوط ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کی بنیاد ایک مضبوط فیڈریشن پر رکھی گئی ہے اور صوبے اس کی اکائیاں ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے ذاتی مفادات اور اقتدار کی لالچ میں فیڈریشن کوبہت نقصان پہنچایا ہے اور یہی سب کچھ وفاق اورصوبوں کے درمیان بد اعتمادی کا باعث بن رہا ہے جس کا نتیجہ بدانتظامی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تو پی ٹی آئی ہی برسر اقتدار ہے، پھر مرکز اور صوبے میں 100 فیصد یکساں پالیسیاں کیوں نہیں ہیں؟ بظاہر کے پی کا صوبائی بجٹ وفاق اور دیگر صوبوں بشمول پنجاب سے بہتر نظر آتا ہے جس میں تنخواہوں میں اضافہ بھی وفاق اور پنجاب سے زیادہ کیا گیا ہے اور کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا جس سے یقینا صوبے کے عوام کو فائدہ ہو گا لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی کی نظریں بھی خیبر پختونخوا پر مرکوز ہیں اور وہ بھی ایک صوبے کی جماعت بننے جا رہی ہے؟ جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) واضح اکثریت رکھتی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کا سکہ چلتا ہے، اگر پی ٹی آئی کو بھی اپنا مستقبل ایک صوبے میں نظر آ رہا ہے تو یہ سوچ ملک اور فیڈریشن کیلئے خطرناک ہو گی۔ مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود مقتدر پارٹی ملکی وسائل کا بڑا حصہ اپنے صوبے میں خرچ کرے گی تاکہ وہاں اس کی جڑیں مضبوط رہیں۔ ایسی سوچ سے علاقائیت اور صوبائیت کو تقویت ملے گی، ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور انارکی پھیلنے کا بھی خدشہ موجود رہے گا۔ موجودہ حالات میں ایک محب وطن شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ فیڈریشن کہاں ہے؟ مقتدر قوتوں کو قومی اتحاد کے فروغ کیلئے ملک میں یکساں پالیسی و قانون سازی پر توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم مضبوط قوم بن سکیں۔ ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں لہٰذا ہمیشہ فیڈریشن بن کر چلنا ہو گا۔