تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     23-06-2021

ہماری تاریخ کے کچھ انوکھے پہلو

ہماری تاریخ کے حوالے سے ذہن میں کبھی عجیب سوال اٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پہ بادشاہوں کو تو چھوڑیئے کسی مغل شہزادے نے باہر کی دنیا کی سیر نہیں کی۔ یورپ میں کیا کچھ ہو رہا تھا، امریکہ کی ایک نئی دنیا ڈھونڈی گئی، ایسے واقعات سے وہ تقریباً بے خبر تھے۔ مغل بادشاہت دنیا کی امیر ترین مملکت تھی لیکن اُس وقت کی ترقی کے کئی زاویے اس مملکت سے پوشیدہ تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ مملکت یورپ سے کیوں پیچھے رہ گئی؟ اکبرِ اعظم، جہانگیر اور شاہ جہان کے زمانوں میں یورپ کی بیشتر ریاستیں یا جنہیں آج ہم نیشن سٹیٹ کہتے ہیں معرضِ وجود میں آ چکی تھیں۔ جنگ و جدل کے واقعات یورپ میں عام تھے لیکن بیشتر ممالک میں مضبوط بادشاہتیں قائم ہو چکی تھیں اور وراثت کا ایک نظام بھی وضع ہو چکا تھا۔ ایسا نظام اسلامی دنیا میں بالعموم اور مغلیہ سلطنت میں بالخصوص قائم نہ ہو سکا۔ بادشاہِ وقت کا انتقال ہوتا تو اس کے بیٹوں میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی۔ جو راز یورپ کی بادشاہتیں پا چکی تھیں اُس کی نزاکت ہماری بادشاہتیں کیوں نہ محسوس کر سکیں؟ مغل شہنشاہ جہانگیر اور شاہ جہان کے وقتوں میں انگلستان، فرانس، سپین، پرتگال، پَرشیا (Prussia)، سویڈن، ڈنمارک، آسٹرین ایمپائر اور روسی ایمپائر میں اقتدار کا نظامِ وراثت تقریباً طے ہو چکا تھا۔ ہمارے ہاں ایسا نہ ہو سکا۔
بندوقیں اور توپیں تو یہاں بھی بنتی تھیں لیکن اِن ہتھیاروں کی نسبت سے یورپ ہندوستان سے بہت آگے جا چکا تھا۔ یورپ میں توپ خانے کے باقاعدہ سکول بنائے جا رہے تھے لیکن ایسی کوئی درس گاہ یا اکیڈمی ہندوستان میں نہ تھی۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اُس وقت کی ٹیکنالوجی کی طرف ضرور دھیان دیا لیکن یہ بہت بعدکی بات ہے۔ اور ٹیپو سلطان نے بھی یہ سب کچھ یورپ کے اثر کے تحت کیا‘ جب انگلستان اور فرانس برتری کی خاطر کرناٹک کے علاقے میں ایک دوسرے کے سامنے آ چکے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات 1707ء میں ہوئی۔ اُس وقت کی مغل افواج بڑی بھاری بھرکم ہوا کرتی تھیں اور تب تک بھی میدانِ جنگ میں ہاتھیوں پہ انحصار کیا جاتا تھا۔ اِس کے مقابلے میں یورپین افواج کی تربیت اور میدان جنگ میں رفتار یا جسے انگریزی میں موومنٹ (movement) کہتے ہیں‘ اِن میں بہت ترقی آ چکی تھی۔ جنگ کے لحاظ سے جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اُن سے مغل اِتنے بے خبر کیوں رہے؟
اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے عین 32 سال بعد ایران کے حکمران نادر شاہ نے ہندوستان پہ حملہ کیا۔ جیسے مکھن میں سے چھری گزرتی ہے اِس انداز سے نادر شاہ کی فوج دہلی کے قریب پہنچ گئی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ تھے۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں اپنی فوج کو اکٹھا کر کے وہ دہلی سے شمال کی طرف گئے۔ کرنال کے مقام پہ دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا۔ تین گھنٹوں میں مغل افواج کو شکستِ فاش ہوئی اور پھر نادر شاہ نے دہلی کے ساتھ وہ کیا کہ آج بھی پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دہلی کا خزانہ خالی کر گئے۔ شاہجہان کا تخت جسے پیکاک تھرون (Peacock Throne) کا نام دیا گیا تھا اور کوہِ نور ڈائمنڈ بھی وہ لے گئے۔ مغل حرم میں کوئی حسن کا پیکر تھی تو اُس کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ محمد شاہ کی ایک بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے ہوا۔ کچھ صدیوں پہلے امیر تیمور نے بھی دہلی میں قتلِ عام کروایا تھا‘ لیکن جو قتلِ عام نادر شاہ نے کروایا اُس سے دہلی کی گلیاں زیادہ رنگین ہوئیں۔ سوچنے کا مقام یہ بنتا ہے کہ اِتنی طاقت ور سلطنت کا کچھ سالوں میں ہی ایسا حشر کیسے ہو گیا؟ کابل مغل بادشاہت کا حصہ تھا لیکن نادر شاہ کے حملے کے بعد دریائے اِنڈس کے اُس پار سارا علاقہ ایرانی ایمپائر کی ملکیت میں چلا گیا۔
نادر شاہ کی وفات کے بعد احمد شاہ ابدالی حاکمِ کابل بنے۔ اپنے اقتدار میں شمالی ہندوستان خاص کر پنجاب کو اُس نے چین سے نہیں جینے دیا۔ پنجاب پہ پے در پے حملے کئے۔ اِن حملوں کی وجہ سے مغل بادشاہت کا کنٹرول پنجاب پہ نہیں رہا اور پنجاب عملاً افغان سلطنت کی زیرِ تسلط آ گیا۔ افغانی تسلط کو کسی نے توڑا تو وہ کوئی پنجابی مسلمان نہ تھا بلکہ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا۔ رنجیت سنگھ نے نہ صرف پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی بلکہ نوشہرہ اور پشاور پہ بھی اپنا قبضہ جما کے اپنی سلطنت کا حصہ بنایا۔ اگر آج نوشہرہ، پشاور اور ملحقہ پختون علاقے پاکستان کا حصہ ہیں تو ہمیں رنجیت سنگھ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ رنجیت سنگھ کے وارث انگریز بنے اور اِن علاقوں پہ انگریزوں کی وراثت ہم پاکستانیوں کو منتقل ہوئی۔
لاہور کی سکھ بادشاہت 1849ء کو ختم ہوئی جب انگریزوں نے دوسری اینگلوسکھ جنگ کے بعد پنجاب پہ قبضہ کر لیا۔ یعنی ہم پنجابی مسلمان پہلے افغانوں کے محکوم بنے اور پھر سکھوں کی رعایا میں شامل ہوئے۔ اِس کا مطلب ہے کہ تقریباً سو سال کے عرصے تک سیاسی اعتبار سے پنجابی مسلمانوں کا تعلق ہندوستان کے باقی مسلمانوں سے نہ رہا۔ سو سال تک ہندوستان کے باقی مسلمانوں کا وجود الگ تھا اور ہم پنجاب میں بسنے والے مسلمانوں کا وجود مختلف۔ یہ تو انگریز آئے تو یہاں کے بسنے والے انگریز ایمپائر کا حصہ بنے اور اِن کے جداگانہ وجود کا ملاپ باقی ہندوستان سے ہو گیا۔ بالفاظ دیگر یہاں کے مسلمان باسیوں کو سکھ تسلط سے آزادی انگریز حکمرانی نے دلوائی۔
اِس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو ہم جو آج موجودہ پاکستانی مملکت کے کرتا دھرتا ہیں ہمارا تاریخی وجود بڑا دھندلا سا لگتا ہے۔ ہماری آزاد حیثیت تو کبھی رہی نہیں۔ مغلوں کے جانشین ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں لیکن جیسا اوپر بیان کیا ہے‘ اس جانشینی میں ایک بہت بڑا وقفہ آیا جب پنجاب پہ تسلط پہلے افغانوں کا تھا پھر سکھوں کا۔ دونوں صورتوں میں پنجابی مسلمان محکوم تھے۔ بہرحال یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ پنجاب جب انگریز حکمرانی کا حصہ بنا تو انگریز کی وفاداری میں سب سے آگے نکل گیا۔ یہ حیران کر دینے والی بات ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ہندوستانیوں نے انگریز بادشاہ کے جھنڈے تلے جنگی خدمات سرانجام دیں۔ اِس تعداد میں بھاری اکثریت پنجابیوں کی تھی۔ ہندو، سکھ اور مسلمان، بلا تفریقِ مذہب، سب نے وفاداری کے جوہر دکھائے۔ آج بھی موٹر وے پہ بلکسر کے قریب ایک بورڈ آویزاں ہے جس پہ یہ عبارت لکھی ہے کہ دائیں طرف اتنے فاصلے پہ صوبیدار خداداد خان وکٹوریہ کراس کا گاؤں ہے۔ یہ اعزاز انگریزوں کا عطا کردہ تھا لیکن اِس اعزاز کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ دیگر رنگ و نسل کے لوگوں نے بھی نوآبادیاتی یعنی کالونیل فوجوں میں خدمات انجام دیں لیکن جس مستعدی سے ہندوستان کے باسی انگریز پرچم تلے لڑے اُس کی نظیر نہیں ملتی۔
متحدہ ہندوستان میں اسلام کو کوئی خطر ہ نہ تھا۔ مسجدیں آباد تھیں اور نماز و عبادت پہ کوئی قدغن نہ تھا۔ قلعہ اسلام اُن علاقوں کو قرار دیاگیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور انگریز دور میں بھی سیاسی حاکمیت مسلمانوں کی تھی۔ صوبہ سرحد، پنجاب اور سندھ کے چیف منسٹر مسلمان ہوا کرتے تھے۔ فکر تھی تو اُن علاقوں کے مسلمانوں کو جہاں اکثریت ہندوؤں کی تھی لیکن تقسیمِ ہند کی منطق ہی کچھ ایسی بنی کہ ہجرت اُن علاقوں سے ہوئی جہاں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ نتیجہ اُس کا یہ نکلا کہ جو مسلمان رہ گئے اُن کی حیثیت زیادہ مخدوش ہو گئی جیسا کہ ہم آج کل کے ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان حاکمیت کے عروج میں وہاں جس کلچر کا ارتقا ہوا وہ ایرانی یعنی پرشین اور ہندو اثرات کا مرکب تھا‘ جسے انگریزی میں ہم Indo-Persian کہہ سکتے ہیں۔ اِس کلچر کے بڑے مراکز اور گہوارے تقسیم ہند کی وجہ سے اُس پار ہی رہ گئے۔ جو سرزمین ملی اُس کے حاصل کرنے میں بہت کچھ چھوڑنا پڑا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved