تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-06-2021

خرچہ اپنا، نخرے لوگوں کے!

اطمینان رکھیے !جب تک سانسوں کا ربط برقرار ہے، سو جلاپے جی کا جنجال بنے رہیں گے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا آیا ہے۔ عمر کا ایک معقول حصہ مختلف حوالوں سے خدشات اور تحفظات کو پروان چڑھانے اور اُن سے خوفزدہ رہنے ہی میں کھپ جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ زندگی اپنی ہے اور اُس پر اجارہ اوروں کا ہے۔ ہر معاشرے کی چند روایات ہوتی ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کی جاتی ہے۔ ہر معاشرے میں چند روایات ایسی ہوتی ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ بعض روایات قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہیں۔ پسماندہ ممالک یا معاشروں میں ایک روایت قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہے‘ یہ کہ اپنے معاملات کو دوسروں کی مرضی کے مطابق چلانا یا تبدیل کرنا۔ ہمارا معاشرہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں لوگ اپنی زندگی پر دوسروں کا اجارہ خطرناک اور افسوس ناک حد تک قبول کرنے کے عادی ہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں: خرچہ ساڈا تے نخرے لوکاں دے! ہمارا معاشرہ اس کی روشن تصویر و تعبیر ہے۔
زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے، دوسروں کے کام آنے یا انہیں مستفیض کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور دوسروں سے کس طور مستفید ہونا چاہیے‘ یہ سب کچھ ہر انسان کو اپنے طور پر طے کرنا ہوتا ہے۔ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت و سکت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تعلقات یا روابط کے میدان میں وہ کہاں تک جاسکتا ہے، کیا کرسکتا ہے۔ کیا اپنی زندگی پر کسی اور کی مرضی تسلیم و قبول کی جاسکتی ہے؟ کسی حد تک تو یہ ممکن ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے‘ مل جل کر رہنا اُس کی فطرت میں گوندھ دیا گیا ہے‘ دوسروں سے ہٹ کر، کٹ کر اچھی طرح جینا ممکن نہیں ہو پاتا‘ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، تنہا جی کر تمام مطلوب نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے میل جول لازم ہے۔ جب میل جول ہوگا تو کسی کی کوئی بات ماننا بھی پڑے گی۔ اپنی تمام خواہشات کی تکمیل پر بضد رہنے سے گریز بھی کرنا ہوگا۔ ہر معاشرے میں میل جول کی یہی معقول ترین صورت ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے زندگی کے باغ سے بہت سے کانٹے نکال باہر کیے ہیں۔ ذہنی تربیت کا اعلیٰ معیار یقینی بناکر انسانی مزاج کی بہت سی پیچیدگیوں کو طویل رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ پسماندہ معاشریے البتہ اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے معاملات عمومی سطح پر زندگی کا حصہ ہیں جن کے باعث زندگی الجھتی ہی جارہی ہے۔ لوگ رسمی تعلیم کے معاملے میں بھی زیادہ دور نہیں جا پاتے اور مطالعے کے ذریعے زندگی کا معیار بلند کرنے پر بھی زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں ذہن کی الجھنیں دور نہیں ہوتیں اور مزاج کی پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔
ہر انسان کو بنیادی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق جیے اور جس شعبے میں کچھ کر دکھانے کا ارادہ رکھتا ہو اُس شعبے میں اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھے۔ مرضی کے مطابق آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ منصوبہ سازی معقول انداز سے کی جائے، تمام زمینی حقائق ذہن نشین رکھتے ہوئے معاملات کو نمٹانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی اور کی بات سُنی ہی نہ جائے، ماننے سے انکار کردیا جائے۔ کسی کی اچھی بات سُننا اور ماننا قرینِ عقل ہے۔ بہت سے صائب مشورے انسان کو بہتر زندگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ذہین اور حقیقت پسند انسان وہ ہے جو کسی سے کام کی بات سُنے تو یاد رکھے اور ممکن ہو تو اُس پر عمل بھی کرے۔ دنیا کا نظام اور کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا۔ اگر میل جول کے بغیر زندگی ڈھنگ سے نہیں گزاری جاسکتی تو پھر گڑبڑ کہاں ہے؟ وہ کون سی بات ہے جو انسان کو شدید الجھن سے دوچار کرتی ہے اور زندگی کا توازن بگاڑ دیتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، جب انسان اپنی زندگی کا اختیار دوسروں کے ہاتھ میں دیتا ہے تب معاملات بگاڑ کی طرف جاتے ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کا مکمل طور پر مکلّف و ذمہ دار ہے۔ کسی بھی معاملے میں حتمی نتیجے کی ذمہ داری اول و آخر متعلقہ فرد ہی کو قبول کرنا پڑتی ہے۔ ساری خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے معاملات میں ڈھیلا پڑنے لگتا ہے اور دوسروں کی مرضی اور خواہش کے تابع ہوتا جاتا ہے۔
دوسروں کی مرضی کو اپنی مرضی اور ترجیحات پر فوقیت دینا کسی خاص معاملے میں تو درست ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ روش ہمیشہ منزل کی طرف نہیں لے جاتی۔ کسی بھی انسان کی حدود سے اس سے زیادہ اور کون باخبر ہو سکتا ہے؟ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی حدود کا درست اندازہ ہوتا ہے۔ کوئی اور ہمارے بارے میں ہم سے بڑھ کر نہیں جان سکتا۔ ایسا ممکن ہی نہیں! اپنی خامیوں اور خوبیوں سے ہم خود ہی بہترین اندازے کے مطابق واقف ہوسکتے ہیں اور اِس واقفیت ہی کی بنیاد پر ہماری زندگی کی راہ کا تعین ہوتا ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں یہ بات ہم سے بڑھ کر کسی کے علم میں نہیں ہوسکتی۔ اور ہماری خواہشات کا بھی مکمل علم کسی اور کو نہیں ہوسکتا۔ وہ حکمتِ عملی کامیاب رہتی ہے جو انسان اپنے تمام معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے خود ترتیب دے۔ کسی اور کو یہ کام سونپنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کی نیت میں ذرّہ بھر کھوٹ نہ ہو تب بھی معاملات محض اس لیے خرابی کی طرف جاسکتے ہیں کہ اُسے آپ کی حدود و قیود کا اندازہ تو تھا ہی نہیں۔ ایسے میں وہ آپ کے لیے جامع ترین یا موزوں ترین حکمتِ عملی کیونکر ترتیب دے سکتا تھا؟ نیز جب ہم دوسروں کو اپنی زندگی میں عمل دخل بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں تب اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی صفت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہماری زندگی دوسروں کی آرا کی محتاج ہوکر رہ جائے، دوسروں کے کیے ہوئے فیصلوں کی بیساکھی کا سہارا لے کر چلے تب ناکامی مقدر ہو رہتی ہے۔ زندگی اول و آخر ہر انسان کا اپنا معاملہ ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎
لے دے کے اپنے پاس یہی اِک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
یہ آپشن قدرت نے ہر انسان کو بخشا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ دوسروں کی آرا بھی اہمیت رکھتی ہیں، اُن کے مشورے بھی صائب ہوسکتے ہیں مگر حتمی تجزیے میں تو ہمارے اپنے فیصلے ہی کام کے ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں جسے سمجھنے کے لیے انسان کا عبقری ہونا لازم ہو۔ عام سی ذہانت کا حامل شخص بھی اِس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی سمجھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ معیاری زندگی وہ ہے جس کے لیے انسان خود تیاری کرے۔ دوسروں کی آرا اور مشوروں کی روشنی میں کام کرتے رہنے سے بالآخر صرف الجھنیں دامن گیر رہتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دوسروں کو ہماری خوبیوں اور خامیوں کا بخوبی اندازہ نہیں ہوتا۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے اُس کی بنیاد پر وہ کوئی رائے دیتے ہیں اور ہم وہ رائے سوچے سمجھے بغیر قبول کرلیں تو معاملات الجھ جاتے ہیں۔ کیریئر کے انتخاب کا معاملہ ہو یا سرمایہ کاری سے متعلق کوئی فیصلہ، کاروباری معاملات ہوں یا سماجی تعلقات، رشتوں کی بات ہو یا دوستی کی‘ ہر معاملہ گھوم پھر کر ہماری ذات تک آتا ہے یعنی حتمی فیصلہ ہمیں ہی کرنا ہوتا ہے۔ اور اس میں قباحت کیا ہے؟ ہر معاملے کی حتمی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جب واقعی ایسا ہے تو پھر زیادہ سوچنے اور دوسروں کی آرا پر منحصر رہنے کی ضرورت کہاں باقی رہتی ہے؟
اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کھل کر خرچ کر رہا ہو اور آرا دوسروں کی بروئے کار لائی جارہی ہوں تو لوگ ہنستے ہیں۔ جس کی جیب ڈھیلی ہو رہی ہو فیصلے بھی اُسی کے ہونے چاہئیں۔ نخرے بھی اُسی کے ہونے چاہئیں جس کی جیب پر بوجھ پڑ رہا ہو۔ دانش کا تقاضا ہے کہ اپنے تمام فیصلے خود کیے جائیں، اُن کی پوری ذمہ داری قبول کی جائے اور کسی اور کے فیصلے کو سوچے سمجھے بغیر، غیر ضروری طور پر اپنے معاملات میں مداخلت کا موقع نہ دیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved